• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
طالبان کہتے ہیں کہ جمہوریت کفرہے اور شریعت کے سوا کوئی نظام ان کو قابل قبول نہیں ۔ حکومت کہتی ہے کہ مفاہمت ہوسکتی ہے لیکن طالبان کو آئین تسلیم کرنا اور اس کے دائرے میں آنا ہوگا۔ طالبان کہتے ہیں کہ حکومت امریکہ کے زیرقیادت عالمی اتحاد سے نکل آئے اور حکومت کہتی ہے کہ طالبان تشدد ترک کریں تو مفاہمت ہوسکتی ہے ۔ بظاہر دونوں فریقوں کے موقف کے میں بعدالمشرقین ہے اور مفاہمت کی توقع دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں لیکن یہ بعدالمشرقین تو کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور ہندوستان کے موقف میں بھی ہے ۔ پھر وہاں مذاکرات پر اصرار کیوں کیا جارہا ہے ؟۔ اس سے زیادہ ناقابل عمل امریکہ اور افغان طالبان کے ایک دوسرے سے مطالبات ہیں ۔ پھر پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی مخالفت کرنے والا ہر فرد افغانستان میں اس مفاہمت کی دہائی کیوں دے رہا ہے ؟۔ پاکستان میں حکومت اور طالبان کے موقف میں بُعد اپنی جگہ لیکن شاید کمیونیکیشن گیپ اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے ۔ پاکستان کے حکمرانوں ‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کی صفوں میں طالبان کی سوچ ‘ ہیت اورا سٹرکچر کی سمجھ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ان سے متعلق ہر طرف کنفیوژن پھیلاہوا ہے ‘ جتنے منہ اتنی باتیں والا معاملہ ہے اور بدقسمتی سے اس کنفیوژن کو خود ہمارے پالیسی ساز‘ میڈیا اور دائیں بازو کے لیڈروں مزید فروغ دے رہے ہیں ۔ دوسری طرف طالبان بھی پاکستانی ریاست کے کردار اور مجبوریوں کو سمجھ نہیں پارہے ۔ مثلا ان کا خیال ہے کہ پاکستانی ریاست مکمل طور پر امریکہ کی غلام ہے اور یقینا اس رائے کے لئے نہ صرف خاطر خواہ دلائل موجود ہیں بلکہ خود تحریک انصاف‘ جے یو آئی ‘ جماعت اسلامی اور کسی حد تک مسلم لیگ (ن) بھی اس رائے کو پھیلارہی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی ناکامی اور طالبان کی مزاحمت کی کامیابی میں پاکستان کے کردار کا بھی بڑا دخل ہے ۔ یہی سوچ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ذہن میں بیٹھی ہوئی ہے اور اسی لئے ان کا رویہ پاکستان کے ساتھ دوست والا نہیں ہے ۔ اب معاملے کا یہ رخ طالبان کو میڈیا کے ذریعے نہیں سمجھایا جاسکتا بلکہ بالمشافہ مکالمے کے ذریعے ہی ان کو یہ بات سمجھائی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح دور جدید کی اقتصادی اور سفارتی مجبوریوں کا بھی طالبان کو پوری طرح ادراک نہیں ۔ مکالمے کے ذریعے ہی ان کو ان مجبوریوں سے آگاہ کیا جاسکتا ہے ۔ طالبان کا خیال ہے کہ جمہوریت کفر اور موجودہ آئین غیراسلامی ہے جبکہ اس کے برعکس تمام سیاسی جماعتوں کا ہی نہیں بلکہ مذہبی سیاسی جماعتوں کی رائے بھی یہی ہے کہ پاکستان کے آئین میں شریعت کو سپریم مانا گیا ہے اور جمہوری و آئینی طریقے سے ہی یہاں اسلامی نظام نافذ کیا جاسکتا ہے ۔ جماعت اسلامی‘ جے یو آئی اور اسی نوع کی دیگر جماعتیں اس کیلئے قرآن وسنت سے اخذکردہ دلائل پیش کرتی رہتی ہیں ۔ اب براہ راست مکالمہ ہوگا تو ان کو اپنا موقف سمجھایا جاسکے گا اور ان کے موقف کوسمجھنے کا موقع ملے گا۔ ظاہر ہے ٹی وی ٹاک شوز ‘ جن میں ایک فریق موجود نہیں ہوتا ‘ کے ذریعے یہ کام نہیں ہوسکتا۔ طالبان افغانستان میں امریکہ کی زیرسرپرستی جنگ سے پاکستان کے نکلنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ شاید ابھی تک یہ مطالبہ تسلیم کرنا ممکن نہیں تھالیکن 2014ء کے بعد یوں بھی اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ختم ہورہا ہے اورموجودہ عالمی اتحاد اس شکل میں برقرار نہیں رہے گا ،یوں اس حوالے سے بھی حکومت اور طالبان کے موقف میں مواقفت کا راستہ نکالاجاسکتا ہے ۔ جہاں تک خارجہ پالیسی پر اعتراضات اور اسے اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کا مطالبہ ہے تو یہ مطالبہ پاکستان کی کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں کا ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو پارلیمنٹ کی سفارشات کی روح بھی یہی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ مذاکرات کیسے ہوں اور کرنے والے کون ہوں ؟۔ پہلی تجویز تو یہ ہے کہ مذاکرات کے حوالے سے ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے ۔ ماضی میں مذاکرات جزو سے ہوتے رہے ‘ اب یہ کل یعنی پوری تحریک طالبان سے ہونے چاہئیں اور جن لوگوں کو حکیم اللہ محسود اور ان کی شوریٰ نامزد کرے ‘ ان سے ہی اس بنیاد پر مذاکرات کئے جائیں کہ فیصلے کا اطلاق کراچی سے لے کر باجوڑ ایجنسی تک ‘ تمام طالبان پر ہوگا ۔ اسی طرح افغان طالبان کو بھی مذاکرات کا حصہ بنانا ضروری ہے ۔ حکیم اللہ محسود نے تازہ ویڈیو میں بھی اعلان کیا ہے کہ ملامحمد عمر ان کے امیرالمومنین ہیں اور ان کا ہر حکم ،وہ تسلیم کریں گے ۔چنانچہ اس حوالے سے افغان طالبان سے بھی مذاکرات ہونے چاہئیں اور ان کے اثرورسوخ کو بھی موثر طریقے سے استعمال کرنا چاہئے ۔ حکومت اگر مذاکرات کرتی ہے تو ماضی کی طرح کسی جگہ ایک ایجنسی کے ذریعے اور کسی جگہ دوسری ایجنسی کے ذریعے ‘ یا کسی جگہ پولیٹکل ایجنٹ کے ذریعے اور کسی جگہ سیاسی لیڈروں کے ذریعے مذاکرات کی غلطی نہ دہرائے ۔ پہلے پوری سیاسی قیادت کسی لائحہ عمل پر متفق ہوجائے۔ پھر عسکری اور سیاسی قیادت کے مابین فارمولے اور طریق کار پر اتفاق ہو۔ پھر ایک ایسی بااختیار کمیٹی بنائی جائے کہ جسے حکومت‘ فوج اور ایجنسیوں کی مکمل حمایت حاصل ہو اور سب کو پابند کیا جائے کہ اس کمیٹی کی اجازت کے بغیر اس حوالے سے کوئی بھی ادارہ کسی بھی قسم کااقدام نہیں کرسکے گا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے بنائی جانے والی اس کمیٹی میں حکومت ‘ مسلم لیگ(ن)‘ تحریک انصاف‘ جے یو آئی (ف)‘ جے یو آئی (س) اور جماعت اسلامی کی نمائندگی ضروری ہے لیکن مولانا فضل الرحمان خلیل‘ حافظ محمد سعید ‘ بخت زمین خان ‘ مولانا مسعود اظہر‘مولانا محمد احمد لدھیانوی ‘مولانا محمد طیب طاہری ‘ مولانا شیرعلی شاہ‘ مولانا عبدالعزیز ‘ مفتی محمد رفیع عثمانی‘مولانا طارق جمیل اور اسی نوع کی دیگر شخصیات کو نہ صرف شامل کیا جانا ضروری ہے بلکہ ان کاقائدانہ کردا ر ہونا چاہئے ۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ابتدائی مذاکرات ان تدریسی علماء اور جہادی شخصیات کا گروپ کرے ۔ پھر مذکورہ پانچ جماعتیں (مسلم لیگ(ن)‘ تحریک انصاف ‘ جے یو آئی (ف اور س )اور جماعت اسلامی) شامل ہوں ۔ یہ شخصیات اور یہ جماعتیں حکومت اور طالبان کے مابین ضامن بنیں اور پھر مکمل مفاہمت کی طرف بڑھا جائے ۔ طالبان کا موقف انتہائی غیرلچکدار اور ان کے مطالبات ناقابل عمل سہی لیکن ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ وہ آسمان سے نہیں اترے ہیں بلکہ اس ملک کے باسی ہیں ۔ کوئی کسی کا شاگرد رہا ہے توکوئی ماضی میں کسی کی جماعت سے وابستہ رہا ہے ۔ کسی کا بھائی ہمارے درمیان موجود ہے تو کسی کا چچا اور ماموں ۔ پاکستان سے جنگ کے باوجود کوئی مولانا فضل الرحمن خلیل کا قدردان ہے ‘ کوئی مولانا شیرعلی شاہ کا شاگرد رہا ہے ‘ کوئی مولانا محمد طیب کی عزت کرتا ہے ‘ کوئی مولانا فضل الرحمن کو اچھا سمجھتا ہے ‘ کوئی ماضی میں مولانا مسعود اظہر کے زیرکمانڈ لڑا ہے ‘ کوئی مولانا لدھیانوی کے حکم پر سرکٹانے کو تیار ہے ‘کوئی بخت زمین خان کے ساتھ مختلف محاذوں پر وقت گزار چکا ہے ۔ اس حوالے سے ہم نے کبھی ان لوگوں کی صلاحیتوں اور حیثیتوں کو مثبت اور جامع طریقے سے استعمال کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔
تازہ ترین