• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں وزیر خزانہ اسد عمر نے پی ٹی آئی حکومت کا دوسرا منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا جسکا نام ’’معاشی اصلاحات بل‘‘ تھا۔ بجٹ پیش کرنے سے کچھ دن پہلے وزیر خزانہ کراچی آئے تھے جہاں انہوں نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI)، کراچی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹریز کا دورہ کیا اور بزنس کمیونٹی سے ملاقاتیں کیں جس کا ون پوائنٹ ایجنڈا پاکستان میں بزنس میں حائل مشکلات کو دور کرنا تھا جس کی تفصیل میں اپنے گزشتہ کالم میں قارئین سے شیئر کرچکا ہوں۔

منی بجٹ میں عام طور پر اضافی ٹیکسز اور ڈیوٹیز لگاکر ریونیو کا ہدف پورا کرنا ہوتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ بزنس کمیونٹی کو نئے ٹیکسز لگنے کے خدشات تھے لیکن اس بار منی بجٹ میں نئے ٹیکسز لگانے کے بجائے پاکستان میں بزنس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کچھ حد تک دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ بجٹ میں دی جانے والی مراعات کی مد میں حکومت کو 7ارب روپے کی ریونیو کمی کا سامنا ہوگا جس کی وجہ سے کرنٹ اکائونٹ اور مالیاتی خسارےپر منفی اثر پڑے گا۔ بجٹ میں صنعت و زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری پر مراعات کا اعلان، اسٹاک ایکسچینج ٹریڈنگ پر ودہولڈنگ ٹیکس اور یکم جولائی سے نان بینکنگ سیکٹر میں سپر ٹیکس کا خاتمہ، بڑی گاڑیوں، سگریٹ اور لگژری آئٹمز پر اضافی ٹیکسز، ٹیکس فائلر کیلئے بینک سے کیش لین دین پر ٹیکس کا خاتمہ، نان فائلر کیلئے 1300سی سی تک گاڑی خریدنے کی اجازت، چھوٹے موبائل سستے اور اسمارٹ موبائل فون کے ٹیکسز میں اضافہ، زرعی اور چھوٹی صنعتوں کے قرضوں پر بینک کے ٹیکس کی شرح 39فیصد سے کم کرکے 20فیصد کردی گئی ہے، خصوصی اقتصادی زون میں صنعتوں کے قیام اور متبادل توانائی کے گرین فیلڈ منصوبوں جس میں ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبے شامل ہیں، میں سرمایہ کاری پر پانچ سالہ ٹیکس کی چھوٹ، کارپوریٹ ٹیکس میں سالانہ ایک فیصد کی کمی اور کاروباری اکائونٹس پر 6فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کی حتمی ادائیگی قابل ذکر ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو انکم ٹیکس میں رجسٹرڈ کرائے بغیر گاڑی اور مکانات لینے کی سہولت بھی دی گئی ہے۔

وزیر خزانہ کو فیڈریشن نے ان کے حالیہ کراچی کے دورے میں ایکسپورٹرز کے 250ارب روپے کے سیلز، انکم ٹیکس، DLTL، ریبیٹ جو تین سال سے ادا نہیں کئے گئے،کی فوری ادائیگی اور گیس کے بلوں میں انفرااسٹرکچرسیس (GIDC) ختم کرنے کی تجویز دی تھی۔ منی بجٹ میں فرٹیلائزر کی صنعت پر GIDCمیں کمی کی گئی ہے جس سے یوریا کھاد کی قیمت میں 200روپے فی بوری کمی آئی ہے اور اس کا فائدہ کاشتکاروں کو پہنچے گا لیکن باقی دیگر صنعتوں پر GIDCکے مسئلے پر کوئی اعلان نہیں کیا گیا حالانکہ ٹیکسٹائل کی نمائندہ ایسوسی ایشن اپٹما اور صنعت کے دیگر شعبے جن کے گیس کے بلوں میں ہر مہینے GIDCلگ کر آتا ہے اور وہ اسے کورٹ میں جمع کرارہے ہیں، بھی چاہتے ہیں کہ ان کا GIDCکا مسئلہ باہمی رضامندی سے حل ہوجائے جبکہ فیڈریشن نے GIDC کا نفاذ غیر ضروری قرار دیا ہے کیونکہ GIDCپاک ایران، پاک ترکمانستان گیس پائپ لائن اور ایل این جی کے ٹرمینلز کیلئے انفرااسٹرکچر بنانے کیلئے لگایا گیا تھا لیکن دونوں گیس پائپ لائن منصوبوں کا عملی طور پر وجود نہیں جبکہ ایل این جی ٹرمینلز کی تکمیل میں نجی شعبے نے سرمایہ کاری کی ہے لہٰذا ان منصوبوں کیلئے گیس انفرااسٹرکچر سیس لگانا غیر منصفانہ اور ناجائز ہے اور پاکستان کی بزنس کمیونٹی صنعتکاروں اور ایکسپورٹرز نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ GIDCکو گیس بلوں سے ختم کرے تاکہ ہماری صنعت اور ایکسپورٹ مقابلاتی ہو سکیں۔ پاکستان میں گیس کے نرخ خطے میں سب سے زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹس کی مقابلاتی سکت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

میں وزیر خزانہ کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ایکسپورٹرز کو 80ارب روپے کے حکومتی تین سالہ اقراری بانڈز (Promissory Note) جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن دراصل ایکسپورٹرز کے مجموعی ریفنڈز 250ارب روپے کے ہیں لہٰذا حکومت باقی 170ارب روپے کے انکم ٹیکس، DLTLاور ریبیٹ کے ریفنڈ بھی حکومتی اقراری بانڈ کے ذریعے ادا کرے جس کو بینک سے 10فیصد شرح سود پر ڈسکائونٹ کرواکر فوری پیمنٹ حاصل کی جاسکتی ہے حالانکہ ایسا کرنے میں بینکوں کا مارک اپ ایکسپورٹرز کو ادا کرنا ہوگا جو ایک اضافی بوجھ ہے۔ زراعتی اور چھوٹے درجے کی صنعتوں کے بینک قرضوں پر ٹیکس کی پچاس فیصد کمی سے ان شعبوں کو فروغ دینے میں مدد ملے گی لیکن اب یہ بینکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایگریکلچرل اور ایس ایم ایز کے بینکوں کے قرضوں کے موجودہ اونچی شرح سود 21فیصد میں 50فیصد کمی کریں تاکہ معیشت کے یہ اہم شعبے فروغ پاسکیں۔

بجٹ میں اخبارات میں نیوز پرنٹ پر ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے لیکن نصابی کتابوں کے پرنٹنگ پیپرز پر 62فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں کتابوں کی لاگت میں اضافہ ہورہا ہے اور ایک متوسط طبقے کی فیملی جس کے کئی بچے اسکول جاتے ہیں، کیلئے اسکول کی کتابیں خریدنا برداشت سے باہر ہوتا جارہا ہے جبکہ کتابوں کی امپورٹ پر کوئی ڈیوٹی نہیں۔ اس بجٹ پر مختلف چیمبرز اور فیڈریشن نے ملا جلا رجحان پیش کیا ہے۔ میرے نزدیک حکومت اور وزیر خزانہ اسد عمر نے بے شمار معاشی چیلنجز کی موجودگی میں پاکستان میں بزنس کرنے میں حائل مشکلات کو دور کرنے اور کچھ اہم شعبوں کو فروغ دینے کیلئے جن مراعات کا اعلان کیا ہے، وہ قابل تحسین ہیں۔ بجٹ کے بعد وزیر خزانہ فیڈریشن کے لاہور زونل آفس میں 28جنوری کو دوبارہ تشریف لائے تھے اور انہوں نے بزنس کمیونٹی کے تحفظات دور کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

طالبان کو مذاکرات کی میز پر لاکر پاکستان نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے۔ افغانستان میں 17سالہ جنگ کے خاتمے کیلئے پاکستان کی کاوشیں قابل قدر ہیں جس کی وجہ سے امریکہ افغانستان سے جانے پر تیار ہوا اور پاکستان نے امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اورقطر کے ساتھ دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنا ہدف حاصل کرلیا۔ خطے میں پاکستان کے اہم کردار کے پیش نظر سعودی عرب اسلامی ترقیاتی بینک کے ذریعے پاکستان کو سالانہ 1.5ارب کے حساب سے 3سال تک 4.5ارب ڈالر کا تیل ادھار دے گا۔ سعودی عرب نے 3ارب ڈالر سافٹ ڈپازٹ اسٹیٹ بینک میں منتقل کردیئے ہیں جبکہ عرب امارات نے اب تک ایک ارب ڈالر پاکستان کو منتقل کئے ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید 2ارب ڈالر منتقل کرے گا۔ اس کے ساتھ متحدہ عرب امارات پاکستان کو ادھار تیل کی سہولت کیلئے بھی تیار ہے جبکہ ایل این جی گیس کیلئے یہی سہولت قطر نے بھی دینے کا عندیہ دیا ہے۔ طالبان مذاکرات پر امریکہ کی خوشنودی سے ہمیں آئی ایم ایف سے نرم شرائط پر قرضہ لینے میں مدد ملے گی۔ چین اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کیلئے تیار ہے جو ایک کامیاب خارجہ پالیسی کا مظہر ہے اور مجھے امید ہے کہ دوست ممالک کی مدد سے پاکستان اپنے معاشی چیلنجز پر بہت جلد قابو پالے گا۔

تازہ ترین