• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک اور سال تمام ہوا،اور جاتے جاتے ایک اور غم دے گیا۔چار عشرے بیت گئے،ہوش سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد ۱۶دسمبر آیا،ہوش و حواس گم کرگیا۔ جو دکھ 1971میں ٹوٹا، وہ کبھی بھولا نہیں جاسکے گا۔ اس کا کرب ہر سانس کے ساتھ ہے۔وہ ایک قومی سانحہ تھا۔پانچ سال پہلے ایک دوسرا حادثہ ہوا، 27 دسمبر پاکستان کو ایک بڑی رہنما سے محروم کرگیا۔بے نظیر بھٹو کی شہادت ایک سازش تھی،سانحہ یہ ہوا کہ اب تک اس سازش کو بے نقاب نہیں کیا جاسکا،یا جان بوجھ کروہ ہاتھ کھلے چھوڑدیے گئے ہیں جو اس سازش میں ملوث تھے۔ کسی بھی قوم کی زندگی میں اس سے بڑا سانحہ کیا ہوسکتا ہے کہ ایک بڑی رہنما کے قاتلوں کو پانچ برس گزرنے کے باوجود قانون کی گرفت میں نہ لایا جاسکے۔ اور ابھی سال ختم ہونے میں چند دن باقی تھے کہ پروفیسر غفور احمدنے داعی اجل کو لبیک کہا۔وہ شرافت،دیانت،قناعت،رواداری اور قربانی کا پیکر تھے۔ انہیں دیکھ کر قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد آتی تھی۔ غفور صاحب نے ایک بھرپور زندگی گزاری،کامیاب زندگی، قابل رشک زندگی۔ انہوں نے زمانے کو بہت کچھ دیا، زمانے سے انہوں نے کبھی کچھ نہیں چاہا۔ غفور صاحب بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے، ان کا اظہار وقتا فوقتا ہوا بھی۔ ملک جب جب شدید بحرانوں میں گھرا، غفور صاحب اس کی نیّا پار لگانے والوں کی اگلی صف میں ہوتے تھے۔ مگر زمانے نے ان کی وہ قدر نہ کی جس کے وہ مستحق تھے ۔ ان کی قدر نہ کرنے والوں میں ان کی اپنی جماعت بھی شامل تھی۔ جماعت والے شائد اس سے اتفاق نہ کریں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جس مقام کے مستحق تھے، وہ انہیں دیا نہیں گیا۔ غفور صاحب نے کبھی شکایت بھی نہیں کی۔ غفور صاحب 1950 میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ اور آخری دم تک جماعت اسلامی میں رہے۔ جماعت کے لئے ان کی قربانیاں بے شمار ہیں۔ ایوب خان کے دور میں جب جماعت اسلامی پر پابندی لگی تو جیل جانے والوں میں وہ بھی شامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب پاکستان قومی اتحاد کی تحریک چلی ، غفور صاحب کو بھی جیل میں بند کردیا گیا تھا اور انہیں خاصا تنگ بھی کیا گیا۔ ایک جیل سے دوسری جیل میں، اور شدید گرمی میں چھوٹے سے بیرک میں انہیں رکھا گیا۔ جماعت اسلامی میں بے غرض لوگوں کی کمی نہیں رہی۔ غفورصاحب ان میں سے ایک تھے،ممتاز اور منفرد۔ہر وقت قربانی کیلئے تیار۔کم لوگ جانتے ہونگے کہ جماعت اسلامی نے جب اپنا اخبار نکالا تو غفورصاحب نے اپنا مکان گروی رکھ کر اس کی مالی معاونت کی تھی۔ان کے گھر میں جو کچھ تھا وہ انہوں نے جماعت اسلامی کی خدمت میں پیش کردیا۔ یہ رقم انہیں بعد میں واپس مل گئی۔خود انہوں نے شاید ہی کبھی اس کا تذکرہ کیا ہو۔ ان کی کسی کتاب میں بھی اس کا کوئی حوالہ موجود نہیں ۔ اس اخبار کے منتظمین میں وہ کبھی شامل نہیں رہے۔غفور صاحب کے اسی مکان میں ملک کے تقریباتمام ہی اہم رہنما آتے رہے ہیں۔ یہاں سیاسی اجتماعات بھی ہوتے رہے۔ اس گھر میں وسعت تھی ، اس کے مکین کا دل اس سے بھی زیادہ وسیع تھا۔ بعد میں غفورصاحب نے یہ گھر فروخت کردیا، بچوں کو ان کا حق دیدیا اور خود اپنے لئے ایک چھوٹا گھر خریدا، جہاں وہ آخری دم تک ر ہتے رہے۔
غفور صاحب رواداری میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ سیاسی قائدین میں ہمیشہ جس شخص پر اتفاق رائے پایا جاتا تھا وہ پروفیسر غفور تھے۔نظریاتی طور پر شدید اختلاف رکھنے والی جماعتیں بھی ان کی ذات پر متحد ہوجاتی تھیں۔ خود غفور صاحب سے مل کر ہمیشہ،ہر ایک کو یوں لگتا تھا کہ وہ آپ کے بہت قریب ہیں ۔ وہ اپنے نظریات میں راسخ ہونگے مگر انہیں کبھی غفورصاحب نے اپنے تعلقات، اپنے ملنے جلنے میں حائل نہیں ہونے دیا۔ آج بہت سے اخبار نویسوں پر روزگار کے دروازے ان کے ماضی کے تعلق کی وجہ سے بند کردیئے جاتے ہیں۔ غفور صاحب جب ضیاء الحق کے دور میں چند ماہ کے لئے ،اپنی مرضی کے خلاف ، وزیر بنے تو صبیح الدین غوثی ان کے قریب ترین صحافی تھے۔غوثی مرحوم بائیں بازو کی سیاست کرتے تھے اور بائیں بازو کے اکثر کارکنوں کی طرح بہت سی پابندیوں کے قائل نہ تھے۔ مگر یہ معاملات غفور صاحب اور غوثی کے تعلقات میں کبھی حائل نہیں ہوئے۔ غوثی نے بھی ہمیشہ غفورصاحب کے ساتھ بہت اچھے تعلقات قائم رکھے اور جب بھی گفتگواس نہج پر آتی تو وہ غفور صاحب کی تعریف کرتے۔
ضیاء الحق کے دور سے ہی غفور صاحب آہستہ آہستہ غیر فعال ہوتے گئے۔ جماعت نے جب ضیاء الحق کے ریفرنڈم کی حمایت کی تو مخالفت کرنے والوں میں غفور صاحب بھی شامل تھے۔ مگر انہوں نے کبھی اس موضوع پر کوئی عوامی موقف اختیار نہیں کیا۔ بعد کی قیادت بھی غفور صاحب کے مزاج کے مطابق نہیں تھی۔ ان کی تربیت مولانا مودودی کی آنکھوں کے سامنے ہوئی تھی۔ وہ جماعت کے اصولوں میں اس وقت ڈھل گئے تھے جب بہت سے قائدین ابھی جماعت سے وابستہ بھی نہیں ہوئے تھے۔ غفورصاحب نے مگر کبھی ان اختلافات کی بنیاد پر جماعت سے علیحدہ ہونے کا نہیں سوچا، حالانکہ اگر وہ چاہتے تو ہر جماعت کے دروازے ان پر کھلے تھے۔ وہ جماعت کے ساتھ ہی رہے اور جب تک بالکل صاحب فراش نہیں ہوگئے ممکنہ حد تک جماعت کی تقریبات میں شریک ہوتے رہے ۔ غفور صاحب سے باتیں ہوتی رہتی تھیں، ایسے ہی ایک موقع پر میں نے انہیں یہ کہتے سنا کہ پاکستان قومی اتحاد بھی آئی ایس آئی نے بنوایا تھا۔حیدرٓباد میں کسی حادثے کے متاثرین سے تعزیت کے لئے غفورصاحب اد چند احباب وہاں جارہے تھے۔ میں بھی ساتھ ہولیا۔(حیدرآباد میں میرا گھر تھا)۔ وہ کم گو تھے مگر بات چیت سے گریز نہیں کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ اگر آپ لوگوں کو پتہ تھا کہ آئی جے آئی(اسلامی جمہوری اتحاد) آئی ایس آئی نے بنوایا تھا تو آپ لوگ اس میں کیوں شامل ہوئے۔ غفورصاحب نے نہایت آرام سے جواب دیا۔ میاں ہمیں تو بعد میں پتہ چلا کہ پی این اے بھی انہوں نے بنوایا تھا۔ یہ اس پی این اے کی بات ہے جس کے غفورصاحب سیکرٹری جنرل رہے، جس نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھٹو کے خلاف تحریک چلائی اور بعد میں مذاکرات کئے۔ اسی تحریک کے نتیجہ میں ضیاء الحق نے مارشل لا لگایا تھا۔ لگتا تھا غفورصاحب اس ساری صورتحال سے کبھی خوش نہیں رہے۔ان کی کتاب اور مارشل لا لگ گیا میں ان کے جذبات کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی رحلت سے پاکستان ایک بہت ہی شریف النفس شخص سے محروم ہو گیا۔
تازہ ترین