• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منشیات، نوادرات، مہنگی اشیاء اور انسانوں کی اسمگلنگ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کا مسئلہ ہے جس کی روک تھام کے لئے بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ اسمگلنگ کے مجرم پکڑے جاتے ہیں انہیں سزائیں بھی ہوتی ہیں مگریہ مکروہ دھندا ختم ہونے میں نہیں آتا۔ پاکستان میں زیادہ تر اسمگلنگ افغانستان، ایران اور دوسرے ہمسایہ ملکوں سے ہوتی ہے۔ منشیات جن میں ہیروئن سمیت کئی طرح کی نشہ آور اشیاء شامل ہیں، افغانستان سے پشاور کے علاوہ خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں میںا سمگل کی جاتی ہیں۔ ایران سے منشیات اور انسانی اسمگلنگ کا بڑا راستہ ضلع چاغی کا سرحدی شہر تفتان ہے پاکستان اور ایران کے درمیان یہ قانونی تجارت کا بھی اہم مرکز ہے مگر سرحد کے دونوں طرف اسمگلروں کے گروہ بھی ہیں جو یہ مذموم کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ سرحد پر پاکستانی اور ایرانی گشتی دستوں پر فائرنگ میں بھی ملوث ہوتے ہیں جس کا مقصد اسمگلنگ کی راہ نکالنے کے علاوہ پاک ایران تعلقات خراب کرنا بھی ہے۔ گزشتہ دنوں پاک ایران سرحد سے پانچ ایرانی سرحدی محافظ اغوا کر لئے گئے جنہیں پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے کارروائی کرکے بازیاب کرایا۔ سرحد سے منشیات، قیمتی سازو سامان اور انسانوں کی اسمگلنگ روکنے کے معاملے پر گزشتہ روز دونوں ملکوں کے سرحدی حکام کا اجلاس ہوا جس میں دونوں طرف سرحدوں کو محفوظ بنانے کیلئے باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا اور یہ فیصلہ بھی ہوا کہ ہر قسم کی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے مشترکہ گشت کا اہتمام کیا جائے۔ پاکستانی حکام نے ایرانی وفد سے سرحد پار سے پاکستانی محافظوں پر فائرنگ کے خلاف احتجاج کیا جس پر ایرانی وفد نے بتایا کہ یہ کارروائی شرپسند عناصر کی ہے جو دونوں برادر ملکوں میں بدگمانیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اجلاس میں راہداری پر سفر کرنے والے سرحدی اضلاع کے لوگوں کو مزید سہولتیں فراہم کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ توقع ہے کہ پاک ایران مشترکہ اقدامات کی بدولت سرحدوں پر اسمگلنگ اور شرپسندی کے واقعات کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

تازہ ترین