• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حروف کو خُوب صورت انداز میں لکھنے کا فن ’’خطّاطی‘‘ اور لکھنے والا ’’خطّاط‘‘ کہلاتا ہے۔ فنِ خطاطی، اسلامی تہذیب و ثقافت کا اہم ترین مظہر ہے۔یہ ایسا فن ہے، جو خوب صورت، دل نشیں الفاظ کی صُورت کینوس پر اُجاگر ہوکر لوگوں کے دل موہ لیتا ہے۔ الفاظ میں ایسے رنگ بھر جاتے ہیں کہ انسان دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ ویسے تو کینوس پر قوسِ قزح کے رنگ بکھیرنے والوں کی کسی دَور میں کمی نہیں رہی۔ ایسے دیوانوں، فرزانوں کی ایک لمبی فہرست ہے، جنہوں نے اس فن میں کی آبیاری کے لیے پوری زندگی وقف کردی۔ اور مملکتِ پاکستان میں تو اس کے ماہرین نے نہ صرف قدیم اسلامی فنِ خطّاطی کو زندہ رکھا، بلکہ اس میں ندرت و جدّت پیدا کرکے مزید دِل کشی بھی پیدا کی۔

عہدِ حاضر میں پاکستان میں جو خطّاط، مصوّر اور آرٹسٹ اس فن کی خونِ جگر دے کر نمو کررہے ہیں، اُن میں منوّر اسلام ابنِ نادر القلم بھی ایک نمایاں نام ہے۔ وہ عبدالواحد نادر القلم کے فرزند ہیں، جنہیں پاکستان میں اسلامی خطّاطی کی نمایشوں کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ عبدالواحد نادر القلم نے 1960ء میں خطّاطی کی پہلی نمایش لاہور میں منعقد کی۔ نادرالقلم گھرانہ تین نسلوں سے اس فن کی خدمت کررہا ہے۔ منوراسلام ابن نادر القلم کی ایک صاحب زادی اور پانچ صاحب زادےہیں،اور یہ سب فن خطّاطی سے وابستہ ہیں۔ صاحب زادی، اسماء نیّر، میانی صاحب قبرستان ، لاہور میں کلامِ ساغر پر خطّاطی کی منفرد نمایش کرچکی ہیں۔ منور اسلام آج کل خطّاطی کا تین سو فٹ چوڑا اور 6فٹ لمبا میورل تیار کرنے میں مصروف ہیں، جسے وہ 2021ء یں نمایش کے لیے پیش کریں گے۔

خطّاط اور مصوّر، منور اسلام کو عربی کے تمام اسلوبِ خطّاطی پر مہارت حاصل ہے اور اسی سبب دنیا بھر سے لاتعداد انعامات و اعزازات اور اسناد کی صورت خاصی پزیرائی بھی حاصل کرچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کے کام کے حوالے سے ہماری ان سے مختصر بات چیت ہوئی، تو انہوں نے بتایا کہ’’اسلامی خطّاطی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ میری معلومات کے مطابق تو اس فن کی ابتدا حضور نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہوئی اور اس حوالے سے ابتدائی شخصیات میں حضرت علی ؄ کا نام نمایاں ہے۔ بعد میں جب اسلام حجازِ مقدس سے ایران، اسپین، عراق اور برصغیر سمیت دیگر ممالک میں پہنچا، تو اس فن کو جیسے چار چاند لگ گئے۔ عربی خطّاطی کے علاوہ دوسرے کئی پیراہن بھی منظر عام پر آئے۔ تاہم، عربی میں یہ ’’خطِ اسلامی‘‘ ہی کے نام سے موسوم ہے۔ اسلامی خطّاطی کی ترویج و ترقی کا اصل سرچشمہ کتابِ مقدس، قرآن حکیم ہی ہے کہ جس کی آیات مبارکہ کو خوب صورت انداز سے تحریر کرکے اس فن کو اجاگر کیا گیا۔ اسلامی خطّاطی کی دوبڑی اقسام خطِ کوفی اور خطِ نسخ کے بعد کئی اور اقسام بھی سامنے آئیں، جن کے استعمال کے لیے بنیادی طور پر تو قلم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم، عہدِ حاضر میں کئی اور جدید ذرائع بھی سامنے آگئے ہیں۔ دراصل 9ویں صدی میں کاغذ کی ایجاد کے بعد پوری دنیا میں خطّاطی کے حوالے سے ایک انقلاب برپا ہوگیا۔ تاہم، باقاعدہ تعلیم و ترویج کا آغاز بغداد سے ہوا، جو آگے چل کر برِصغیر اور اسپین کے وسیع خطّوں تک پھیل گیا۔692ء میں مسلمان حکمرانوں نے سکّوں پر بھی خطّاطی متعارف کروائی۔ جب کہ عہدِ جدید میں اسلامی خطّاطی میں انقلاب اس وقت آیا، جب شمالی افریقا اور مشرقِ وسطیٰ میں سرگرمِ عمل خطّاطوں نے ماڈرن آرٹ موومنٹ کو متعارف کروایا، جو ’’تحریکِ حروفیہ‘‘ کہلاتی ہے۔ ان خطّاطوں نے خطّاطی کو عہدِ جدید کے گرافک ڈیزائن اور جدید تقاضوں میں ڈھالا۔ بعدازاں، اسلامی خطّاطی عہدِ جدید کے آرٹ ورک میں ڈھل گئی۔ تاہم، اس کے بنیادی اصول اور ثقافتی تقاضے وہی رہے، جو صدیوں سے چلے آرہے تھے، پھر رفتہ رفتہ دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں خطّاطوں نے اپنے اپنے طور پر اسلامی خطّاطی کو مسلسل آگے بڑھایا، جس کے نتیجے میں آج اسلامی ممالک میں اس فن کے اَن گنت رنگا رنگ اور دل نشیں نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مغل فرماں رواں، شاہ جہاں کے دَور میں تو خطّاطی کو قابلِ قدر فروغ حاصل ہوا اور اس کی سب سے بڑی مثال، مغل طرزِ تعمیر کا عمدہ نمونہ ’’تاج محل‘‘ کو قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے درو دیوار پر نقش قدیم و جدید روایات سے مزیّن قرآنی آیات کے نمونے، ہر دیکھنے والے کے ذہن و قلوب کو منور کردیتے ہیں۔‘‘

منور اسلام نے مزید بتایا کہ’’پاکستان میں سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باعث یہ فن معدوم ہوتا جا رہا ہے، تاہم ہمارے آرٹسٹوں اور خطّاطوں نے مغربی آرٹ کی اثر انگیزی کے باوجود اسلامی خطّاطی کی روشن روایات کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ہر خطّاط کی مساعی اپنی جگہ قابل تعریف ہے۔ میرے والد، عبدالواحد نادر القلم کا خطِ نستعلیق میں لکھا پاکستان کا قومی ترانہ گزشتہ تین دہائیوں سے لاہور کے عجائب گھر کی زینت ہے۔‘‘منور اسلام کو خطِ نستعلیق ،ثلث، نسخ کوفی اور بالخصوص خطِ دیوانی پر مکمل عبور حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے والد کے علاوہ استاد حافظ محمد یوسف سدیدی سے بھی اس فن کی باریکیوں سمیت دیگر امور پر اکتساب کیا۔ وہ ہمیشہ باوضو ہو کر خطّاطی کرتے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے قائداعظم میڈل برائے اسلامی خطّاطی حاصل کرنے والے، منور اسلام اب تک 600پینٹنگز اور 200 کمپوزیشنز (اسکیچز) بناچکے ہیں۔ ان کی خطّاطی کے نمونے ملک بھر میں بہت سی اہم جگہوں پر آویزاں اپنی بہاریں دکھا رہے ہیں۔ خطِ دیوانی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’خطِ دیوانی بہت خوش نظر اور جاذبِ نگاہ ہے۔ یہ برصغیر اور عرب ممالک میں بہت مقبول ہے، لیکن پاکستان میں اس پر بہت کم کام ہوا ہے، اور اس کی وجہ محدود وسائل اور حکومتی سرپرستی کا فقدان ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ’’ ان خطاط کے ہاتھ کا لکھا ایک ایک لفظ تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔

کمپیوٹر پر خطّاطی کے پرنٹ تو بن سکتے ہیں، وقت بھی بچایا جاسکتا ہے، لیکن یہ پرنٹ تاریخ کا حصّہ نہیں بن سکتے۔‘‘ایک سوال کے جواب میں منور اسلام کا کہنا تھا کہ’’فن کار اپنے بچّوں کے منہ سے نوالہ چھین کر اپنا فنی شوق پورا کرتا ہے، اور اس ضمن میں اس کی صرف ایک خواہش ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں اپنا نام پیدا کرسکے۔ اس مقصد کے لیے وہ دن رات تگ و دو کرتا ہے، تخلیقات کی نمایش کرتا ہے، لیکن آرٹس کائونسل سمیت دیگر سرکاری اداروں کی جانب سے تعاون اور سرپرستی نہ ہونے کی بنا پر اسے وہ پزیرائی حاصل نہیں ہوتی، جس کا وہ طلب گار اور حق دار ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر خطّاط اور آرٹسٹوں کی پزیرائی کے ساتھ ان کے ساتھ ان کے فن پاروں کو سرکاری عمارتوں کی زینت بنایا جائے، تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان کے کارناموں سے آگاہ ہوسکیں۔‘‘ 

تازہ ترین