• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’امروز‘‘ ہے تو مصوری کی دنیا کا بڑا نام، لیکن اس کا تعلق ادبی دنیا سے زیادہ رہا۔ ادبی محافل میں شرکت کرتے کتے ادبی ذوق بھی۔ پیدا ہوگیا لائل پور کے قریب ایک گائوں میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم گائوں کے ایک اسکول میں حاصل کی، بعد ازاں شہر کے اسکول میں داخل کرا دیا۔ میٹرک کے بعد لاہور آرٹ کالج میں داخلہ لیا۔ گریجویشن کے بعد بہ حیثیت آرٹ ڈائریکٹر، ڈیزائنر اور خطاط نام کمایا۔ امروز کے خیال میں ’’آرٹ راستے اور زندگی منزل ہے۔ لفظوں کے اوصاف دیکھ کر خطاطی کرتا ہوں امرتا پریتم کی کتاب ’’میرا کمرہ‘‘ میں امروز نے بھی اپنے کمرے کے بارے میں قلم بند کیا ہے، جو نذر قارئین ہے۔

میں نے اپنے کمرے کے بارے میں جب بھی سوچا، اسے اپنے جیسا ہی سوچا ،امروز 1926ء کے جنوری کی 26 تاریخ میرے لیے روز اول تھی۔ گائوں سوہیاں کلاں میں وہ کمرہ، دادی کا تھا اور کمرے میں حاضری ماں اور دایہ کی تھی۔ اس لیے میرا پہلا کمرہ ماں کی کوکھ کے بعد ماں کی گود تھی جہاں میں نے آنکھیں کھولیں۔یہاں سے میرا کمروں کا سفر شروع ہوتا ہے۔جسے ’’میرا کمرہ‘‘ کہا جاسکتا ہے، وہ میں نے اٹھارہ برس کی عمر میں پہلی بار دیکھا تھا۔ لاہو کے آرٹ اسکول کے ہوسٹل میں، جب میں تیسرے اور آخری سال میں پہنچا تھا، ہوسٹل کے پہلے دو سال ہر کسی کو کسی دوسرے کے ساتھ مل کر بتانے ہوتے تھے۔ہوسٹل میں آتے ہی مجھے جس ساتھی کے ساتھ کمرے میں حصہ بٹانا پڑا تھا، وہ مسلمان تھا۔ میں جب اپنی چارپائی بچھا کر شام کو فٹ بال کھیل کر واپس آیا تو دیکھا، میری چارپائی کے سرہانے اور پائنتی کار خ بدلا ہوا ہے۔ میں نے چارپائی کا رخ پھر تبدیل کرلیا، کیوں کہ مجھے سرہانے کی طرف بجلی چاہیے تھے اور اسی طرح چارپائی کو پھر سے بچھا سنوار کر میں کھانا کھانے چلا گیا، مگر جب کھانا کھا کر آیا تو کھاٹ کا سرہانہ اور پائنتی پھر بدلے ہوئے تھے، میں نے پھر اس کو سیدھا کرلیا اور جب میرا کمرے والا ساتھی آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ میری کھاٹ کا رخ کون بدلتا ہے؟ اس نے کہا تمہاری چارپائی کی پائنتی مغرب کی طرف نہیں ہونی چاہیے، کیوں کہ مغرب کی طرف مکہ شریف ہے۔ میں نے کہا مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ مغرب کی طرف پائنتی نہیں کرتے مگر مجھے اپنا سرہانہ روشنی کی سمت میں چاہیے، پڑھنے کے لیے۔ اس نے گو اگلے دن کمرہ بدل لیا لیکن اس کی تکرار سے میرے ذہن میں اکیلے کمرے کا تصور گھر کر گیا، جس میں مشرق و مغرب دونوں اپنے ہوں۔

آرٹ اسکول کے تین سال پورے ہوگئے تو ہوسٹل چھوڑنا پڑا، مگر باہرکمرے کا انتظام ابھی نہیں ہوا تھا۔ اس لیے جب رات اترنے لگی تو میں نے اسٹیشن پر جاکر لاہور سے گوجرانوالہ کا ٹکٹ خرید لیا۔ گوجرانوالہ کا اس لیے کیوں کہ اس وقت گاڑی اس طرف کی ہی تیار تھی۔ اس طرح گاڑی کا تیسرے درجے کا ڈبہ بھی ایک رات کے لیے میرا کمرہ بنا تھا۔ گوجرانوالہ پہنچتے ہی لوٹنے کے لیے لاہور کا ٹکٹ خرید لیا اور جب سویرا ہوا تو میں واپس لاہور میں تھا۔

یوں تو میں اپنے کمرے کی تلاش میں ایک شہر سے دوسرے شہر گھومتا پھرا تھا، وہی رات کو ’’میرا کمرہ‘‘ ہوجاتا تھا۔ کمپنی نئی تھی، عمارت بھی نئی تھی، بجلی ابھی نہیں لگی تھی، اس لیے کمپنی سارا کام دن کی روشنی میں نبٹاتی تھی۔ جب رات اترتی تھی، کمپنی والے غائب ہوجاتےتھے اور میری طرح وہ جگہ بھی اکیلی رہ جاتی تھی۔ سو میں اس تنہا جگہ میں موم بتی جلا کر اسے ’’اپنا‘‘ بنا لیتا تھا۔

ملک کا بٹوارہ ہوگیا تو کمرے کی تلاش میں دلی آگیا، پھر دلی نے مجھے کنگزوے کیمپ کی بیرکوں میں خوش آمدید کہا، جہاں ایک بھیڑ کا حصہ بن کر جینا اور سونا ہوتا تھا۔ دلی کی جے، والٹر تھامسن کی شاخ میں جب مجھے چھوٹی سی نوکری ملی تو کمپنی کے منیجر نے پیشکش کی کہ اگر میں کیمپ سے نجات پانا چاہتا ہوں تو مجھے دفتر کا اسٹور، رہنے کے لیے مل سکتا ہے۔ وہ چھوٹا اسٹور یقیناً کیمپ سے بہتر تھا یہاں میں رات کو اکیلا سو سکتا تھا۔پھر کوئی ایک برس بعد والٹرتھامسن کی دلی والی برانچ بند کرنے کا حکم آگیا۔ منیجر نے نئی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کھول لی جس سے میری نوکری بنی رہی لیکن رہنے والا اسٹور میرے پاس نہ رہا۔ اسی منیجر نے اپنے گھر کا اسٹور مجھے رہنے کے لیے دے دیا اور یوں ایک اسٹور دوسرے اسٹور میں بدل گیا۔ایک سال بعد میں دلی چھوڑ کر بمبئی چلا گیا جہاں کام تو مل گیا پر رہنے کے لیے جگہ نہیں ملی۔ وہاں میرے ایک ہم جماعت کا بڑا بھائی صوبیدار تھا جس کے برآمدے میں چارپائی ڈال کر رات کو سوجاتا تھا۔ بمبئی سے ایک بار پھر دلی آگیاتھا، لیکن لوٹ کر جب پھر بمبئی گیاتو لاہور کے ایک شناسا آرٹسٹ سے ملاقات ہوگئی۔ اس کے چھوٹے سے فلیٹ میں اس کے ایک اور دوست کا کنبہ بھی ٹھہرا ہوا تھا، اس لیے اپنے کمرے کی تلاش کا وقت میں نے اس عمارت کے اوپر کے زینے میں کاٹا۔پھر کمرہ نہیں، کمرے کا ایک کونہ پچاس روپیہ ماہوار کرایہ پر مل گیا۔ کمرہ ایک فوٹو گرافر کا تھا، مگر اس کا کام ٹھیک سے نہ چلتا تھا۔ اس نے اپنے کمرے میں میری کام کرنے والی میز ڈالنے کی جگہ مجھے کرایہ پر دے دی، مگر جب کبھی کبھار کوئی فوٹو کھنچوانے کے لیے آتا تھا، مجھے کمرے سے باہر جانا پڑا تھا، صرف ایک بات غنیمت تھی کہ رات کو کوئی فوٹو اتروانے نہیں آتا تھا، اس لیے اپنی میزوالی جگہ پر میں بستر بچھا کر رات بھر چین سے سوسکتا تھا، تاہم ایک حادثہ اس کونے میں بھی وقوع پزیر ہوگیا۔ میں نے ایک فلم کے لیے کام کیا تو مجھے اکٹھے ایک ہزار روپے ملے۔ میری برسوں کی تمنا تھی ایک ریڈیو گرام خریدنے کی، مگر جب میں نے ریڈیوگرام کا ذکر کمرے کے مالک سے کیا تو اس نے بالکل منع کردیا کہ میں ریڈیو گرام نہیں لاسکتا۔ اس کے لیے لائسنس لینا ہوتا تھا اور لائسنس پر پتہ درج ہونا تھا۔ اس نے کہا، آپ کمرے کا کونا استعمال کرسکتے ہیں مگر میرا ایڈریس استعمال نہیں کرسکتے۔ یہاں سے میرے دل میں اس کمرے کی تمنا جاگی جہاں میں جو چاہوں خرید کر لاسکوں اور جو میرا پتہ بھی بن سکے۔

ایسا ایک پورا کمرہ مجھے 1952ء میں پہلی بار ملا، مگر یہ پورا کمرہ بھی ایسا تھا جس کے لیے کوئی غسل خانہ نہیں تھا۔ وہ جس مکان کا کمرہ تھا، اس کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تھا،غسل خانہ استعمال کرنے کے لیے، لیکن اس گھر میں رہنے والا خاندان اتنا بڑا تھا کہ غسل خانے کا دروازہ کبھی اتفاق سے ہی کھلا ملتا تھا۔ رات کے وقت تو گھر کادروازہ کھٹکھٹانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔کوئی ایک برس بعد میں پھر دلی آگیا، اردو کے ماہوار رسالہ ’’شمع‘‘ میں کام کرنے کے لیے، تب دور کے ایک رشتہ دارکے گھر مجھے ایسا ایک کمرہ مل گیا جس کے ساتھ غسل خانہ بھی تھا۔ اس کمرے میں، میں مشکل سے ایک مہینہ کاٹ سکا۔اس کے بعد جس کرائے کے کمرے کو ڈھونڈ کر میں نے اپنا کمرہ بنایا، وہ میرا گھر لینے سے پہلے آخری کمرہ تھا۔ وہ 13 سائوتھ پٹیل نگر کا ایک کمرہ تھا، ایک کوٹھی کی کانی بڑی سی برساتی اور برساتی کے آگے بہت بڑی چھت۔ اس کمرے میں غسل خانہ بھی تھا اور رسوئی بھی۔ اس کمرے سے صرف سڑک پار، امرتا رہتی تھی۔ وہاں جب امرتا سے تعارف ہوا، دوستی ہوئی، محبت ہوئی تو ایک قیامت جیسی بات ہوگئی کہ نہ میرے سر پر کوئی چھت رہی اور نہ امرتا کے سر پر۔

اس قیامت کے بعد ہمیں لگا کہ اب ہم کو اپنا گھر مل گیا ہے۔ یہ گھر حوض خاص والا گھر ہے، جس کی ستر فٹ لمبائی کے ایک سرے پر میرا کمرہ ہے، دوسرے سرے پر امرتا کا۔ چڑھتے سورج کو میرا کمرہ خوش آمدید کہتا ہے اور ڈھلتا سورج امرتا کے کمرے کا الوداع کہہ کر جاتا ہے۔

میں نے اپنے کمرے کے بارے میں جب بھی سوچا، اسے اپنے جیسا ہی سوچا ہے، کھلا ہوا سادہ اور صاف، جسے آسانی سے رکھا اور پرکھا جاسکے۔ ضرورت کی ہر شے اس میں ہو، لیکن کسی نمائش کے بغیر۔ اس کا اپنا ہی اک وجود ہو اور اپنا ہی اک رنگ۔ اپنے آپ میں اپنا سب کچھ۔

میرے کمرے کا جو بھی میرا ذہنی تصور تھا، وہ اس کمرے میں آکر حقیقت بن گیا ہے۔ سورج کی جانب کھلتی ہوئی ایک پوری دیوار جتنی بڑی کھڑکی ہے، کھڑکی کے سامنے میری کام کرنے کی میز ہے اور میز کےداہنے ہاتھ کی دیوار کے ساتھ لگا ایک ریڈیو گرام رکھا ہے اور ایک ٹیپ ریکارڈ اور ان کے ذرا اوپر اسی دیوار پر لکڑی کے ہرے رنگ کے پتوں سے دن اور تاریخیں بدلتی ہیں اور ان دنوں اورتاریخوں سے ذرا اور اوپر ایک بڑی دیوار گیر گھڑی ہے، آفتابی رنگ کی گھڑی ،جس میں صرف سوئیاں ہیں، ڈائل نہیں۔ ڈائل کی جگہ ایک پوری نظم ہے، ایک سے دو وقت بتلاتی ہوئی گھڑی۔ بائیں جانب کی دیوار پر ایک سیاہ پینل ہے جس پر جو بھی عمدہ شعر سنتا ہوں، پڑھتا ہوں، اس کو لکھ دیتا ہوں۔ پینل کے برابر سپید رنگ کا بیڈ ہے، جو دیکھنے میں ایک سپید چبوترہ سا لگتا ہے۔ یہ لکڑی کا چبوترہ میرے کاغذات، کتابیں اور کمبل رضائی اس طرح اپنے آپ میں سیمٹ کر رکھتا ہے کہ کمرہ خواب گاہ بھی ہے اور اسٹوڈیو بھی۔ ایک دیوار میں الماری ہے، جس کے آئینے پر صورت دیکھنے کی جگہ کو چھوڑ کر سرخ رنگ سے ایک پوری نظم رقم کی ہوئی ہے۔ستر فٹ لمبے کمرے کا ایک سرا میرا ،اسٹوڈیو ہے، لیکن دنیا کےبہترین اشعار میں نے ساری دیواروں اور دروازوں پر لکھے ہوئے ہیں۔ سیڑھیوں پر پھول پتے، شعر اور کھڑکیوں کے آئینوں پر بنی ہوئی تصویریں۔ اس راہ کی سجاوٹ ہیں جو نیچے اترتے ہوئے روح کی گہرائیوں میں اترتا ہے اور جو، اوپر چڑھتے ہوئے روح کی بلندیوں کی طرف جاتا ہے۔

تازہ ترین