• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ چند برسوں میں پاکستان کو افغان ایکسپورٹ میں لگنے والا دھچکا اس لحاظ سے لمحہ فکریہ ہے کہ 2010-11میں ان برآمدات کاحجم جو2.6ارب ڈالر تھا، نصف ہوکر 1.4ارب ڈالر رہ گیا ہے اور یہ گراف مزید نیچے آجانے کا احتمال ہے۔ دوسری طرف جن برآمدات میں کمی آئی ہے، اس کا فائدہ بھارت اور ایران کو پہنچا ہے۔ صرف رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں افغانستان کے لئے ایران کی برآمدات 3ارب ڈالر تک جا پہنچی ہیں جو 2011میں محض 1.88ارب ڈالر تھیں۔ دوسری طرف بھارت افغانستان کو سبز باغ دکھاتے ہوئے اپنی برآمدات 2010کے مقابلے میں جو اس وقت صرف 115.6ملین ڈالر تھیں، ایک ارب ڈالر تک لے گیا ہے اور اس مقصد کے لئے وہ ایران کی چابہار بندرگاہ کے ساتھ ساتھ اپنے ممبئی اور نئی دہلی کے فضائی اڈے بھی استعمال کر رہا ہے۔ جس کے پیشِ نظر آنے والے دنوں میں وہ اپنی برآمدات مزید آگے لے جانے کا دعویدار ہے۔ اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو اس صورتحال کے پیچھے بنیادی طور پر امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کار فرما ہے۔ دوسری طرف اقتصادی لحاظ سے آئے روز پاک افغان سرحد کی بندش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، تاہم پاکستانی حکام کو یقیناً اس تمام تر صورتحال کا ادراک ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں پاک افغان طورخم سرحد کے دن رات چھ ماہ تک کھلے رکھنے کی ہدایت جاری کی ہے، جو ایک نہایت حوصلہ افزا اقدام ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان ہر لحاظ سے افغانستان کیلئے نہایت سود مند تجارتی پارٹنر ہے جس کا ثبوت دونوں ملکوں کے مابین چلی آنے والی صدیوں پرانی تجارت ہے، یہاں تک کہ برادرانہ تعلقات اور ثقافتی رشتوں کی بدولت پاک افغان سرحد محض نشاندہی تک محدود تھی۔ وزیراعظم عمران خان کے متذکرہ اقدام کی روشنی میں افغان قیادت کو بھی حقائق تسلیم کرتے ہوئے باہمی تجارت بڑھا کر پاک افغان عوام کو پھر سے ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع دینا چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین