• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسئلہ کشمیر پر ملک کی سیاسی قیادت کے اتفاق رائے کا ایک امید افزاء مظاہرہ گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی قومی کشمیر کی کانفرنس کی شکل میں ہوا۔ حکمران جماعت کے سوا ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے قائدین نیز آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم نے بھی کانفرنس میں شرکت کی۔ شرکاء نے اپنے خطابات میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل کشیدگی کے اس بنیادی سبب پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالی اورانسانی حقوق، علاقائی استحکام و ترقی اور عالمی امن کے حوالے سے مسئلے کے جلد از جلد منصفانہ حل کی ضرورت واضح کی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ پاکستان کا بچہ بچہ کشمیر پر قومی موقف کے ساتھ ہے اوراس پر کوئی دو رائے نہیں۔ انہوں نے آمروں کو کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کا ذمہ دار قرار دیا۔آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے بھی اس رائے کی توثیق کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ موجودہ دور میں ایک بار پھر جنرل مشرف کے اس چارنکاتی مردہ فارمولے کو زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس نے کشمیرکازکو مودی سرکار سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کا بھی کہنا تھا کہ چیئرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے انہوں نے حکومتوں اور اداروں کے رویوں کو قریب سے دیکھا ہے اور ان کے نزدیک کشمیر کے حوالے سے موجودہ دور سے زیادہ مایوس کن دور پہلے نہیں آیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ بھی اس رائے کے حامی تھے کہ کشمیر موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ان کا موقف تھا کہ وزیراعظم عمران خان جنرل اسمبلی سے مسئلہ کشمیر کو نیچے لے آئے اور اجلاس میں وزیر خارجہ کو بھیج کر پاکستان کے محدود کردار کا تاثر دیا جس سے کشمیری عوام کو منفی پیغام ملا۔ کئی اہم سیاسی قائدین کی جانب سے کشمیر پر موجودہ وفاقی حکومت کی سردمہری کا یہ شکوہ نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ کانفرنس میںحکمراں جماعت کی نمائندگی بھی ہوتی تو ان خدشات پر حکومتی موقف موقع پر ہی سامنے لایا جاسکتا تھا۔ تاہم کم از کم اب حکومت کو جلد از جلد اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدنے اپنے خطاب میں یہ بھی بتایا کہ اسی ماہ یورپی یونین میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خصوصی اجلاس ہوگا۔اس تناظر میںان کا یہ شکوہ بھی حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کی فوری توجہ کا طالب ہے کہ ’’پاکستان میرا وکیل ہے مگر مجھے بھی تو بات کرنے دی جائے‘‘۔ ان کا یہ اظہار حقیقت بھی پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن دونوں کیلئے قابل غور ہے کہ ’’پاکستان میں سیاسی تلخیوں کی وجہ سے مسئلہ کشمیر گول ہو جاتا ہے‘‘۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اس صورت حال کے ازالے کے بغیر کشمیر کا مقدمہ عالمی سطح پر پوری توانائی کے ساتھ نہیں لڑا جاسکتا۔ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان نے کانفرنس کو کامیاب ترین قرار دیتے ہوئے کشمیر یوں پر بھارتی مظالم کے حقائق پیش کیے۔ انہوں نے بتایا کہ 1947ء میں کشمیر میں ہولو کاسٹ ہوا تھا جس میں2 لاکھ 37 ہزار کشمیریوں کو قتل کیا گیا۔لہٰذا ہم اس دعوے میں حق بجانب ہیں کہ بھارت اب تک پانچ لاکھ کشمیریوں کو قتل کر چکا ہے،بچیوں تک کی بے حرمتی کی جارہی ہے اور چھ ہزار کشمیریوں کو بینائی سے محروم کر دیا گیاہے۔ انسانی حقوق کی علمبرداری کے دعویدار عالمی قوتوں اور انجمن اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی تنظیموں کو حقائق کے اس آئینے میں مظلوم کشمیریوں کی دادرسی کے حوالے سے اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔ چیئرمین پاکستان مسلم لیگ (ن) راجہ ظفر الحق کی یہ تجویز بھی نہایت صائب ہے کہ ایک کشمیر کانفرنس مظفر آباد میں بھی بلائی جانی چاہیے جس میں مسئلے کے تمام پہلوؤں پر کھل کر بات کی جائے اور جس میں کلیدی کردار کشمیریوں کا ہواور پاکستان سہولت کاری کی ذمہ داری انجام دے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو کشمیر کے معاملے میں مکمل یکجہتی کا ثبوت دینا چاہیے، حکومت کو کانفرنس میں ظاہر کیے گئے تمام خدشات کاقول اور عمل دونوںسے ازالہ کرنا چاہیے تاکہ کشمیر پالیسی پر عدم اتفاق کا تاثر ختم ہو جو کشمیر کاز کیلئے سخت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین