• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علی حیدر ملک

تین مصرعوں کی دیگر شعری اصناف کے مقابلے میں اس کی مقبولیت کے امکانات بھی زیادہ ہیں

اردو ادب کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی نثری و شعری اصناف میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ یہ اصناف پہلے عربی اور فارسی زبانوں کے ذریعے اردو میں آئیں، پھر انگریزی اور دیگر مغربی ادبیات کی بعض اصناف اردو میں متعارف ہوئیں۔ اب اس سلسلے میں برصغیر کی علاقائی زبانوں سے استفادہ کیا جارہا ہے اور لوک ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی جارہی ہے۔ مشرق بعید سے ادبی استفادے کا رجحان ہمارے یہاں عام نہیں رہا لیکن گزشتہ دہائیوں میں آدھ صنف اس طرف سے بھی اردو میں درآمد کی گئی ہے۔

اردو نظم میں جوہئیتیں رائج رہی ہیں، ان میں ایک ہیئت مثلث کی ہے،جس کا ہر بند تین مصرعوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ دور حاضر میں نظم مثلث کی فارم کچھ زیادہ مروج اور مقبول نہیں رہی لیکن تین مصرعوں کی مختلف اصناف مثلاً ثلاثی، ہائیکو اور ماہیاوغیرہ کی طرف ہمارے شعراء زیادہ راغب نظر آتے ہیں۔ تین مصرعوں کی شعری اصناف میں اب ایک صنف ترونی کا اضافہ ہوگیاہے، جس کا سہرا؟؟؟؟؟ گلزار کے سر ہے۔

’’میں نے شاعری میں ایک نئی فارم (form) پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نام تروینی رکھا ہے۔ ایہ ہائیکو بھی نہیں، ملثت بھی نہیں۔ تیسرا مصرع روشن دان کی طرح کھلتا ہے۔ اس کی روشنی میں پہلے شعر کا تاثر بدل جاتا ہے۔ تیسرا مصرع commen بھی ہوسکتا ہے، اضافہ بھی۔ تروینی میں ایک شوخی اور Surprise کارنگ ہے۔‘‘

تین مصرعوں کی جو اصناف اردو میں رائج ہیں، ان کی بہ نسبت اردو تروینی میں بات کہنے کی گنجائش زیادہ نظر آتی ہے اور اس میں قاری کے لیے لطف اور دلچسپی کا عنصر بھی زیادہ ہے۔ اسی لیے ہندی کے صف اول کے شاعر ہر ونش رائے بچن اور اردو کے بلند پایہ ادیب و شاعر احمد ندیم قاسمی نے اس صنف کے لیے پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے گلزار کی کوششوں کو سراہا ہے۔ گلزار کی تروینی کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیے۔

سب پہ آتی ہے سب کی باری ہے

موت انصاف کی علامت ہے

زندگی سب پہ کیوں نہیں آتی؟

کیا پتا کب کہاں سے مارے گی

بس کہ میں زندگی سے ڈرتا ہوں

موت کا کیا ہے ایک بار مارے گی

اُف! یہ بھیگا ہوا اخبار

پیپر والے کو کل سے چینج کرو

پانچ سو گائوں بہہ گئے اس سال

تروینی کا اپنا حسن اور اپنا ایک ذائقہ ہے۔ اسی لیے بچن جی اور قاسمی صاحب کے علاوہ شاعری کے بہت سے عام قارئین اور سامعین نے بھی اسے پسندیدگی کی سند عطا کی ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ گلزار کے سوا اردو یا ہندی کے کسی شاعر نے اس صنف کی طرف توجہ نہیں دی۔

اب فوقیہ مشتاق کی ایک تروینی دیکھیے:

وہ کناروں کے درمیان دریا

مجھ کو کوئی رقیب لگتا ہے

ہم کنارے ہیں تو دریا کون ہے؟

اس میں پہلے دو مصرعے مل کر ایک شعر مکمل کردیتے ہیں جس میں ایک عمومی خیال پیش کیا گیا ہے کہ دو کناروں کے پیچ رہنے والا دریا مجھے کوئی رقیب معلوم ہوتا ہے جو دونوں کناروں میں حائل ہوکر انہیں ملنے نہیں دیتا۔ یہاں بات پوری ہوگئی ہے۔ اب تیسرا مصرع اس مکمل خیال کوداخلی رخ دے کر ایک سوال اٹھاتا ہے۔ ہم یعنی میں اور میرا محبوب دو کناروں کے مانند ایک دوسرے سے دور ہوگئے ہیں اور ہمارے درمیان دریا کی طرف کوئی رقیب حائل ہوگیا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ رقیب کون ہے۔اس طرح تیسرا مصرع قاری اور سامع کو ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ فوقیہ مشتاق کی کچھ مزید تروینیاں نذر قارئین ہیں:

جب بھی کوئی خوشی کی بات ہوئی

تیرا غم آ کے کھا گیا اُس کو

کیسے کہہ دوں کہ تجھ کو بھول گئی

کس منظر کو ڈھونڈ رہی ہو

سورج کب کا ڈوب چکا ہے

رات بھی آج امائوس کی ہے

کیا کوئی فیصلہ بھی کرنا ہے

مجھ کو اب زندگی کے بارے میں

فیصلہ اس کا اب بھی باقی ہے

تروینی کے لیے موضوع کی کوئی قید یا کوئی فنی پابندی نہیں ہے۔ یعنی اس میں کسی بھی قسم کے خیال اور تجربے کو پیش کیاجاسکتا ہے، بحر، وزن اور ارکان کے سلسلے میں شاعر کو پوری آزادی ہے۔ ردیف اور قافیہ کی بھی کوئی پابند نہیں۔ صرف شرط یہ ہےکہ پہلے دو مصرعے ایک شعر یا بیت کی حیثیت رکھتے ہوں اور تیسرا مصرع پہلے شعر کے خیال کو کوئی نئی جہت یا کوئی نیا زاویہ عطا کرتا ہو۔ اس صنف کے سلسلے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ دیگر اصناف کی طرح یہ کسی دوسری زبان سے اردو میں نہیں آئی بلکہ اس کی اختراع یا ایجاد کا سہرا ایک فرد یعنی گلزار کے سر ہے۔ یہ صنف بلاشبہ اپنے اندر وسعت اور کشش رکھتی ہے اور اسی بنا پر تین مصرعوں کی دیگر شعری اصناف کے مقابلے میں اس کی مقبولیت کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔

تازہ ترین