• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ کئی حلقوں کی طرف سے سندھ کو پانی سے محروم کرنے کے Multi -Dimensional منصوبے پر انتہائی تیزی سے عمل ہورہا ہے، اس صورتحال کے نتیجے میں سندھ کے وسیع حلقوں کی نفسیات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اورسندھ کے اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا سندھ کا یہ حشر اس وجہ سے کیا جارہا ہے کیونکہ پاکستان کے حق میں پہلی قرارداد سندھ اسمبلی نے منظور کی تھی اور پھر پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کا تعلق بھی سندھ سے تھا۔ اس سلسلے میں یہ لوگ اس بات کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ سندھ کے بعد جس علاقے نے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی وہ سابق مشرقی پاکستان اور آج کا بنگلہ دیش تھا‘ اس کے ساتھ بھی اتنی زیادتیاں کی گئیں کہ وہاں کے لوگوں کو اپنا الگ ملک بنانا پڑا۔ کیا کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ Indus Basin طاس سندھ اس ریجن کے وسیع علاقوں کی ماں ہے اور طاس سندھ نے دریائے سندھ کے بطن سے جنم لیا ہے جبکہ سندھ، دریائے سندھ کی ماں ہے مگر اب ایک ہی وقت کئی اطراف سے متعدد منصوبے شروع کئے گئے ہیں کہ کس طرح سندھ کو نہ فقط دریائے سندھ سے محروم کیا جائے بلکہ دوسری طرف سندھ کے ایک وسیع حصے کو سمندر برد کیا جارہا ہے، سمندر میں دریائے سندھ کے میٹھے پانی کے ساتھ ریت کے نہ آنے کی وجہ سے سمندر سندھ کی لاکھوں ایکڑ زمین پر چڑھ آیا ہے اور ماحولیاتی ماہرین کے مطابق سمندر کا نمکین پانی زیر زمین تیزی سے سندھ کے وسیع علاقوں میں پھیل رہا ہے اس کے نتیجے میں جہاں ٹھٹھہ اور بدین اضلاع کی لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد

ہوچکی ہے اور سمندر کا نمکین پانی اس وقت زیر زمین جامشورو / حیدرآباد تک پہنچ گیا ہے یا پہنچ رہا ہے۔ پتہ نہیں کیوں اس وقت اس ملک کے حکمران اور دیگر حلقے اس صورتحال کا نوٹس نہیں لے رہے ہیں‘ اس خطرناک صورتحال کا نوٹس تو کیا لیں گے الٹا ایسے اقدامات کئے جارہے ہیںکہ سارا سندھ ریگستان میں تبدیل ہوجائے۔ سندھ کے وسیع حلقے سوال کرتے ہیں کہ آخر کیوں سابق منصف اعلیٰ مختلف مقامات پر ڈیم بنانے کی مہم چلاکر سندھ کی طرف دریائے سندھ کے پانی کی ترسیل کو روکنے کی کوشش کرتے رہے؟ سندھ کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا منصف اعلیٰ ایسی کسی مہم کا حصہ ہوسکتے ہیں؟ مگر سندھ کے عوام اس بات کی طرف خاص طور پر توجہ دلاتے ہیں کہ سابق منصف اعلیٰ نے نہ فقط مختلف علاقوں میں ڈیم بنانے کی مہم چلائی بلکہ مختلف اقدامات کے ذریعے مختلف حلقوں کو مجبور کیا کہ ان ڈیمز کی تعمیر کے سلسلے میں بڑی رقوم کے چندے بھی دیئے جائیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سابق منصف اعلیٰ نے خود کو فقط ڈیم بنانے کی مہم تک محدود نہیں رکھا بلکہ جاتے جاتے 18ویں آئینی ترمیم کے تحت کراچی کے جناح اسپتال کی مرکز سے سندھ کو منتقلی کے فیصلے کو منسوخ کردیا۔ یہاں کے قانونی اور وسیع حلقے سوال کرتے ہیں کہ کیا دو تہائی اکثریت سے پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کی گئی اس ترمیم کو کوئی فرد یا ادارہ منسوخ کرسکتا ہے؟۔ واضح رہے کہ اتنے عرصے سے پارلیمنٹ کی طرف سے 18 ویں آئینی ترمیم منظور کئے جانے کے باوجود ایک لمبے عرصے تک مرکز یہ اسپتال صوبے کے حوالے کرنے کے لئے تیار نہیں تھا اور نہ ہائر سیکنڈری ایجوکیشن کے کچھ اداروں کو سندھ اور دیگر صوبوں کے حوالے کرنے کے لئے تیار تھا مگر سندھ اور دیگر صوبوں کی طرف سے آخر اتنا دبائو بڑھا کہ مرکز کو یہ ادارے صوبوں کے حوالے کرنے پڑے۔ سندھ کے عوام اس بات کا بھی ذکر کرتے رہے ہیں کہ 18 ویں ترمیم کے تحت متروکہ املاک بھی مرکز کو متعلقہ صوبوں کے حوالے کرنا تھیں مگر یہ بھی ابھی تک نہیں کیا

