• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی ملک کا نظام ٹیکس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ سرحدوں کا دفاع ہو یا اندرونی امن و استحکام، عوامی فلاح و بہبود کے کام ہوں یا دوسرے ضروری امور، اِن کے اخراجات ٹیکسوں ہی سے پورے کئے جاتے ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیکس کے نظام کو اُس کی صحیح روح کے مطابق نافذ کر کے ملکی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لائق بنانے کے بجائے بالعموم قرضوں اور امداد پر انحصار کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کا تناسب اب تک کل آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے، تاہم ایف بی آر کے مطابق 31جنوری 2019ء کو ختم ہونے والے مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں 2061ارب روپے کا ریکارڈ ٹیکس وصول کیا گیا جو مالی سال 2018ء کے سات مہینوں میں جمع کئے گئے ٹیکس سے 3فیصد زیادہ ہے جبکہ ٹیکس گزاروں کی تعداد میں اسی مدت میں پچھلے سال کی نسبت 36فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورت حال یقیناً خوش آئند ہے حالانکہ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ تک ہائی اسپیڈ ڈیزل پر ٹیکس 30فیصد سے کم ہو کر اوسطاً 17فیصد، موٹر اسپرٹ (پیٹرول) پر سیلز ٹیکس 18فیصد سے کم ہو کر اوسطاً 10فیصد جبکہ پیٹرول پر 17فیصد سے کم ہو کر 8فیصد رہ گئے ہیں۔ ٹیکس ادا کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے اور ٹیکسیشن کا عمل ترقی کیلئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ٹیکس آمدنی میں اضافہ موجودہ حکومت کے منشور کا اہم حصہ ہے اور یہ بات اطمینان بخش ہے کہ محصولاتی آمدنی بڑھانے کیلئے اس کی جانب سے ہر ممکن اقدام کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ٹیکس نظام بہت پیچیدہ ہے، عوام ٹیکسوں کی اہمیت کو سمجھتے تو ہیں مگر اُنہیں کئی طرح کے خدشات اور تحفظات بھی ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ حکومت اُن کے ادا کئے ٹیکسوں کو اللے تللوں میں اُڑا دیتی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت ٹیکس کے نظام کو سہل بنانے کیلئے اِن میں فوری اصلاحات کرے تاکہ عوام کو یہ اعتماد ہو کہ ٹیکسوں کی مد میں ادا کی جانے والی اُن کی رقوم اُنہی کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال میں لائی جائیں گی۔

تازہ ترین