• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور اس کے گورنر کے خلاف ملکی مالیاتی پالیسی پر نا اہلی کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے تنقید کا ایک انبار لگا ہے۔ مرکزی بنک کے سابقہ گورنر سمیت ماہرین معیشت نے مرکزی بنک اور اس کے گورنر پر حکومت کے مالیاتی اصراف کو سپورٹ کرنے کی وجہ سے سخت تنقید کی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ مرکزی بنک نے بڑی دشواریوں کے بعد حاصل ہونے والی اپنی خود مختاری کو داؤ پر لگا کر بنک کو وزارت خزانہ کے ذیلی مالیاتیاتی شعبے میں تبدیل کر دیا ہے اور خاص طور پر وہ ایک ’انتخابی مالیاتی پالیسی‘ پر عمل پیرا ہے۔ مرکزی بنک اور اس کے گورنر کا پیشہ ورانہ فرض کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں ان کا کام روپے کی قدر کا ملک کے اندر اور ملک کے باہر تحفظ کرنا ہے۔ قیمت اور زر مبادلہ کی شرح میں استحکام بر قرار رکھتے ہوئے اس ہدف کو آسانی کے ساتھ پورا کیا جا سکتا ہے۔ اگر چہ یہ بات کہنے میں آسان لگتی ہے مگر عملاً یہ میکرواکنامک کے تمام تغیرات کا احاطہ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر رقم کی فراہمی کو کنٹرول کرتے ہوئے قیمت کا استحکام مرکزی بنک کو کم شرح سود قائم رکھنے کی اجازت دے گا جس کے عوض اضافی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی، معاشی نمو بلند ہوگی، ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور غربت میں کمی آئے گی۔ دوسری طرف روپے کی مستحکم قدر بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور سرمائے کو باہر جانے سے روکنے کے ذریعے ملکی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے میں مدد گار ہوتی ہے۔ بجٹ کے تناظر میں یہ سرکاری قرضے میں اضافے کی ایک اہم وجہ کا راستہ روک کر سود کی ادائیگی کو کم درجے پر رکھتی ہے اور افراد اور انفرا اسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے وسائل کا دروازہ کھولتی ہے۔ چونکہ موجودہ حکومت نے کبھی بھی معیشت کو ترجیح نہیں دی اس لئے مرکزی بنک کا ادارہ گورنروں کی بار بار تبدیلی کی وجہ سے کم زور ہو گیا ہے۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران چارگورنر تبدیل کئے گئے ہیں۔ اقتصادی بد نظمی موجودہ حکومت کا طرّہ امتیاز ہے جہاں نہ صرف بجٹ خسارہ جی ڈی پی کی7.0فی صد سطح کو پہنچ رہا ہے بلکہ گزشتہ سال8.5فی صد کی ریکارڈ سطح تک بھی پہنچ چکا ہے۔ خراب طرز حکومت کے ساتھ بے قاعدہ مالیاتی پالیسی نے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ داخلی سرمایہ کاری گزشتہ پانچ عشروں میں کم ترین سطح پر ہے،غیر ملکی سرمایہ کاری کا نام و نشان مٹ چکا ہے اورمعاشی نمو3.0فی صد سالانہ کی اوسط شرح سے سست پڑ رہی ہے۔ غربت اور بے روزگاری میں ریکارڈ اضافہ نا گزیر ہو چکا ہے۔ حکومت کے بھاری قرضوں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں شدید کمی کے باعث سرکاری قرض دگنے سے بھی زائد ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں افراط زر دو ہندسی شرح کے ساتھ برقرار رہی ہے۔ تاہم حالیہ مہینوں میں دو ہندسی شرح پراسرار طور پر یک ہندسی شرح میں تبدیل ہو گئی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے سمیت دیگر غیر ملکی قرض دینے والے اداروں کو قرض کی بڑی ادائیگیوں نے بیرونی ادائیگیوں کے توازن پر غیر یقینی کیفیت کو جنم دیا ہے۔ ایسے مایوس کن زوال پذیر معاشی ماحول میں ناقدین کو توقع تھی کہ مرکزی بنک ’ایس بی پی ایکٹ‘ کے تحت اپنا کردار ادا کر ے گا۔ مگر مرکزی بنک نے نہ صرف انہیں مایوس کیا بلکہ وہ حکومت کے ساتھ اس کے جرم میں برابر کا شریک بن گیا۔ یہ افراط زر کی وجہ کی شناخت میں ناکام رہا اور اس نے مالیاتی پالیسی پر عملدرآمد کو اتنے سہل انداز میں لیا جیسے ناک سے مکھی اڑانا۔ جس دوران ایشیاء-بحر الکاہل کے مرکزی بنکوں نے غذا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث افراط زر کو کنڑول کرنے کے لئے مالیاتی پالیسی کی حدود کا اندازہ کر لیا تھا ہمارے مرکزی بنک نے شرح سود میں اضافہ کر دیا جس سے نجی شعبے کی سرمایہ کاری کرنے میں حوصلہ شکنی ہوئی اور نتیجتاً نمو کا دم گھٹ کر رہ گیا۔ مرکزی بنک گزشتہ ایک سال سے ایک ڈھیلی ڈھالی مالیاتی پالیسی پر عمل پیرا ہے جب کہ وقت کا تقاضا یہ تھا کہ ایک سخت مالیاتی پالیسی برؤے کار لائی جائے۔ گزشتہ16مہینوں میں مرکزی بنک نے اپنی پالیسی ریٹ میں400بی پی ایس کی کمی کر دی۔ کمی بہت تیز تھی اور اس کی بنیادیں کم زور تھیں۔ مرکزی بنک نے پالیسی ریٹ میں تیز ترین کمی کا سبب افراط زر میں مستقل کمی کو قرار دیا۔یہ ایک ناقص سبب تھا کیونکہ شرح سود میں کمی کا فیصلہ مرکزی بنک سے باہر کیا گیا تھا۔ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران افراط زر میں پراسرار طور پر کمی ہوئی ہے اور یہ شرح جو جون2012میں11.3فی صد تھی نومبر2012میں کم ہو کر فقط6.9فی صد رہ گئی اور اسی عرصے کے دوران رقم کی فراہمی اور داخلی کریڈٹ میں بالترتیب تقریباً18اور23فی صد کا اضافہ ہوا۔ مقام تعجب ہے کہ رقم کی فراہمی کے اس تیز ترین پھیلاؤ میں افراط زر آخر اتنی تیزی سے کس طرح کم ہو سکتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکزی بنک اپنے گورنر کے ساتھ افراط زر کی ایک نئی تھیوری رقم کر رہا ہے جو معیشت کے تمام تر اصولوں کے بر خلاف افراط زر میں کمی کے لئے معیشت میں رقم کی لگاتار فراہمی پر منحصر ہے۔ اس بات سے سب واقف ہیں کہ گیس کی قیمتوں میں ’تصوراتی‘ کمی کے ذریعے افراد زر کے تخمیوں میں ہیر پھیر کی جا رہی ہے اور اگر اس عمل کو فوری طور پر درست نہیں کیا گیا تو جون2013کے اختتام تک افراط زر2.5-3.0فی صد تک کم ہو جائے گی۔ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں نہایت تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ جولائی2011میں مرکزی بنک کے ذخائر14.8بلین ڈالر تھے جو7دسمبر2012تک گھٹ کر8.5بلین ڈالر رہ گئے ہیں…محض16ماہ کے دوران6بلین ڈالر کا نقصان…! قرضوں کی ادائیگیوں کا بحران سر پر کھڑا ہے اور بڑے پیمانے پر آمد زر میں کمی کی وجہ سے پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک سطح تک کم ہو جائیں گے جس کے روپے کی قدر پر نہایت سنگین اثرات مرتب ہونگے۔ ملک میں روپے کی قدر پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے اور تین ہندسی شرح میں تبدیل ہونے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ معاشی نظریے کے مطابق ان حالات میں مرکزی بنک سرمایے کے اخراج کو روکنے کیلئے مالیاتی پالیسی کو سخت کر دیتا ہے۔ مگر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارا مرکزی بنک ایک نہایت خطرناک ڈھیلی ڈھالی مالیاتی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس نے سرمائے کے اخراج کی راہیں کھول دی ہیں۔ مختصراً یہ کہ مرکزی بنک اور گورنر دونوں ہی پاکستان کے اندر اور باہر روپے کی قدر کا تحفظ کرنے میں نا کام ہو چکے ہیں۔ وہ اپنے ایکٹ کے تحت حاصل خود مختاری کو بروئے کار لانے میں نا کام ہو چکے ہیں اور مرکزی بنک کو منسٹری آف فنانس کے ایک ذیلی شعبے میں تبدیل کر دیا ہے۔ جس طرح حکومت اور اس کی معاشی ٹیم نے ملکی معیشت کو با قاعدہ طور پر تباہ و برباد کیا ہے اسی طرح مرکزی بنک بھی ایک ریگولیٹری ادارے کے بطور اپنی ذمے داریوں سے دست بردار ہونے کے باعث موجودہ حکومت کی ریشہ دوانیوں اور موج مستی سے بڑھ کر اس جرم میں شریک ہے۔
تازہ ترین