• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عثمان شنواری کا آخری اوور کتنا مہنگا تھا، اس کا اندازہ لگانا بڑا مشکل ہے، اس آخری اوور کی قیمت کیا تھی، اس کا اندازہ لگانا بھی میرے لئے مشکل ہے مگر قیمت لگانے والوں کو تو علم ہوگا، انہیں اس مہنگے اوور کے اجر عظیم کا اندازہ بھی ہوگا۔ خیر یہ کرکٹ کی باتیں ہیں، اب ہم کرکٹ سے سیاست کے میدان میں آتے ہیں جہاں حمزہ شہباز اپنے بیمار تایا اور زیر حراست والد کو چھوڑ کر لندن چلے گئے ہیں۔ والدین کے احترام کا ایک جذبہ ہوتا ہے، میاں نواز شریف اور شہباز شریف بڑے جذبے سے اپنے ابا جی کا احترام کرتے تھے مگر دولت سے پیار نے ان کی اولادوں میں یہ جذبہ اس قدر کم کردیا ہے کہ نواز شریف کے صاحبزادے تو اپنی ماں کی تدفین میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ جب ان کا باپ اور بہن گرفتار ہوئے تو پھر بھی ان دونوں صاحبزادوں کے سر پر جوں نہیں رینگی۔ میاں شہباز شریف کے صاحبزادوں کا بھی قریباً یہی حال ہے، ان کے فرزند ارجمند سلمان شہباز پہلے ہی فرار ہوچکے ہیں، داماد بھی برطانیہ جاچکے ہیں، اب حمزہ شہباز بھی چلے گئے ہیں۔ والدین کے احترام کے جذبے پر دولت نے مٹی ڈال دی ہے، یہ لمحہ فکریہ ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے حال ہی میں جو زبان شیخ رشید احمد کے لئے استعمال کی ہے، وہ بہت ہی نازیبا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، وہ بھٹو کے نواسے ہیں اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے فرزند ہیں، بلاول بھٹو زرداری کو(یہ سوچ کر کہ وہ بینظیر بھٹو کے فرزند ہیں)معذرت کرنا چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری عاجزی اور انکساری کے حامل نوجوان ہیں، انہیں آئندہ الفاظ کے چنائو میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔

اس وقت ملک میں گورننس کے بارے میں بحث ہورہی ہے۔ ہوسکتا ہے اس میں بہتری لانے کے لئے دو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ تبدیل کردئیے جائیں، ممکن ہے اس پر کام شروع ہوچکا ہو، عین ممکن ہے کہ یہ کام وزیر اعظم کی مرضی سے ہورہا ہو۔ اگلے چند ہفتوں میں کچھ وزراء بھی تبدیل کردئیے جائیں گے،کچھ مشیروں کی چھٹی بھی ہوجائے گی، کیونکہ اس وقت سارا کام کپتان کو خود کرنا پڑرہا ہے، نہ کوئی ڈھنگ کا بائولر ہے، نہ کوئی بلے باز اچھا ہے، فیلڈنگ کی تو بات ہی چھوڑدیں۔ فیلڈرز کیچ چھوڑ رہے ہیں، کپتان کی دیانتداری پر شک نہیں لیکن کپتان کئی کھلاڑیوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ عمران خان کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ٹیم میں تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔ عمران خان آج کل عام لوگوں کی مشکلات کی وجہ سے پریشان ہیں، وہ عام آدمی کو سہولت دینا چاہتے ہیں، حال ہی میں جب گیس کے بل بہت زیادہ آئے تو وزیر اعظم عام آدمی کے لئے بہت پریشان نظر آئے۔ واضح رہے کہ اس مہینے وزیر اعظم کی پوری تنخواہ بلوں کی نذر ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم کے سیاسی امور کے مشیر نعیم الحق کی تنخواہ میں سے بلوں کی ادائیگی کے بعد صرف چند ہزار بچے ہیں۔ پتہ نہیں ان کی ہمسائیگی میں بسنے والے دھیمے مزاج کے افتخار درانی کے ہاں بلوں کی کیا صورتحال رہی ہے، شاید وہاں کم بل آئے ہوں کیونکہ ان کی اہلیہ کفایت شعاری پر یقین رکھتی ہیں۔

دولت سے پیار نے معاشرے سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔ معاشرے کے زوال کے حوالے سے پروفیسر طاہر ملک کا کہنا ہے کہ’’معاشرے کا زوال دراصل استاد کا زوال ہے، جب سے استاد زوال کا شکار ہوا ہے، پورا معاشرہ زوال کا شکار ہوگیا ہے، دراصل آج کا استاد اپنے شاگردوں کے لئے رول ماڈل نہیں رہا۔ سارے افسران، ججز، وکلاء، ڈاکٹرز اور صحافی سب استاد نے تیار کئے مگر آج کا استاد ان کے لئے رول ماڈل نہیں رہا، اسی لئے معاشرہ زوال کا شکار ہے‘‘

طاہر ملک نے درست نشاندہی کی ہے، کیا کچھ یاد کروا دیا ہے، وہ زمانہ یاد آگیا ہے جب تعلیم تجارت نہیں بنی تھی، کیا استاد تھے کہ لوگ آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں اور ایک آج کے استاد ہیں جنہیں کوئی یاد ہی نہیں رکھتا۔ ان کے واقعات بھی سنانے والا کوئی نہیں۔ بدقسمتی سے آج کا استاد دولت کا پجاری ہے، آج سے تیس برس پہلے کا استاد جذبوں سے سرشار تھا، وہ سائیکل پر قوم کا مستقبل سنوارنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہوتا تھا مگر آج کا استاد اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے تو تیار ہوتا ہے، اسے قوم کے مستقبل سے کوئی غرض نہیں، آج کے استاد کے ہاں جذبے سے زیادہ دولت اہم ہے۔ پطرس بخاری، ڈاکٹر نذیر احمد، پروفیسر وارث میر، پروفیسر اشفاق علی خان، مشکور حسین یاد، ڈاکٹر غلام جیلانی برق، پروفیسر جیلانی کامران، پروفیسر عثمان، پروفیسر سجاد حیدر ملک، ڈاکٹر خواجہ مسعود، ڈاکٹر مہدی حسن، پروفیسر سجاد شیخ، ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف، پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر رفیق افضل، پروفیسر کرار حسین، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، پروفیسر احمد رفیق اختر، پروفیسر اصغر سودائی سمیت کئی استاد ایسے ہیں جنہیں زمانہ نہیں زمانے یاد کرتے ہیں، ہمارے پاس آخری یاد رہ جانے والے اساتذہ میں احمد عقیل روبی اور پروفیسر خدیجہ ضیا ڈار، پروفیسر آر اے خان، حافظ ثناء اللہ، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی شامل ہیں، ایسے استادوں کو زمانہ یاد کرتا رہے گا، زمانے ان کی یادوں میں گزر جائیں گے۔

چند سال پہلے میری کشمیری حریت رہنماء پروفیسر عبدالغنی بھٹ سے ملاقات ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب کا پہلا جملہ یہ تھا کہ’’آپ لوگ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کریں، آپ کے پاس آزادی جیسی نعمت موجود ہے، ہمارا تو ایک دن ایسے ہوتا ہے جیسے صدی گزارنا ہو.....‘‘ اس کے بعد پروفیسر عبدالغنی بھٹ نے کشمیریوں کو درپیش مشکلات کا ذکر چھیڑ دیا، مگر آج میں کشمیر ڈے پر یہ کہنے پر فخر محسوس کررہا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں پڑھانے والے استادوں نے جذبے سے دولت کو شکست دی ہے، انہوں نے کشمیریوں کی ایسی نسل تیار کردی ہے جو آزادی سے کم کسی بات پر راضی نہیں ہو گی، ہو سکتا ہے یہ آزادی اسی سال نصیب ہو جائے کہ؎

یاران جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنت

جنت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین