• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کی بہتری کے لیے طویل المیعاد منصوبوں کی ضرورت ہے

کراچی کا مسئلہ محض چالیس برس پہلے کی بات نہیں ۔ یہ شہر 1947 سےاور اس کا ماسٹر پلان کبھی بھی شہر کی بڑھتی ہو ئی آبادی کے بارے میں پیش گوئی کرنےیااس کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں یہاں مکانات، صنعتی علاقے ،بازار، گودام ، مال کی بار برداری اوربسوں کے اڈّے غیر رسمی انداز میں قائم ہوئے۔ان حالات میں چالیس برس پہلے کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی کرکے کی گئیں تعمیرات منہدم کرنے سے شہر کا سماجی۔ اقتصادی ڈھانچا تباہ ہوجائے گا اور یہاں کی سڑکیں بے گھر افراد سے بھر جائیں گی ۔

شہر کو چالیس برس قبل کی حالت میں بحال کرنا سادہ طورپر اس لیے ممکن نہیں ہے کہ 1981میں کراچی کی آبادی چوّن لاکھ نفوس پر مشتمل تھی جو آج ایک کروڑ ستّر لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ 1978 میں شہر کی کچّی آبادیوں میں بیس لاکھ افراد رہتے تھے،لیکن آج یہ تعداد نوّے لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔گاڑیوں کی تعداد بھی بہت بڑھ چکی ہے اور چالیس برسوں میں کراچی کی شہری حدود دوگنا سے زاید بڑھ چکی ہیں۔

حال ہی میں تجاوزات کے خلاف بغیر کسی منصوبہ بندی کے ، چنیدہ انداز میں اور غریبوں کے خلاف جو کارروائیاں کی گئیں انہوں نے شہر کی غیررسمی معیشت کو تباہ کردیا ہے۔گیارہ ہزار سے زیادہ چھوٹے کاروبار تباہ اور تین لاکھ سے زیادہ ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ متاثرہ افراد کو ان کی جگہوں پر ایسے منظم انداز میں واپس لایا جائے کہ اس سے شہر کا نظام متاثر نہ ہو ۔اس کے ساتھ ہی شہر کی بُری طرح متاثر ہونے والی غیررسمی معیشت کی بحالی کا کام بھی کرنے کی ضرورت ہے۔

صورت حال میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ اندازہ لگایا جائے کہ بغیر اجازت کے کون سی تعمیرات ہوچکی ہیں اور ان میں سے ان کی نشان دہی کی جائے جو شہر کے سماجی۔اقتصادی مفاد میں ہیں۔ایسی تعمیرات کو ریگولرائز کردیا جائے۔ آئندہ کے لیے غیر قانونی تعمیراتی سرگرمیوں کے ذمے داران کے لیے بھاری جرمانہ، حتی کہ قید کی سزابھی مقرر کی جائے۔ جرمانے سے حاصل ہونے والی رقم اسی علاقے کی ترقی کے لیے استعمال کی جائے جہاں یہ سرگرمیاں ہوئی ہو ں ۔ جہاںایسی سرگرمیاں شہر کے ماحول کے لیے نقصان دہ ہوں یا جو اراضی شہر کے اہم بنیادی ڈھانچےکےلیے مخصوص ہو وہاں سےغیر قانونی تعمیرات ختم کردی جائیں اور صرف حقیقی متاثرہ افراد کو اس کا متبادل فراہم کیا جائے۔

کراچی کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے والوں کو کئی ایسے اقدامات اٹھانے پربھی غور کرنا چاہیے جن سے یہ شہر پھلے پھولے۔مثلا شہر کی غیر رسمی تجارتی سرگرمیوں والے علاقوں میں ٹریفک مینیجمنٹ بہتر بنانے پر توجہ دی جائے اور مزید موٹر کارز کی پارکنگ کے لیے جگہیں بنائی جائیں۔ یہ طویل عمل ہےجو چند دنوں میں مکمل نہیں ہوگا۔اس کے علاوہ شہر میں دس ہزار بڑی بسیں لاناہوں گی اور ڈرائیورز، کنڈکٹرز اور ٹریفک مینیجرز کی تربیت کے لیے باقاعدہ اسکول بنانا ہوگا۔ کراچی سرکلر ریلوے کے متاثرین کے لیے باقاعدہ اور جامع پالیسی بنانا ہو گی جس میں ان کی بحالی کو خاص اہمیت دینی چاہیے۔

یہ سارے کام غیر حقیقت پسندانہ اندازمیں مقرر کیے گئے وقت میں یا کم زورافراد پر مشتمل کمیٹی بناکر اور ناتجربہ کار کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرکے نہیں کیے جا سکتے۔ان کاموں کے لیے پانچ تا دس برس درکار ہوں گے۔ اس کے ساتھ ایسے مناسب اداروں کی بھی ضرورت ہوگی جن میں منصوبہ بندی کرنے اور ان پر عمل درآمد کرانے کی اہلیت اور صلاحیت ہو۔ تاہم آج ایسے ادارے موجود نہیں ہیں۔لیکن انہیں قائم کرنے اور فرغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس دوران چھوٹے منصوبوں کے ذریعے عارضی ریلیف دیا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین