• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ماں کے لہجے اور شکل کی جھلک اور باپ کی سوچ اور الفاظ لیے بلاول زرداری ( جس کو سیاسی مقاصدکے حصول کے لیے 2007 میں بلاول بھٹو زرداری کا نام دے دیا گیا تھا)نے 27 دسمبر کو عملی سیاست میں ایک ایسے وقت میں قدم رکھا جب آئندہ الیکشن اب صرف چند ماہ دور ہیں اور جب اقتدار میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بلاول کے علاوہ کوئی دوسرا سہارا نہیں جس کے زور پر ایک بار پھر الیکشن جیتنے کا سوچا جا سکتا ہو۔ جب کارکردگی زیرو ہو اور پانچ سال لوٹ مار اور نااہل حکمرانی میں گزارے ہوں، عوام کو مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بھوک اور بے روزگاری کے علاوہ کچھ نہ دیا ہو اور ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہو تو پھر عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے کسی موثر بہانے کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ شاید بلاول کو بھی خود اس وقت یہ احساس نہ ہو کہ اُسے تُرپ کے پتے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور اُس کی زبان سے وہ الفاظ کہلوائے جا رہے ہیں جو اُس کے اپنے نہیں اور جس کا مقصد لوگوں کو بے وقوف بنانا ہے۔ بلاول کو سن کر نوڈیروکے جلسے میں موجود کئی جیالے رو پڑے ۔ اُن کو بلاول میں اپنی بی بی کا عکس نظر آیا۔ اپنی قومی زبان سے نابلد بلاول کو حالیہ مہینوں میں اردو پڑھائی گئی اور اس موقع پر تقریر رٹائی گئی تا کہ بیٹے کی زبان سے ماں کا لہجہ عوام کو سنا کر پارٹی میں کوئی جان پیدا کی جاسکے۔ بے چارے بلاول نے تو اداکاری کر دی اور بہت سوں کے مطابق خوب کی۔ کچھ کا خیال ہے کہ اُس کے چہرے کے تاثرات اور الفاظ میں کوئی ربط نہ تھا۔ ویسے تو پی پی پی کو ایک نیا رہنما مل گیا مگر جو تقریر پارٹی چئیرمین نے کی اُس میں کوئی نیا پن تھا نہ کوئی نئی سوچ بلکہ وہی گلے شکوے، وہی طنز، وہی نعرے اور وعدے، وہی سب کچھ جوسن سن کر کان پک گئے۔ گزشتہ سال بینظیر بھٹو کی برسی پر کی گئی صدرآصف علی زرداری کی تقریر پڑھ یا سن لیں اور اُس کا تقابل بلاول کی اس سال کی تقریر سے کر یں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہی تقریر پہلے باپ اور پھر بیٹے نے ایک سال کے وقفہ سے پڑھی۔ 27 دسمبر 2011 کو آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوء ے کہا تھا.... چوہدری افتخار صاحب! بینظیر کیس کا کیا ہوا؟ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ بی بی کے کیس کا کیا ہوا؟ 30 سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کا کیس اُٹھا رہا ہوں۔ دوسرے کیسز آپ کو نظر آ رہے ہیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم نے پہلے بھی ایسے اکھاڑے دیکھے ہیں۔ وقت آیا تو ہم آپ کے سامنے بھی آئیں گے..........۔27 دسمبر 2012 کو اپنے خطاب میں بلاول نے چیف جسٹس کا نام لیے بغیر کچھ یوں کہا.....میں آج ملک کے سب سے بڑے قاضی سے سوال کرتا ہوں کہ آپ کو سب کچھ پتا ہے مگر پھر بھی آپ کو رات کی تاریکیوں میں اٹھنے والا قائد عوام کا جنازہ کیوں نظر میں آتا؟ پیپلزپارٹی کا ہر ایک ورکر بھٹو ریفرنس کے فیصلے کا انتظار کر رہا ہے...... آپ کو راولپنڈی کی سڑکوں پر بینظیر بھٹو شہید کے خون کی سرخی کیوں نظر نہیں آتی...... میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کا وارث، میں شہید بینظیر بھٹو کا بیٹا آپ سے پوچھتا ہوں کہ میری ماں کے قاتل جو گرفتار ہیں انہیں سزا کیوں نہیں دیتے؟ سیاست کی خاطر بلاول نے یقیناً وہ کچھ بول دیا جو اسے لکھ کر دیا اور یاد کروایا گیا مگر کیا بینظیر کا بیٹا یہ نہ سوچتا ہوگا کہ پی پی پی کی حکومت نے بینظیر قتل کیس میں پانچ سال گزرنے کے باوجود کیوں اصل مجرموں کو نہ پکڑا، جنرل مشرف جس کا نام بی بی نے اپنی زندگی میں اپنے قاتلوں کی فہرست میں لکھوا دیا تھا اُسے کیوں بی بی اور بھٹو کے نام پر سیاست اور حکومت کرنے والوں نے ملک سے بھاگنے دیا، مسلم لیگ ق جسے قاتل لیگ کہا گیا کو کیوں گلے لگا لیا گیا، بی بی کے نام کو استعمال کر کے وزارتوں اور اعلیٰ عہدوں پر عیاشیاں کرنے والے پارٹی رہنماؤں میں سے کتنوں نے بینظیر قتل کیس میں اتنی بھی دلچسبی لی کہ کیس کی کارروائی سننے کے لیے راولپنڈی کی متعلقہ عدالت میں وہ ایک مرتبہ بھی گئے ہوں ،کیا حکومت یا ایوان صدر نے ایک بار بھی متعلقہ عدالت کو اپنے اس اعتراض سے آگاہ کیا کہ بینظیر کے گرفتار مبینہ قاتلوں کو کیوں سزا نہیں دی جا رہی، کیا ان قاتلوں کو سزا دلوانے کے لیے ثبوت سپریم کورٹ اور چیف جسٹس نے فراہم کرنے ہیں یا کہ یہ بنیادی ذمہ داری موجودہ پی پی پی کی حکومت کی تھی۔ کیا بلاول سیاست کی بے حسی اور سنگدلی پر نہ روتا ہو گا کہ اُس کی ماں کے قاتلوں کی گرفتاری اور اُن کو سزا دلوانے کی بات کو اب تو ہر سال 27 دسمبر کوگڑھی خدا بخش کے موقع پر کی جانے والی تقریر کا سیاسی نعرہ بنادیا گیا۔ جب اپنی حکومت ہونے کے باوجود بینظیر کے قاتلوں اور سازش کو بے نقاب کرنے میں پی پی پی نے دلچسبی نہ لی تو دوسروں کو کوسنا کہاں کا انصاف ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ بلاول ایک نئی سوچ کے ساتھ ایک نئے پاکستان کے لیے جدوجہد کرنے والا پاکستانی سیاست میں ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا ہوتا، جو کرپشن سے نفرت کرتا، جو نااہل حکمرانی کو ناقابل برداشت سمجھتا ، جوسیاست کو ڈرامہ اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کی بجائے عبادت سمجھتا،جو خوشامد کو ناپسند اور اقرباء پروری کے خلاف ہوتا۔ مگر افسوس کہ بلاول نے اپنی سیاست کی ابتدا اُسی طرز سے کی جس نے گزشتہ چار پانچ سالوں میں پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا۔ سیاستدانو خدارا عوام کو بے وقوف نہ بناؤ۔
تازہ ترین