• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج پوری دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی موجود ہیں وہ اپنے کشمیری بھائیوں کےساتھ یوم یکجہتی کشمیر منارہے ہیں۔ بھارت کی تمام تر ان کوششوں کے باجود کہ کشمیریوں کی آزادی اور خودارادیت کی اس تحریک کا چہرہ مسخ کرکے اسے طرح طرح کے نام اور الزام دیئے گئے اور اس مذموم کوشش کو ایک پالیسی کے طور پر اپنایا گیا کہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی تناظر سے ہٹ کر علاقائی اور دو طرفہ سطح پر آجائے اور اس کے لیے مقبوضہ کشمیر کے اندر بھی جبروتشدد کے ساتھ ساتھ ترغیبات سے یہ کوششیں کی گئیں، ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ تحریک آزادی کی سرگوشی بھی نہ سنی جاسکے لیکن سلام ہے اُن ماؤں کے سپوتوں کو جنہوں نے بھارتی فوجیوں کی گولیوں سے شہید ہوتے ہوئے بھی آخری سانس تک کشمیر کی آزادی کا نعرہ لگایا ۔ معصوم بچیوں نے اپنے چہروں پر بیلٹ گنوں کے چھروں سے آزادی کی تحریک کے نقوش ثبت کرلیے اور بھارت پر ثابت کردیا کہ اس قوم کو ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنا کر نہیں رکھا جاسکتا۔ 1990 کو آج کے ہی دن 5 فروری کو یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اس دن کو بھرپور طریقے سے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جائے تاکہ کشمیریوں کو اعتماد دلایا جائے کہ پوری پاکستانی قوم ان کی پشت پر ہے۔ اُس وقت صوبہ پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت تھی جبکہ مرکز میں پیپلزپارٹی برسراقتدار تھی۔ جماعت اسلامی نے ان کی وساطت سے صوبہ پنجاب میں سرکاری سطح پر اس دن کو منانے کی توثیق حاصل کی۔ میاں نوازشریف صاحب نے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے اس کی کامیابی کے لیے بھرپور کردار ادا کیا۔ جس کے نتیجے میں وفاق میں برسراقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی قاضی صاحب کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے اس فیصلے کی توثیق کی۔ یوں پہلی مرتبہ 1990ء میں 5 فروری پاکستان کی حکومت، اپوزیشن، تمام سیاسی جماعتوں اور ہر عوامی پلیٹ فارم پر یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا، جس کے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر کے اندر بے پناہ مثبت پیغام پہنچا اور بھارتی استبداد کے خلاف جذبے مزید جواں ہوگئے۔ اس کے بعد گزشتہ تین دھائیوں سے پانچ فروری کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا قومی دن بن چکا ہے۔ اس عرصے میں بیرونی سازشوں کے نتیجے میں پاکستان کی حکومتیں کبھی ڈانواں ڈول بھی ہوئیں اوربعض اوقات تحریک آزادی سے جیسے تیسے جان چھڑانے کی کوششیں بھی ہوئیں، لیکن ہر سال پانچ فروری کو پوری پاکستانی قوم گویا ریفرنڈم کردیتی اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ایک پیغام پہنچتا ہے کہ نہ کشمیری اس جدوجہد میں تنہا ہیں اور نہ پاکستانی رائے عامہ کو نظرانداز کرکے پاکستان کی حکومتوں سے کسی فیصلے پر انگوٹھا لگوایا جاسکتا ہے۔ رائے عامہ کے اس دبائو کے نتیجے میں پاکستان میں حکومت اور اداروں کی سطح پر تحریک آزادی کشمیر کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کردار ادا کرنے کے بارے میں یکسوئی پیدا ہوئی۔ چنانچہ جہاں گزشتہ تیس برس میں بھارت کے تمام مظالم کا مقابلہ کرتے ہوئے اس تحریک کا جاری رہنا معجزہ ہے، وہیں پاکستان میں متعددحکومتیں تبدیل ہونے کے باوجود تحریک آزادیٔ کشمیر کو کامیاب بنانے کے لیے پاکستان کی قومی پالیسی جاری و ساری ہے۔لیکن اس معجزے کا اعجاز اور محرک بنیادی طور پر مقبوضہ کشمیر میں آزادی کے متوالے ہیں اور تمام تر کریڈٹ اُنہی کو ہی جاتا ہے ، پاکستان کا کردار محض سفارتی اور اخلاقی ہمدردی کا ہے۔ حکومتوں کی کارکردگی کے حوالے سے گلہ شکوہ ہونے کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی کوششوں ہی سے OIC میں حریت کانفرنس کو مبصر کا درجہ حاصل ہوا، اوردیگر بین الاقوامی اور بین الاسلامی اداروں میں مسئلہ کشمیر ایک فلیش پوائنٹ کی حیثیت سے اجاگر تو ہوا،لیکن اقوام متحدہ سمیت ان اداروں کی نتیجہ خیز پیش رفت کیلئے وہ کردار ادا نہیں کیا گیا جو صورتحال کے متقاضی ہے۔

موجودہ حکومت پر مختلف حوالے سے تنقید برائے اصلاح کی گنجائش موجود ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو روایتی ڈگر سے ہٹانے کے لیے بھی قابل ذکر کردار ادا کیا ہے اور اس ضمن میں ’’کشمیر پالیسی‘‘ بھی سرفہرست ہے اور اس حوالے سے مخدوم شاہ محمود قریشی کا وزیرخارجہ کے طور پر انتخاب ھی جنہیں اس سے بیشتر بھی اس وزارت کا تجربہ حاصل تھا۔ اپنی قیادت کی ہدایات اور اپنے ماضی کے تجربے کی روشنی میں انہوں نے وزارت خارجہ کے ’’ہومیوپیتھک‘‘ کردار کو بدلتے ہوئے بعض ’’بولڈ‘‘ فیصلے کیے۔ ظاہر ہے جن میں دیگر متعلقہ اداروں کی راہنمائی اور مشاورت بھی شامل تھی۔ کرتارپور راہداری اور افغان طالبان اور امریکہ کو براہ راست مذاکرات کی میز پر لانا اس سلسلے کی دو اہم مثالیں ہیں اب ایک ایسے مرحلے میں جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط سے نجات پانے کی تحریک اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے اور شہداء کی قربانیاں نتیجہ خیز ثمرات کے نزدیک پہنچ چکی ہیں مقبوضہ کشمیر کے معصوم، مظلوم اور بے گناہ کشمیریوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کی روک تھام اُن پر حق خود ارادیت مانگنے کی پاداش میں ظلم و استبدار روکنے کے لیے بھی بعض بولڈ فیصلے کرنے ہوں گے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے وزیر خارجہ نے لگی بندھی پالیسی اور بیانات سے ہٹ کر ایک فیصلہ یہ کیا کہ لندن میں جہاں کشمیریوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے وہاں اس مرتبہ غیر روایتی انداز سے ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ منایا جائے گا دیگر تقریبات کے علاوہ ہاؤس آف کامنز (دارلعلوم) میں ایک تصویری نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر میں حق خودارادیت کا مطالبہ کرنے والے مرد۔عورتیں ، بچے اور بوڑھے اور ہر طبقے کے لوگوں پر کیے جانے والے مظالم کو اُجاگر کیا گیا تھا جس پر بھارت نے برطانوی حکومت سے سخت احتجاج کیا لیکن لندن میں پاکستانی سفارتخانے اور وہاں متعین پاکستانی ہائی کمشنر نفیس زکریا نے اس حوالے سے ایک مؤثر حکمت عملی اختیار کی جس باعث برطانوی حکومت نے بھارتی احتجاج کو مسترد کردیا۔ حکومت نے مسئلہ کشمیر پر تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کیلئے ایک اقدام یہ تو کیا کہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ اُمور کے تمام ارکان کو جن میں کم وبیش تمام اہم سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے لندن میں کشمیر کے حوالے سے ہونے والی تقریبات میں شرکت کی دعوت دی۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی جو خود بھی لندن میں ہونے والی تقریبات میں پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم کشمیریوں کی نمائندگی کررہے ہیں ۔

انہوں نے ایک غیرروایتی بولڈ اسٹیپ یہ لیا کہ لندن میں ہونے والی تقریبات کے حوالے سے معروف کشمیری راہنما میر واعظ عمر فاروق کو ٹیلی فون کرکے اُن سے مشاورت کی اور تقریباً 10منٹ کے دورانیے کی گفتگو میں کشمیر کے متعلق مجوزہ کانفرنس کے حوالے سے بات چیت کی۔بھارت نے اس پر شدید اعتراض کرتے ہوئے اسے اپنے داخلی معاملات میں پاکستان کی براہ راست مداخلت قرار دیا ہے۔ بھارتی خارجہ سکریٹری وجے گوکھلے نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود کو رات گئے اپنے دفتر میں طلب کیااور وزیر خارجہ کی کشمیری رہنما سے بات چیت پر سخت اعتراض کیا اور ان کے روئیے کی مذمت کی ۔جس کے جواب میں کسی قسم کی کوئی سفارتی رعایت سے ہٹ کر پاکستان نے بھی اگلے ہی روز اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کو وزارت خارجہ میں طلب کیا اور سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے قطعیت کے ساتھ دو ٹوک الفاظ میں باور کرایا کہ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کی اخلاقی حمایت کرتا ہے یہ حمایت جاری تھی ، جاری ہے اور انشاء اللہ جاری رہے گی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ کسی بھی معاملے میں بھارت سے احتجاج کرنے کیلئے عام طور پر بھارتی ہائی کمیشن کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو ہی طلب کیا جاتا تھا لیکن اس موقع پر غالباً یہ پہلا یا دوسرا موقع تھا جب ہائی کمشنر اجے بساریہ کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ لندن روانگی سے قبل مخدوم شاہ محمود قریشی نے سید علی شاہ گیلانی سے ٹیلی فون پر گفتگوکی اور مشاورت بھی کی ۔ ان دونوں راہنماؤں نے اپنی ٹیلی فونک گفتگو میں کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکومت کی کوششوں کو سراہا اور اس بات پر زور دیا کہ مبینہ بھارتی مظالم سے بھارت کے کشمیر کے لوگوں کا جذبہ کم نہیں ہوسکتا اور کشمیری، مبینہ بھارتی ظلم و ستم اور کالے قوانین کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گےاور وہ 5فروری کو لندن میں یوم یکجہتی کشمیر کی تقریبات میں شرکت کے خواہشمند تھے لیکن اُن کے پاسپورٹ بھارتی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیے۔ اس طرح وزیر خارجہ نے دہلی کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے کسی قسم کے بھی معذرت خواہانہ رویئے کا اظہار نہیں کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب کسی پاکستانی وزیر خارجہ نے حریت کی لیڈر شپ کو اس طرح فون کیا ، ماضی میں ایسا کوئی مثال نہیں ملتی، اسے یقیناً ایک غیر معمولی اقدام کہا جاسکتا ہے۔اس سے پہلے پاکستانی رہنما جب دہلی جاتے تھے تو حریت کے رہنماوں سے ملاقات کرتے لیکن یہ ملاقات پاکستانی ہائی کمیشن میں ہوتی تھی اور آج تک یہی سلسلہ جاری ہے۔ لیکن حکومت پاکستان کے اہم ترین منصب پر فائز (وزیرخارجہ) کی جانب سے حریت قیادت کو اسلام آباد سے سری نگر فون کرنا ایک ایسا واقعہ ہے جسے پاکستان کی نئی حکومت کی ایک مثبت تبدیلی قرار دیاجاسکتا ہے۔ 

تازہ ترین