• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اَسد اللہ خان (مرزا غالب ؔ) برصغیر کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ جس طرح مثنوی روم کو اہم ترین کتاب کا درجہ دیا جاتا ہے اسی طرح دیوان غالب کو بھی یہی درجہ حاصل ہے۔ انہوں نے خود کہا ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں

غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے

جب میں15برس یورپ میں گزار کر واپس پاکستان آیا اور مرحوم بھٹو صاحب کی درخواست پر ایٹمی پروگرام کی بنیاد ڈالی تو مجھے ہمارے مرحوم گارڈ صوبیدار صبح صادق نے بتلایا کہ وہ دمیک نامی گائوں میں رہتا ہے اور وہاں (سوہاوہ) میں سلطان شہاب الدین غوری کی قبر ہے۔ میں فوراً وہاں گیا اور دیکھا کہ ایک کچی قبر ہے جس پر جنرل شیر علی خان نے کتبہ لگایا ہوا تھا کہ سلطان شہاب الدین وہاں دائمی آرام فرما رہے ہیں۔ انھوں نے آس پاس کی چند کنال جگہ خرید کر تار لگا دیا تھا۔ میرا خون گرما گیا کہ یہ شخص جس نے ہندوستان میں اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی تھی وہ اس حالت میں دفن ہے۔ میں نے دس کنال جگہ اور خریدی، ایک کمرہ، کچن، باتھ روم مہمانوں کیلئے اور ایک کمرہ، باتھ روم، کچن ڈرائیوروں اور گارڈ کیلئے بنوادیا، مقبرے کا نقشہ ہمارے پیارے دوست انجینئر خضر حیات (نقوی صاحب) نے تیار کیا اور میںنے تقریباً ایک کروڑ کی رقم سے نہایت اعلیٰ سنگ مرمر کا مقبرہ تیار کرایا۔ دوستوں نے نیک کام میں ہاتھ بٹایا۔ وہاں ایک بڑی مسجد، مدرسہ اور حافظ صاحب اور مؤذن کی رہائش بھی تعمیر کرائی، کچھ ہی عرصے میں وہاں اسکولوں، کالجوں اور مختلف تنظیموں کے وفد آنے لگے اور اس طرح سلطان کے مقبرےاور ان کے تین ساتھیوں کی قبروں پر (جو اُن کیساتھ شہید ہوگئے تھے) فاتحہ پڑھنا شروع کر دی۔ جب مجھ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے مقبرہ کیوں بنوایا تو میں نے عرض کیا کہ آپ رنجیت سنگھ، بھگت سنگھ کی یادگاریں بناتے ہیں اسلئے میں نے سلطان کا مقبرہ تعمیر کیا۔ اس میں ماربل میں قرآنی آیات تحریر ہیں۔ کتبے پر میں نے غالبؔ کا یہ شعر لکھا ہے۔

مقدور ہوتو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

یہ شعر مجھے اسلئے یاد آیاکہ پچھلے دنوں ہمارے مشہور، قابل احترام، قانون داں ایس ایم ظفر صاحب کے چھوٹے صاحبزادے طارق ظفر کا حرکت قلب بند ہونے سے اچانک انتقال ہوگیا۔ نہایت خوبصورت، ذہین نوجوان تھے اورکچھ عرصہ ہمارے ساتھ کے آر ایل میں کام بھی کیا تھا انجینئر تھے بعدمیں اپنا کام شروع کر دیاتھا۔ ان کا ایک فارم پنسٹیک کے قریب تھا اور وہ ہر سال ہمیں نہایت اعلیٰ میٹھے سیاہ انگور اور اسٹرابریز بھیجتے تھے۔ والد ایس ایم ظفر صاحب اور بھائی بیرسٹر علی ظفر کی طرح ان کے دل میں خدمت خلق کا گہرا جذبہ تھا۔ انھوں نے دیکھا کہ پاکستان کے شہروں اور دیہاتوں میں کافی تعداد منشیات کی عادی ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ نہ صرف غربت کاشکار ہوتے ہیں بلکہ بے روزگاری اور بے بسی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے فوراً مصمم ارادہ کرلیا کہ ان لوگوں کی رہنمائی کی جائے، ان کی ہرطرح سے مدد کی جائے۔ انھوں نے نہ صرف لاتعداد لوگوں کو منشیات چھوڑنے پر راضی کرلیا بلکہ ان کو عزّت سے رزق کمانے کے مواقع بھی فراہم کئے۔ انھوں نے ہر متاثرہ شخص کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام دلوایا اور خاندان کو بحال کردیا۔مرحوم طارق ظفر ایک فرشتہ خصلت انسان تھے جب انھوں نے دیکھا کہ ملک میں HIV اور Hepatitis B & C بہت تیزی سے پھیل رہا ہے تو وہ اس لعنت سے نمٹنے کیلئے کمربستہ ہوگئے انھیں معلوم ہوا کہ تقریباً 50 فیصد لوگ جو منشیات کے عادی تھے، شادی شدہ تھے انکے بچے بھی تھے، وہ بیروزگار تھے اور گھر چلانے کا بوجھ خواتین پر پڑ گیا تھا۔ طارق کو فوراً علم ہوگیا کہ لاتعداد نوجوان بھی منشیات کے عادی تھے اور اس کیلئے جرائم کے مرتکب ہورہے تھے۔ طارق نے ان مصیبت زدہ اور بے سہارا لوگوں کو سہارا دیا۔ انکو منشیات سے نجات دلائی، ملازمتیں دلوائیں اور انکا مکمل علاج کروایا۔طارق کی خدمات اور اس کی افادیت کا احساس کرکے ہالینڈ کی مشہور فلاحی تنظیم مین لائن فائونڈیشن نے طارق کے ادارے کیساتھ تعاون شروع کیا کہ ضرورتمندوں کی مدد کی جائے۔ 22 جنوری کو طارق کی وفات پر اس ڈچ ادارے نے نئی زندگی کے خالق طارق ظفر کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ انھوں نے طارق کی رحلت پر سخت افسوس کا اظہار کیا اور ان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کمی بہت شدت سے محسوس کی جائے گی۔ طارق کی رحلت و جدائی سے پاکستان ایک غریب دوست، بیمار دوست، ایک بہادر انسان دوست اور ایک فرشتہ خصلت انسان سے محروم ہو گیا۔ اللہ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین۔ طارق کے انتقال اور تجہیز و تدفین کے وقت غالب ؔکا ہی یہ شعریاد آگیا جو انھوں نے اپنے نوجوان عزیز، عارف، کی رحلت پر کہا تھا۔

جاتے ہوئے کہتے ہو، قیامت کو ملیں گے

کیا خوب، قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

طارق کو اگر دُکھ درد دور کرنے والا مسیحا، ہیرو کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔

ایک اور فرشتہ خصلت نہات اعلیٰ بھوپالی شاعر، محسن بھوپالی کی 17؍جنوری کو برسی تھی۔ یہ بھوپال کی شناخت تھے، اس کی آن تھے، اسکی شان تھے۔ چند ماہ پیشتر میں نے آرٹ کونسل کراچی میں ان کی کلیات کی رونمائی کی تھی اس میں کراچی کے نامور ادیب، مصنف اور شعراء نے شرکت کی تھی۔ اس کا انتظام میرے نہایت پیارے بھوپالی دوست سینیٹر عبدالحسیب خان نے کیا تھا۔

محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمٰن تھا اور وہ 29ستمبر 1932ء کو بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگپور میں پیدا ہوئے تھے۔ 1947ء میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان آگئے اور پہلے لاڑکانہ میں سکونت پذیر ہوئے، کچھ عرصے حیدرآباد میں رہائش اختیار کی اور پھرکراچی منتقل ہو گئے۔ این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ایگزیکٹیو انجینئر کی حیثیت سے 1993ء میں ریٹائر ہوئے۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔محسن ؔبھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ ان کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ پچاس کے عشرے میں محسن بھوپالی کو اس وقت شہرت ملی جب تحریک پاکستان کے رہنما سردار عبدالرب نشتر نے ایک جلسے میں انکا شعر ’’نیرنگیٔ سیاست دوراں تو دیکھئے۔ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ پڑھا۔ یہ شعر زبان زد عام ہوگیا اور محاورے کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ یہ قطعہ ان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں اُن سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

تلقینِ صبر و ضبط وہ فرما رہے ہیں آج

راہِ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے

نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھئے

منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے

محسن بھوپالی کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1961ء میں انکے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئےگئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔ انھوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔ محسن بھوپالی 10کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’شکست شب‘‘ 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کے علاوہ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں ’جستہ جستہ‘، ’نظمانے‘، ’ماجرا‘، ’گرد مسافت‘، ’قومی یک جہتی میں ادب کا کردار‘، ’حیرتوں کی سرزمین‘، ’مجموعہ سخن‘، ’موضوعاتی نظمیں‘، ’منظر پتلی میں‘، ’روشنی تو دیے کے اندر ہے‘، ’جاپان کے چار عظیم شاعر‘، ’شہر آشوب کراچی‘ اور ’نقد سخن‘ شامل ہیں۔

1988ء میں وہ شدید بیمار ہوگئے اور اسی عرصے میں انکے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا۔ اسکے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اسکے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات کو جاری رکھا اور مشاعروں میں باقاعدہ شرکت کرتے رہے۔ 17جنوری 2007ء کو محسن بھوپالی دنیا سے رخصت ہوئے طارق ظفر اور محسن بھوپالی جیسے لوگوں کیلئے ہی غالب کا شعر صادق آتا ہے۔

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے

تازہ ترین