گیا۔ ملک بھر کی متروکہ املاک سے حاصل ہونے والی بھاری رقوم سے مرکز نے کافی عرصہ قبل لاہور میں متروکہ املاک وقف کے لئے ایک Multi-Stories عمارت تعمیر کرائی جو ابھی تک مرکز کی تحویل میں ہے حالانکہ صوبے تقاضا کرتے رہے ہیں کہ یہ عمارت بھی صوبوں کی تحویل میں دی جائے مگر یہ قدم تو نہیں اٹھایا گیا الٹا کراچی کا ایک اہم اسپتال واپس مرکز کے حوالے کردیا گیا ہے۔ سندھ کے قانونی حلقے اس بات پر غور کررہے ہیں کہ اجتماعی فیصلہ کے ذریعے سپریم کورٹ میں سابق منصف اعلیٰ کے اس فیصلے کو چیلنج کریں۔ آئینی ترمیم کی توہین کرتے ہوئے قومی مالیاتی ایوارڈ (این ایف سی) کے حوالے سے خاص طور پر سندھ اور کچھ دیگر چھوٹے صوبوں کے ساتھ بھی زیادتی کی گئی۔ نواز شریف کی حکومت بھی گزشتہ پانچ سالوں سے این ایف سی کے بارے میں متعلقہ آئینی شق سے انحراف کررہی تھی مگر نئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی سندھ کے اس حق پر بھی ڈاکہ ڈالا ہے جس کے خلاف سندھ کی حکومت احتجاج کررہی ہے مگر نہ فقط مرکزی حکومت مگر کوئی بھی متعلقہ ادارہ سندھ حکومت کے اس احتجاج کا نوٹس لے رہا ہے‘ اس دوران حکومت سندھ نے ایک اور ایشو پر احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔ ہفتہ کےاخبارات میں شائع خبروں کے مطابق سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے نئے گاج ڈیم کی تعمیر اور سکھر بیراج کی بحالی کے بارے میں منعقد کئے گئے جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنے پی ایس ڈی پی سے سکھر بیراج کی بحالی اور ماڈرنائزیشن جیسے اہم منصوبوں کو واپس لے لیا ہے اور اپنے 100ملین روپے وزارت منصوبہ بندی اور اصلاحات کو سرنڈر کردیئے ہیں جو کہ سندھ کے لوگوں کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے، کیا مرکز اس بات سے نابلد ہے کہ سکھر بیراج سندھ کے آبپاشی کے نظام کی لائف لائن ہے جبکہ اس وقت سکھر بیراج اپنی مدت پوری کرچکا ہے لہٰذا اب اس کو مستحکم کرنا سندھ کی زرعی اقتصادیات اور آبپاشی نظام کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے، ساتھ ہی سندھ کے وزیر اعلیٰ نے یہ بھی انتہائی دکھ سے انکشاف کیا کہ مرکزی حکومت سندھ کے ایک اور منصوبے گاج ڈیم کے بارے میں بھی ایسا ہی رویہ اختیار کررہی ہے۔ شاید یہ اقدام بھی سندھ کو پانی سے محروم کرنے والے جامع منصوبے کا حصہ ہے۔

تازہ ترین