• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ نئے نئے سیاسی گٹھ جوڑ بن رہے ہیں۔ کوئی ن سے ق میں، کوئی ف سے ضیاء لیگ اور کوئی اس انتظار میں کب اس کا مول لگے اور وہ بھی کہیں شامل ہوجائے ۔ادھر سے ڈاکٹر طاہر القادری بھی بڑے دھوم دھڑکے سے آ پہنچے ہیں۔ سابق صدر مشرف بھی باہر بیٹھے اپنے تجزیے کررہے ہیں۔ سب پارٹیاں اور ان کے لیڈر ملک کی ترقی اور خوشحالی کے دعوی کررہے ہیں ہر کوئی کہتا ہے کہ اب کے ا نہیں مزید پانچ برس ملے تو وہ چمتکار دکھائیں گے کہ دنیا دنگ رہ جائے گی۔
اس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آگیا کہ جنرل صفدر پنجاب کے گورنر تھے اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) میں ایک تقریب جاری تھی۔ تقریب کے بعد چائے پر ملک کے ایک نامور ای این ٹی سرجن گورنر کے پاس آئے اور کہا کہ سر اگر آپ مجھے صرف سال کی ایکسٹینشن دے دیں تو اس ادارے کو کہاں سے کہاں لے جاؤں گا۔ گورنر صفدر نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس 30 برس تھے ان تیس برسوں میں آپ نے کچھ نہیں کیا اب ان دو برسوں میں آپ کیا توپ چلالیں گے؟لہٰذا میں کوئی ایکسٹینشن نہیں دوں گا ، سو اگر اب ن لیگ یا پی پی یہ دعوی کرے کہ اگر انہیں مزید پانچ سال کے لئے لوگ دوبارہ منتخب کرلیں تووہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال دیں گے تو بھائی پچھلے پانچ برسوں میں آپ نے کون سی توپ چلائی ہے جو اب چلائیں گے۔ جس طرح گورنر صفدر نے اس ڈاکٹر کی درخواست مسترد کردی تھی اسی طرح اب عوام بھی دوبارہ ووٹ مانگنے والوں کو مسترد کردیں جنہوں نے صرف دعوے کئے اور کچھ نہیں کیا۔آپ دیکھ لیں کوئی پارٹی اس ملک میں صحت کی سہولیات، تعلیم کے فروغ کے لئے بات نہیں کرہی ، ہر ایک کو عوام کا درد ہے لیکن عوام کا درد روزبروز بڑھتا جارہا ہے۔ بقول شاعر #
درد دل بڑھتا جائے
ساری ساری رات نیند نہ آئے
دیکھیں ہمارے غریب سے غریب تر ہونے والے عوام کس حال میں ہیں۔20کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں صرف 140ماہر سرطان ہیں، صوبہ پنجاب جس کی آبادی دس کروڑ ہے وہاں صرف اور صرف دو فل پروفیسر کینسر کے، دو ایسوسی ایٹ پروفیسر کینسر کے اور پانچ اسسٹنٹ پروفیسر کینسر کے ہیں۔پاکستان میں ہر سال تین لاکھ نئے مریض سرطان میں مبتلا ہورہے ہیں جن میں ہر سال ایک لاکھ 62ہزار سرطان کے مریضوں کا اضافہ صرف پنجاب میں ہورہا ہے۔ ہر روز200مریض کینسر کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ہمارے حکمران اور پاکستان کی نئی نسل کو مبارک ہونے والے بلاول ان تمام تلخ حقائق سے ناواقف ہیں۔ بلاول جس کو مستقبل کا اس ملک کا حاکم بنانے کے لئے اس کے والد پورا زور لگارہے ہیں انہیں اپنی قومی زبان سے بھی پوری طرح واقفیت نہیں وہ بھلا کیا جانیں بیماری کس چڑیا کا نام ہے؟ اور جس گھر میں کینسر کا مریض ہو اس گھر کے زیورات حتیٰ کہ مکان تک فروخت ہوجاتے ہیں اور مریض پھر بھی تندرست نہیں ہوتا۔کیا الیکشن میں حصہ لینے والوں کو اس بات کا درد ہے کہ ہر روز دو سو افراد سرطان سے کیوں مررہے ہیں وہ اس لئے آپس میں لڑرہے ہیں وہ سب اس ملک میں سرطان میں مبتلا افراد کو جدید سہولیات دینا چاہتے ہیں پورے ملک میں صرف سرطان کی علاج گاہیں 28 ہیں۔پنجاب میں صرف چار ٹیچنگ ہسپتالوں میں سرطان کے مریضوں کو علاج کی سہولت حاصل ہے صرف نوے ہزار مریضوں کا علاج ہوپاتا ہے باقی موت کو گلے اس لئے لگاتے ہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں بستر نہیں ۔جدید سہولیات نہیں غربت بہت زیادہ ہے کینسر کا علاج انتہائی مہنگا ہے۔ صرف امیرلوگ ہی افورڈ کرسکتے ہیں۔
کسی سیاسی جماعت نے اپنے منشور میں یہ لکھا ہے کہ وہ عوام کو صحت کی آگاہی کے لئے کوئی پروگرام دیں گے؟ کتنی سیاسی پارٹیاں ہیں جو سال میں ایک مرتبہ بھی عوام کو صحت کی آگاہی کے لئے کیمپ یا کوئی ا ٓگاہی پروگرام کرتی ہیں کبھی کسی سیاسی پارٹی نے ہیلتھ پر کارنر میٹنگ بلائی کینسر کے مریض کی موت بہت دردناک ہوتی ہے اس کو ا ٓخری ایام میں کونسلنگ کی اشد ضرورت ہوتی ہے ہمارے کتنے رہنماؤں نے کبھی ایسے مریضوں کے لئے کونسلنگ کی یا کتنے ایسے کونسلنگ کے سنٹرز بنائے گئے جہاں پر ایسے مریضوں کی موت کو آرام دہ بنانے کے لئے کوئی کام کوئی رہنمائی ہوتی ہو۔لاہور میں واقع انمول جو وفاقی حکومت کا سرطان کے مریضوں کی علاج گاہ ہے۔ وہاں پر دو پہر دو بجے کے بعد کوئی ڈاکٹر نہیں ہوتا۔ ہم نے ایک مرتبہ فون کیا تو بتایا گیا کہ سرطان کے مریض کو کون سی ایمرجنسی ہوتی ہے۔ یہ مریض دوپہر کے بعد اگلے دن صبح تک صرف اور صرف نرسوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور بقول ڈاکٹر شہریار کے پورے ملک میں سرطان کی تربیت یافتہ صرف دس نرسیں ہیں۔کیسا بے حس معاشرے ہے ،کیسے بے حس ہمارے سیاسی لوگ ہیں جو بیان بازی میں دنیا بھر کے لوگوں سے آگے ہیں لیکن عملاً کچھ نہیں۔سرطان مرض کوئی بڑا امیر چھوٹا یا بڑا دیکھ کر حملہ نہیں کرتا اس کا شکار کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ اگرچہ ہمارے تمام سیاسی رہنما کسی نہ کسی بیماری میں ضرور مبتلا ہیں مگر غیر ملکی علاج ا ور غیر ملکی ادویات کی وجہ سے انہوں نے اپنی بیماریوں پر قابو پایا ہوا ہے مگر کب تک؟ موت بہرحال ایک روز آنی ہے کوئی دوا پھر کارگر نہیں ہوتی لہٰذا کینسر کے دردناک مرض میں مبتلا افراد کیلئے خدا کے لئے ضرور کچھ کریں اوور ہیڈ، انڈر پاس، بائی پاس روز قیامت یہ کام نہیں آئیں گے کام اعمال اور دعائیں آئیں گی۔
ملک میں سرطان کے ماہرین پیدا کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں مزید سرکاری ہسپتالوں میں اس کے علاج کی سہولیات اور جدید مشینیں نصب کرائیں۔
تازہ ترین