• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کسی بھی قوم کی ترقی یا زوال، خودمختاری یا غلامی، کھلے پن یا گھٹن جیسے عوامل کا تعین کرنے میں سماجی روئیے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اگر آپ عصرِ حاضر کی ترقی یافتہ قوموں کا موازنہ ترقی پذیر (ویسے ایک نئی اصطلاح ”غیر ترقی یافتہ‘ ‘ کا اضافہ بہت سے ممالک کی حالتِ زار کے پیشِ نظروقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتا ہے ، اس لئے سماجی رویوں کے حوالے سے میں اس اصطلاح کا استعمال زیادہ موزوں خیال کرتاہوں)ممالک سے کیا جائے تو سماجی رویوں میں بہت زیادہ تفاوت نظر آتی ہے۔آئیے ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ قوموں کے سماجی رویوں پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔
میں نے چین میں دو سال گزارے ہیں۔ چین جانے سے پہلے میں ایک مختصر عرصے کیلئے یورپ میں قیام کر چکا تھا اور پورپی طرزِ زندگی کا ایک سرسری سا خاکہ میرے ذہن میں موجود تھا۔ امریکی معاشرے کے بارے میں مجھے پہلے ہی اچھی خاصی معلومات تھیں جنکے اہم ذرائع امریکی نیوزو انٹر ٹینمنٹ چینلز اور امریکی فلمیں تھیں۔ لیکن مشرق بعید کے ممالک اور خصوصا ًچینی معاشرے کے بارے میں میری معلومات تقریباً نہ ہونے کے برابر تھیں۔ میر ے ذہن میں ایک تجسس تھا کہ چینی قوم نے پچھلے چند عشروں میں غیر ترقی یافتہ سے ترقی پذیر اور پھر ایک جدید ترقی یافتہ قوم بننے کا فاصلہ اتنی تیزی سے کیسے طے کیا ہے۔ سو میں چین کو قریب سے دیکھنے کے موقع کی تلاش میں تھا کہ چین جانے کا ایک خوبصورت موقع میرے ہاتھ آ گیا۔ دو سال کے عرصہ میں میں نے چین میں سماجی رویوں کا خوب مشاہدہ کیا۔
امریکہ، یورپ اور چین میں لوگ وقت کی بڑی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ مجھے اس حوالے سے پورے دوسال کافی مشکلات کا سامنا رہا۔جتنی مرضی کوشش کرتا، اپنی چینی زبان اور قانون کی کلاسوں میں وقت سے اکثر دس پندرہ منٹ لیٹ ہو جاتا۔اسی دوران میں نے محسوس کیا کہ ٹھیک آٹھ بجے، جو کلاس شروع ہونے کا وقت تھا، پوری یونیورسٹی کے کوریڈور سنسان پڑے ہوتے تھے اور میں مرزا یار کی طرح خراماں خراماں اکیلا ہی ان سے گزر کر اپنی کلاس میں داخل ہوتا۔ اپنی اس حرکت پر کافی شرمندگی ہوتی تھی لیکن پاکستان کے دیگر سفارتکار ساتھیوں کو دیکھ کر تھوڑی بہت دل پشوری کر لیتا۔چند ہی مہینوں میں مجھے اندازہ ہو گیاکہ امریکی، پورپی اور چینی ہم جماعت کبھی لیٹ نہیں آتے جبکہ قازقستان، ازبکستان، یوکرائین ، پولینڈ جیسے ممالک سے تعلق رکھنے والے ہم جماعتوں کی حالت ہم پاکستانیوں سے بھی پتلی تھی۔ میرے لئے سب سے حیران کن بات یہ تھی کہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے سفارتکار ہم جماعت وقت کی پابندی کے معاملے میں چینیوں کے ہم پلہ تھے۔ وقت کی پابندی کی حوالے سے ایک واقعہ نے مجھے کافی جھنجوڑا اور میں نے وقت کی پابندی کی عادت کو تقریباً اپنا لیا۔ہوا یوں کہ ہم دو پاکستانی کچھ چینی دوستوں کے ساتھ تین دن کیلئے چین کے دور دراز علاقوں کی سیر کو گئے۔ ہم سب کو ریلوے سٹیشن پر اکٹھا ہونا تھا۔ ہم دونوں پاکستانی مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ دیر سے پہنچے تو چینی دوستوں کو اس پر بہت ناگواری ہوئی۔اسکے بعد پورے تین دن ہمیں چینی دوستوں کی طرف سے ”جلدی کریں“ کی گردان صبح شام سننا پڑی۔ایک دن ہم شیان کی مشہور قدیم مسجد دیکھنے گئے تو تھوڑے لیٹ ہو گئے ، جیسے ہی باہر نکلے”جلدی کریں “ نے ہمارے استقبال کیا۔ ہم اس پر تھوڑے زچ ہو گئے، اتنے میں اچانک ایک اجنبی چینی نے بلندآواز میں اردو میں کہا”پاکستانی دوست!!“۔ ہمیں بڑی خوشگوار حیرت ہوئی ،وہ ہمیں بتانے لگا کہ وہ دبئی میں کام کرتا ہے اور وہاں اسے بہت سے پاکستانیوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے اسی لئے وہ ایک نظر میں پاکستانیوں کو پہچان لیتا ہے۔ تھوڑی بہت گپ شپ کے بعد اس نے رخصت ہوتے ہوئے کہا”پاکستانی اور چینی اچھے دوست ہوتے ہیں “ہم بڑے خوش ہوئے لیکن ساتھ ہی بولا”لیکن ایک بات ہے کہ پاکستانی کبھی وقت پر نہیں آتے“ہمارے چینی دوست زیرلب مسکرا دےئے اور کہنے لگے” جلدی کریں ،ہم لیٹ ہو رہے ہیں“۔اس دن کے بعد میں نے وقت کی سختی سے پابندی کی عادت اپنا لی۔واپس اسلام آباد میں تعینا ت ہوا تووقت کی پابندی کرنے کی وجہ سے مسئلے کھڑے ہونا شروع ہوگئے۔میں ٹھیک آٹھ بجے اپنے دفتر پہنچتا تو سرکاری دفتروں کے مشہورچوہوں کے ساتھ کمپنی رہتی(انہیں بھی شائد عجیب محسوس ہوتا ہو گا کہ صبح آٹھ بجے ہماری روٹین میں خلل ڈالنے یہ کیوں آ جاتا ہے)۔ صفائی کرنے والا عملہ کافی دیر سے آتا اور کوئی ساڑھے دس، گیارہ بجے پاکستان کے اس اہم ترین دفتر میں زندگی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوتے۔چھٹی کے وقت کی پابندی تو خاص طور پر مہنگی پڑی۔ ایک دو تنبیہات کے بعد میرا تبادلہ کر دیا گیا اور مجھے ”اچھی شہرت والے“ افسروں کی فہرست سے نکالے جانے کی پیشن گوئی بھی سنا دی گئی۔
عام زندگی میں جھوٹ امریکہ اور یورپ میں قریب قریب نہیں بولا جاتااور عوامی شخصیات کا جھوٹ بولناتو بہت معیوب سمجھا جاتا ہے، اگر عوامی شعبوں سے متعلق شخصیات کا جھوٹ پکڑا جائے تو معاشرہ انکا بڑی سختی سے محاسبہ کرتا ہے۔آپکو یاد ہو گا کہ جب امریکی صدربل کلنٹن کا معاشقہ پکڑا گیا تھا تو ابتدا میں بل کلنٹن نے اس معاشقے سے انکار کر دیاتھا۔ لیکن جب بلی تھیلے سے باہر آ گئیاور اس نے اپنے معاشقے کو تسلیم کر لیا تو امریکی قوم بل کلنٹن پر بہت سیخ پا ہوئی ۔معاشرتی لحاظ سے امریکی صدرکو بہت برا وقت دیکھنا پڑاتھا، لوگ اس کے اپنے سیکریٹری کے ساتھ معاشقے سے زیادہ اس بات پر برہم تھے کہ اس نے اتنے بڑے منصب پر ہوتے ہوئے جھوٹ بولا تھا۔چین اور ہندوستان کی حالت ہم سے بہت زیادہ بہتر نہیں ہے لیکن ہم تو جھوٹ کے رسیا ہیں۔ہم بحثیتِ قوم نہ صرف عادتاً جھوٹ بولتے ہیں بلکہ جھوٹ بولنے کو بُرا بھی نہیں سمجھتے۔ اس سے بھی تشویشناک بات یہ کہ اگرکسی کا جھوٹ پکڑا جائے تو بھی ہم اس کا کوئی خاص بُرا نہیں مناتے بلکہ اس پر ”مٹی پاؤ“ والا فارمولا یہ کہہ کر لگا دیتے ہیں کہ پھر کیا ہوا ہر کوئی جھوٹ بولتا ہے۔صد افسوس کہ ہم نے جھوٹ کو ایک قابلِ قبول سماجی روییکا درجہ دے دیا ہے۔ ہماری عدالتوں میں تو اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ خدا کی پناہ!! عدالتوں میں عمومی طور پر مدعی، ملزم، گواہ ، وکیل؛ہر کوئی جھوٹ بول رہا ہوتا ہے۔ چند دن پہلے پاکستان کے ایک چوٹی کے فوجداری وکیل سے گپ شپ کا موقع ملا ۔ باتوں باتوں میں جھوٹ کا ذکر بھی چھڑ گیا ، ان کا فرمانا تھا کہ ”سچ بول کر نہ تو کسی اصل مجرم کو سزا دلوائی جا سکتی ہے اور نہ ہی کسی بے گناہ ملزم کو بچایا جا سکتا ہے“۔حاصلِ گفتگو یہ تھا کہ جھوٹ کے بغیر فوجداری وکالت کی ہی نہیں جا سکتی دوسرے لفظوں میں اسکا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے جتنی بھی فوجداری وکالت کی جھوٹ کی مدد انکو حاصل رہی۔اسی طرح آپ ہر شعبہ زندگی کا ایک ایک کر کے جائزہ لے لیں،کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا۔
کرپشن کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو چھوٹی رشوت ستانی(petty corruption)سے لیکر اربوں روپے کے کمیشن تک ،ہر سطح کی کرپشن کوایک قابلِ قبول سماجی رویہ تسلیم کیا جاتا ہے۔اسی لئے مشہور ہے کہ ہمارے ملک میں ایماندار وہی ہے جسکو موقع نہیں ملا۔ اسی سے ملتا جلتا ایک اور سماجی رویہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی کرپشن کے خلاف بات کرنا تو پسند کرتا ہے لیکن ہمیں عملی طور پر جب کسی ایسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے جس میں رشوت دینا یا لینا ممکن ہو تو ہم بڑی آسانی سے یہ کام کر جاتے ہیں اور ہمیں اس میں کوئی خاص برائی نظر نہیں آتی۔ سرکاری محکموں سے واسطہ پڑ جائے تو کام نکلوانے والا اور کام کرنے والا دونوں رشوت کے تبادلے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں مجھے ایک نئے بھرتی ہونے والے عدالتی اہلکار کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ رشوت نہیں لیتا، مارے خوشی کے میں اسے ملنے چلا گیا۔ دس پندرہ منٹ کے دوران اس کو اتنے لوگوں نے مٹھی میں بند”پان مسالا“ دینے کی کوشش کی کہ میں سوچ میں ڈوب گیا کہ یہ کب تک اتنی زیادہ گرم مٹھیوں کی مزاحمت کرے گا۔ہمارے ہاں تو اسامہ بن لادن کو بھی پٹواری کو پچاس ہزار روپے رشوت دینا پڑ گئی تھی۔دوسری طرف امریکہ اور یورپ میں بڑے پیمانے کی کرپشن کسی حد تک موجود ہے لیکن اگر وہ منظرِ عام پر آ جائے تو سزا یقینی ہو جاتی ہے لیکن چھوٹے پیمانے کی کرپشن یا رشوت ستانی تقریبا ناپید ہے۔جبکہ چین اور بھارت کا معاملہ الٹ ہے وہاں چھوٹے پیمانے کی کرپشن عام ہے لیکن بڑے پیمانے کی کرپشن کی سماجی قبولیت کافی کم ہے۔ جب میں نے پہلی دفعہ بیجنگ میں قدم رکھا تو میں حیران ہو گیا، بیجنگ میر ے تصور سے کہیں زیادہ خوبصورت اور ترقی یافتہ نکلا۔ پورے شہر میں ہزاروں کی تعداد میں بلند بانگ عمارتیں، پُل، اور ہیڈ برج، انڈر پاس، فلائی اوورتھے جو سارے کے سارے پچھلے ایک دو عشروں میں تعمیر ہوئے تھے۔انہی دنوں کراچی میں ایک نیا فلائی اوور تازہ تازہ گرا تھا، میں نے سفارتخانے کے ایک دوست سے پوچھا کہ چین کرپشن کے معاملے میں کوئی بہت بہتر ملک نہیں سمجھا جاتا پھر بھی اربوں کھربوں ڈالر کی مالیت سے اتنا جدیداور شاندار انفراسٹرکچر کیسے تعمیر کیا گیا ہے؟ وہ دوست کہنے لگا کہ سُنا ہے شروع شروع میں ایک بڑا اوور ہیڈ برج تعمیر کے کچھ ہی مہینوں بعد گر گیا تھا، اسکے ذمہ داروں کو اسی منہدم پل کی جگہ پرپھانسی دے دی گئی، اسکے بعد سے چین میں کبھی کوئی پُل نہیں گرا۔
اسی طرح دھونس کے آگے سر تسلیم خم کرلینا، اپنے اور اپنے متعلقین کے ہر صحیح یا غلط کام کو کروانے کیلئے دباؤ ڈالنا اور ڈلوانا، زندگی میںShort Cut کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، اپنے کام سے کام رکھنے کی بجائے دوسروں کے کام میں دخل دینا وغیرہ وغیرہ چند دیگر سماجی رویے ہیں جنکی سماجی سطح پر قبولیت یا عدم قبو لیت اس بات کا تعین کرتی ہے کہ کوئی معاشرہ کتنا ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ ہے۔
تازہ ترین