• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دو سگی بہنوں کے درمیان ایک مکالمہ ملاحظہ کیجئے جن میں بڑی بہن کچھ آسودہ حال تھیں اور چھوٹی کافی غریب۔چھوٹی بہن بڑی بہن سے اپنے بیٹے کے لئے رشتہ مانگنے آئی تھیں،انہوں نے اشارتاً بڑی بہن سے کہا کہ میرا بیٹا اس گھر میں شادی کا طلبگارہے جن کے پاس بہت سی بھینسیں ہوں۔ بڑی بہن نے بڑے ہی تحمل کے ساتھ کہا کہ میری بیٹی بھی اس گھر میں بیاہ کر جانا چاہتی ہے جن کے ہاں بہت سی بھینسیں ہوں۔ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ بڑی بہن نے اپنے معاشی طبقے کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے چھوٹی بہن کو کس طرح سے صاف انکار کردیا۔ یقین جانیے کہ یہ مکالمہ بالکل سچ پر مبنی ہے اور میں نے یہ اپنے کانوں سے سنا ہے۔ تو بات یوں ہے کہ ان پڑھ سے لیکر جید عالموں تک اپنے طبقے اور معاشی مفاد کو اولیت دیتے ہیں۔ اس پر آج کیا اٹھارہویں صدی کے وارث شاہ کہتے ہیں:

وارث شاہ ایہہ غرض ہے بہت پیاری، ہور ساک نہ سنگ تے انگ دے نے

اس مصرع کا مفہوم یہ ہے کہ (وارث شاہ معاشی مفاد عزیز ترین ہوتا ہے اور قریب یا دور کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا)

اسی موضوع پر بلھے شاہ نے بھی یہی کہا ہے کہ جب مفادات کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے تو بیٹی ماں کو لوٹ کر لے جاتی ہے اور باپ اور بیٹے میں نا اتفاقی پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے علم ہے کہ بہت سے لوگ اس سے اتفاق نہیں کریں گے لیکن اگر حقیقت پسندانہ طور پر دیکھیں تو آپ کو اپنی زندگی کے تجربات سے بھی یہ معلوم ہو جائے گا کہ معاشی مفادات کو اولیت حاصل ہے۔ میں نے جس مکالمے سے اس کالم کا آغاز کیا تھا وہ آج بھی پڑھے لکھے طبقے میں ہو رہا ہے۔ مثلاً آپ میں کتنے لوگ ہوں گے جو اپنے غریب بھائی کے ساتھ رشتہ داری بڑھانا چاہیں گے اور خاص طور پر اس صورت میں جب غریب بھائی یا بہن کی اولاد میں آگے بڑھ کر اپنا طبقہ بدلنے کا جوہر بھی موجود نہ ہو۔ اس لئے آج بھینسوں کی جگہ کاروں اور دوسری طرح کی جائیداد نے لے لی ہو لیکن بنیادی طور پر انسانی رشتوں میں ـ’بھینسیں‘ ہی گنی جاتی ہیں۔اگر انسانی رشتوں کی بنیاد معاشی اور طبقاتی بنیادوں پر ہی استوار ہوتی ہے تو پھر پوری انسانی تاریخ کی بھی اسی بنا پر تفسیر و تشریح کی جانی چاہئے۔

پاکستان کی تخلیق کو ہی لے لیجئے تو آپ اس کی مختلف انداز میں تفسیر کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں غالب طبقات بوجوہ اس تفسیر کو اولیت دیتے ہیں کہ پاکستان صرف اور صرف مذہبی ترجیحات کی بنیادوں پر تخلیق ہوا تھا۔ آپ اس کو اس طرح بھی دیکھ سکتے ہیں کہ تقسیم ہند سے پیشتر باوجود اس کے کہ مسلمان سات سو سال تک حکومت کرتے رہے ،اس سارے عرصے میں پورے بر صغیر میں غالب طبقات ہندوئوں پر ہی مشتمل تھے۔ پاکستان کی تخلیق سے پہلے پورے پنجاب اور سندھ کے شہروں میں مسلمان نہ تو کاروبار میں تھے اور نہ ہی ریاست کو چلانے والی نوکر شاہی میں۔اگر اس زمانے کی شماریات کو دیکھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت دیہی کسانوں ، دست کاروں اور مزدوروں پر مشتمل تھی۔ اس سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حالیہ پاکستانی علاقوں میں نچلی ذاتوں اور طبقوں نے مذہب تبدیل کرکے اسلام قبول کیا تھا۔وسط ایشیا سے آنے والے نو مسلموں کے لئے ’جولاہے‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے اور ان مسلمان حاکم طبقات میں مسلمانوں کے لئے اتنی حقارت تھی کہ مشہور تاریخ دان ضیاء الدین برنی نے کہا کہ نومسلم گھٹیا لوگ ہیں اور ان کو تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے:ان کو نمازیں پڑھنا، کچھ دعائیں اور ایک آدھ قرآن کا پارہ پڑھنے تک محدود رکھناچاہیے۔ بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ مسلمان حکمرانوں کے ساتھ باہر سے آنے والی نوکر شاہی یہ نہیں چاہتی تھی کہ نو مسلم تعلیم حاصل کرکے حکومتی نوکریوں میں ان کا مقابلہ کریں۔ غرضیکہ ان مسلمان حکمرانوں اور ان کی نوکر شاہی کے لئے ہندوقابل قبول تھے لیکن نچلی ذات اور پسماندہ طبقات کے مسلمان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی علاقوں کے شہروں میں ہندوئوں نے کبھی بھی اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا اور وہ تقسیم تک ہر کلیدی شعبے پر غالب رہے۔

ہم نے یہ تو ثابت کردیا کہ تاریخ میں طبقاتی کشمکش نے بنیادی کردار ادا کیا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد اور حالیہ دور میں اس بنیادی پہلو کو کیسے سمجھا جائے۔ کالم میں طوالت سے بچنے کے لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ پیپلز پارٹی اس طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر بر سر اقتدار آئی تھی۔ حالیہ دور میں یہ مسئلہ ثانوی نظر آتا ہے کیونکہ مشینی اور صنعتی انقلاب کی وجہ سے دولت کی تقسیم نو ہو رہی ہے اور دولت مخصوص طبقات کے ہاتھوں میں سمٹ رہی ہے۔ یہ صورت حال ماضی میں ہر معاشرے میں پیش آئی ہے کہ ٹیکنالوجی کی تبدیلی سے دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہو جاتی ہے لیکن طویل تر عرصے میں اس کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان میں یہ صورت حال کب تک قائم رہے گی۔ لیکن تاریخی تجزیہ بتاتا ہے کہ آخر کار طبقاتی کشمکش نے اپنا رنگ دکھانا ہے۔ ایک اور بے محل شعر، شاید!

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

تازہ ترین