• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرپرسن اور ملک کے صدر آصف علی زرداری نے اپنی حکومت کے آخری لیکن مبینہ طور پر انتہائی غیر مقبولیت کے ان دنوں میں بینظیر بھٹو کی پانچویں برسی کے موقع پر بھٹومقتولین کے مقابر کے سامنے گڑھی خدابخش کے میدان میں اپنے اکلوتے جواں سال بیٹے اور پی پی پی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری (بی بی زی) کو سالانہ اجتماع میں بقول پاکستانی ٹی وی اینکرز 'لانچ' کروایا ہے۔ بلاول کی ٹوٹی پھوٹی آکسبرج لہجے والی اردو لیکن بڑی راونی میں کلاسیکی اردو شعرا اور فیض و دیگر کے شعروں و نظموں کے توقف والی تقریر کا ٹارگٹ سامع پی پی پی کا جیالا تھا۔ گڑھی خدابخش کے اس ملک گیر اجتماع جس میں ہنگو سے لیکر کیٹی بندر اور کراچی تک سے پی پی پی رہنما اور جیالے شریک ہوتے ہیں واقعی اس میں بلاول اپنے ایسے انداز خطابت اور اس میں ایسے شعروں
یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
وہ یہیں سے لوٹ جائیں جنھیں زندگی ہو پیاری
کے ساتھ ٹھیک وقت ، ٹھیک جگہ اور ٹھیک آدمی کے طور پرپھینکے ہوئے ترپ کے پتے کی طرح لگتا تھا۔ اب بلاول اپنی والدہ ، اپنے نانا اور ماموؤں کے مقابر کے سامنے والے میدان کے اسٹیج پر گڑھی خدا بخش میں سواد کوئے جاناں میں کھڑا تھا۔ یعنی کہ وہ کارڈ جسے پہلے سندھ کارڈ کہا جاتا تھا کی جگہ یا مقابلے پر اب پی پی پی کے پاس بلاول کارڈ ہے جس کا بہرحال پی پی پی جیالوں اور ووٹروں کو انتظار رہتا آیا ہے۔
میں نے نیویارک میں ایک مصری صحافی سے ”مصری ماڈل “کا پوچھا جس مصری ماڈل کی آصف زرداری بات کر رہے تھے تو جواب میں وہ ہنسنے لگا۔ وہ کہنے لگا مصری ماڈل نام کی کوئی شے نہیں۔
مجھے یاد آیا کہ صدر زداری جو کبھی سینما مالک ہوا کرتے تھے نے بلاول بھٹو والا آئٹم ”شرطیہ نئی کاپی“ کی طرح چڑھایاہے۔زرداری صاحب کو بہرحال اس بات کا اچھی طرح پتہ ہے کہ ہاؤ س فل کس طرح جاتا ہے۔ کئی دن ہوئے کہ انہوں نے کہا تھا کہ اتنا انہوں نے زندگی میں کہیں نہیں سیکھا جتنا انہوں نے اپنے سینما کے کاروبار سے سیکھا تھا۔ لیکن جو لوگ بینظیر بھٹو کے قریب رہے ہیں ان میں سے کئی وثوق سے بتاتے ہیں کہ27 دسمبر 2007 کو اپنے قتل سے پہلے تک بے نظیر بھٹو نہ اپنے شوہر آصف زرادری کے اقتدار و سیاست میں آنے کے حق میں تھی اور نہ بچوں کے سیاست میں آنے کے۔
لیکن یہ ایشیا اور جنوبی ایشیا جہاں سیاست اور اقتدار میں موروثیت اور بڑے بڑے خانوادوے بڑا اہم فیکٹر رہے ہیں جسے نہروز، شیخ حسینہ واجد، بندرانائیکیز، سوئیکارنوز وہاں بھٹو بھی ایسے ہی ڈائینسٹی رہے ہیں۔ بھٹو زیادہ تر خود کو ہندوستان کی نہرو ڈائینسٹی یا پھر امریکہ کے کینیڈی خاندان کی قطار میں سمجھتے ہیں۔ یعنی رومن حکمرانوں کی طرح عیش و عشرت کی کہانیوں کی طرح اور یونانی المیہ کہانیوں کا سنگم بن کر جینا اور مرنا۔ یعنی بھٹو برصغیر جنوبی ایشیا کی تاریخ میں وہ کردار ہیں جو آدھی رات کو آتے تو جشن منائے جاتے ہیں اور رات گئے تک پہنچتے پہنچتے وہ جشن ماتم میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اور گڑھی خدا بخش بس فیض کے اس شعر کا مقام بن جاتا ہے
یہیں پہ غم کے شرار کھِل کر
شفق کا گلزار بن گئے ہیں
یہیں پہ قاتل دکھوں کے تیشے
قطار اندر قطار کرنوں
کے آتشیں ہار بن گئے ہیں
ایک ایسا نوجوان جس کے بچپن میں اسکے بڑے ہوتے وقت ریاست نے اسکے والد کو قید میں رکھا اور والد نے کبھی اسے اپنے سامنے بڑا ہوتا شاذ ونادو ہی دیکھا ہو اور جب بڑا ہوا بھی تو پھر اس کی والدہ کو قتل کردیا گیا۔ اب وہ اس میدان میں تھا جہاں اسکے پاس سنانے کو کوئی فضائل نہیں بس مصائب تھے۔ ایک اسی حکمران پارٹی کا سربراہ جس کے بیچنے کو آواز لگانے کو خواب تک نہیں ہیں۔ حکومت بھی ایسی کہ اگر روٹی نہیں تو کیک کیوں نہیں کھاتے۔ پی پی پی حکمراں بالکل سترہویں صدی کے فرانس کے لوئی چودہ لگتے ہیں۔
اسی دن ایک دوست نے دادو سے لاڑکانہ بذریعہ روڈ سفر کرتے ہوئے لکھا یہ پانچ سالوں میں پی پی پی حکومت کی کارگردگی کا پتہ سندھ میں سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے لگتا ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر انکی کارگردگی دیکھنی ہے کہ ان کے علاقوں اور حلقوں میں سڑکوں اور سڑکوں پر جوتے گھساتے یا پاؤں ننگے عوام کو دیکھ کر مت لگائیں ان کے مشیروں وزیروں کے تن پر زیب تن کئے ہوئے بیش بہا ڈیزائن کے سوٹوں، کاروں، محلوں، مینشنوں اور بنگلوں اور ملک و بیرون ملک بنک اکاؤنٹوں سے لگائیں۔ وہی حبیب جالب والی بات کہ :
وہی حالات ہے فقیروں کے
دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
لیکن اب بلاول بڑا ہوچکا ہے اور وہ ملک کے قاضی القضات کی طرف سے بقول اسکے (بلاول کے) پکوڑوں سموسوں کی قیمتیں بڑھ جانے کی بازپرس کرنے پر تنقید کرتا ہے۔ وہی بات کہ روٹی نہیں تو کیک کیوں نہیں کھاتے۔ سندھ میں یہ شگر ملوں کا شہزادہ (کوئی درجن بھر شوگر ملیں انکے اباّ حضور اینڈ کو کی سندھ میں ہیں بشمول دادو شوگر مل اور اب نو ڈیروں شگر ملز کے ) اپنے اس سیاسی عقیقے سے قبل سندھ میں متواتر اپنی شوگر ملوں کی دوروں پر آتے رہے ہیں۔ آپ میں سے کتنے جانتے ہیں کہ سندھ کی شگر ملوں میں گنے کی کرشنگ کے سیزن کے باوجود کس کے حکم پر شوگر ملوں کو کرشنگ سے روکا گیا۔ اور یہ شوگر ملوں کا سندھ میں بے تاج بادشاہ… کون ہے؟ کروڑوں کی تعداد میں وہ تصویر جس میں بے نظیر جس پیر کے قدموں میں بیٹھی ہے اس پیر کی گرفتاری کی کوشش میں اسکی حویلی پر پولیس کیوں بھیجی گئی تھی۔ اگر جمہوریت کا بہتر انتقام دیکھنا ہے تو مقامی طور پر سندھ میں ضلعوں، تحصیلوں اور یونین کونسلوں کی سطح پر جاکر دیکھیں۔ دادو، نوابشاہ، سکرنڈ،مٹیاری، ہالا، لاڑکانہ، نوڈیرو، گھوٹکی، سانگھڑ، خیرپور میرس، بدین، ٹھٹھ، ٹنڈو محمد خان، تھرپارکر، میرپور خاص، عمر کوٹ جیسے اضلاع فقط چند مثالیں ہیں۔ حکمران پارٹی کے مقامی سیاسی مخالفین کی پگڑیاں ہیں جو تھانوں کچہریوں میں زور والوں کے پاؤں تلے دھجیاں ہوئی جاتی ہیں
دو ہزار دس کے سیلاب کے متاثرین آج بھی دربدر خاک بر سر نیشنل ہائی وے پر کھلے آسمان نظر آتے ہیں۔
آپ نے لیکن آخری بار پاکستان میں انتخابات میں کارگردگی کی بنیاد پر کب ووٹ دیا تھا ؟
میری زوجہ جو پی پی پی کی زیادہ مداح نہیں ہیں لیکن بینظیر کی مداح ضرور ہیں ( کہ ہر سندھی عورت بینظیر اور عابدہ پروین کو دیکھنے گھروں سے پاؤں ننگے باہر نکل آتی تھی) سے میں نے بلاول کی تقریر کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگیں ”وہ (بلاول) بینظیر کی طرح بول رہا تھا“
میرے ایک دوست نے مجھے لکھا مگر دوسروں کے پاس تو بیچنے کو خواب بھی نہیں ہیں!
لیکن بینظیر طوفانوں اور حوادث کی پالی ہوئی تھیں۔ بے نظیر کے بیٹے کو میدان میں لانے کا مطلب ہے کہ ووٹ کارگردگی کی بنیاد پر نہیں پر سیاسی وفاداری اور عشق کے بنیاد پر کم از کم سندہ اور جنوبی پنجاب یا سرائکی بیلٹ میں مل سکتے ہیں کہ یہ خطہ نہ فقط میروں ، پیروں، وڈیروں کا مارا ہوا ہے بلکہ بھٹوؤں کی رومانوی اور روحانی غلامی میں بھی جکڑا ہوا ہے کہ بھٹوؤں کے سروں کی قربانی اب بھی سب پر بھاری ہے۔ مجھے کبھی ایک دوست نے کہا تھا کہ عشق بھی ایک غلامی ہے
مجھے شیخ ایاز کا سندھی نظم یاد آتی ہے جو انہوں نے دہلی کے حکمران علاوالدین خلجی کے ہاتھوں سندھ کے حکمران دودو سومرو کی موت پر لکھی اپنی ایک اوپیرا میں کہا تھاجس کا ترجمہ کچھ یوں ہوگا:
اگر تو لڑتے لڑتے
مارا جائے گا
اور اس دھرتی پر وارا جائے گا
دودا !
ذ تیری سانس تو جائے گی
پر
لوگوں کا یقین نہیں جائے گا
تیرے بیٹے نہیں توانکے بچے
رہیں گے دھرتی سے ہر دم سچیا
آزادی کیلئے لڑیں گے آخر
لڑتے لڑتے مریں گے آخر
شیخ ایاز کی یہ عظیم رزمیہ شاعری اسوقت بھی یاد آئی جب بلاول بھٹو : سواد کوئے جاناں کی بات کر رہا تھا۔ شاید یہ بات بھٹو مخالفین اب بھی نہیں سمجھ پائے۔ آج بھی داستان گو فقیر دودو سومرو کی المیہ کہانیاں گاتے ہیں اور ایسے بھی خانہ بدوش ہند اور سندھ کے صحراؤں میں ہیں جو دودو سومرو کی موت کے سوگ میں صدیاں بیتیں کہ کالے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ بھٹو تو کل کی بات ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ… منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے!
تازہ ترین