• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

بیروزگاری اور غربت ، تھری باشندے خودکشیوں پر مجبور

محمد وقار بھٹی...ضلع تھرپارکر کے باشندے صدیوں سے انتہائی غربت اور نامساعد حالات میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن اب سے چند سال پہلے تک تمام تر غربت، موسم کی شدت اور مشکلات کے باوجود تھری باشندوں نے کبھی اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کے خاتمے کے متعلق سوچا بھی نہیں تھا۔

سندھ پولیس کے ایک سینئر اہلکار یہ بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے جب انہوں نے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں امن و امان کے حوالے سے ہونے والے ایک اجلاس میں بتایا کہ اتنے لوگ تو دہشت گردی کے واقعات میں کسی ایک ضلعے میں نہیں مارے گئے جتنے تھرپارکر میں لوگ خودکشی کر کے اپنی جانوں سے جا رہے ہیں۔

سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 میں 97 تھری مرد و خواتین نے خودکشی کے ذریعے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا جبکہ 2018 میں یہ تعداد 71 تھی جبکہ سندھ پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 اور 2018 میں تقریبا دو سو سے زائد افراد جن میں بچے بھی شامل تھے خودکشی کرچکے ہیں۔ جبکہ ساڑھے تین سو سے زائد افراد وہ تھے جن کو یہاں تو بچا لیا گیا یا انہوں نے ایسے طریقہ کار سے خودکشی کی کوشش کی جس سے وہ اپنی زندگیوں کے خاتمے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

لیکن گزشتہ دو سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ 170 سے زائد تھری باشندوں نے نہ صرف خود کشی کر لی بلکہ اس سے دو گنا زیادہ تعداد میں تھریوں نے خودکشی کی کوشش کی لیکن خوش قسمتی سے ان کو بچا لیا گیا۔سندھ منڈل ہیلتھ اتھارٹی کے چیئرمین سینیٹر کریم خواجہ کہتے ہیں کے غربت، نامساعد حالات اور موجودہ دور کی مسابقت چند ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ضلع تھرپارکر میں خودکشیوں کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔

سینیٹر کریم خواجہ کا کہنا تھا کہ وہ ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم لے کر تھرپارکر بھی گئے تھے جہاں انہوں نے ان وجوہات کو جاننے کی کوشش کی جس کی وجہ سے تھری باشندے خود کشیاں کر رہے ہیں اور جلد ہی وہ اپنی سفارشات حکومت سندھ کو پیش کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کو کہا ہے کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں خودکشیوں کا ڈیٹا جمع کریں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ صوبے میں پچھلے دو سالوں میں کتنے افراد نے خود کشی کے ذریعے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا اور کتنے لوگوں نے خودکشی کی ناکام کوششیں کیں کہ اس مسئلے کو اچھی طریقے سے سمجھا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ تھری باشندے آج بھی صدیوں پرانے روزوشب کے اسیر ہیں ان کا کہنا تھا کہ پورے تھر میں تفریحی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں تھری مرد و خواتین اور بچوں کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں پانی بجلی گیس صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ زندگی میں کسی دلچسپی کا نہ ہونا انسان کو اس حد تک مجبور کرسکتا ہے کہ وہ اس زندگی سے چھٹکارے کے متعلق سنجیدگی سے سوچنا شروع کردے۔

معروف ماہر نفسیات اور پاکستان سائیکاٹرسٹ سوسائٹی کے صدر پروفیسر اقبال افریدی سمجھتے ہیں کہ بوریت اور تفریحی سہولیات کی عدم فراہمی تھری باشندوں میں خودکشی کرنے کی ایک اہم وجہ ثابت ہو رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پورے تھرپارکر میں ماہر نفسیات اور ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنے ذہنی مسائل کے حل کے لئے کسی سے رجوع بھی نہیں کرسکتے۔

ڈاکٹر اقبال افریدی کے بقول خود کشی کرنے والے 70 فیصد افراد ایسے واضح اشارے دیتے ہیں جن کے نتیجے میں یہ پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے اس حد تک بیزار ہوچکے ہیں کہ کسی بھی لمحے اپنی جان لے سکتے ہیں۔

ضلع تھرپارکر میں گذشتہ کئی سالوں سےفلاحی سرگرمیاں سرانجام دینے والے، دعا فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر فیاض عالم بھی سمجھتے ہیں کہ تھرپارکر کے باشندوں کو زندگی میں ایسی کوئی دلچسپی نہیں چونکہ وہاں پر ہر طرح کی سہولتوں کا فقدان ہے۔انکا کہنا ہے کہ اگر آپ نے غربت کی بدترین سطح دیکھنی ہے تو آپ تھرپارکر کے دوردراز کے علاقوں میں جائیں جہاں نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ بجلی ہے نہ گیس ، نہرو کی صفائی کا کوئی انتظام ہے اور نہ طبی سہولتیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کے پاس کوئی روزگار بھی نہ ہو تو پھر زندہ رہنا اور مر جانا بے معنی ہو جاتا ہے۔

معروف ماہر امراض اطفال اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے ڈائریکٹرپروفیسر جمال رضا سمجھتے ہیں کہ بیروزگاری تھر میں مایوسی اور خودکشی کا سب سے بڑا سبب ہے۔انھوں نے کہا کہ اس وقت ہر کوئی تھری بچوں کی غذائی قلت پر بات کر رہا ہے جب کہ اصل مسئلہ وہاں پر روزگار کی فراہمی ہے تاکہ خاندان کے سربراہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے جس کے لیے وہاں پہ انڈسٹریل زون قائم کرنے کی ضرورت ہے صاف پانی پہنچانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں گھر کو ٹیکس فری زون قرار دیا جائے تو یہ بھی اس علاقے سے قربت کم کرنے میں بہت معاون ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین