• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کی باتیں بہت متاثر کن ہیں اور ان کے اظہار کا انداز اس سے بھی زیادہ مسحور کن ۔ وہ کمال کے مقرر ہیں جو اپنے خیالات کے اظہار سے قبل بڑا ہوم ورک کرتے ہیں اور مجمع کو جس طرف چاہتے ہیں لے جاتے ہیں ۔بہت سے لوگوں کو ان کی جو بات سب سے زیادہ چبھی وہ تھا ان کا دھمکی آمیز اسٹائل یہ کرو ورنہ ہم یہ کر دیں گے  10جنوری تک انتخابی اصلاحات کریں ورنہ 20لاکھ نہیں 40لاکھ افراد اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے 14جنوری کو جمع ہوں گے اور اپنا فیصلہ منوا لیں گے ۔ڈاکٹر قادری انتخابی اصلاحات چاہتے ہیں تاکہ آئندہ عام انتخابات میں بری شہرت والے لوگ منتخب نہ ہو سکیں اور سسٹم کو کرپشن سے پاک کیا جاسکے ۔ یقیناً ان کا پہلا شو جو لاہور میں منعقد ہوا بہت اچھا تھا ۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور ان میں ڈسپلن بھی بہت اچھا تھا۔ منتظمین نے بھی بڑا کمال دکھایا ۔ مگر بہت سے لوگوں کو ڈاکٹر قادری کا الیکشن سے چند ماہ قبل” سیاست نہیں ریاست بچاؤ “ کا نعرہ لگاکے پاکستان آنا سازش سے بھر پور لگتا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ شیخ الاسلام بھی اسٹیبلشمنٹ کے ایک اور مہرے کے طور پر میدان میں اترے ہیں تاکہ عام انتخابات کو ملتوی کیا جاسکے یا کم از کم نون لیگ کے ووٹ بنک کو تقسیم کیا جاسکے۔ ان سب باتوں میں بہت وزن ہے اور انہیں یکسررد نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر قادری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ان الزامات کو دھوئیں مگران کے ماضی کی روشنی میں بہت سے لوگ ان پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کا پاکستان واپسی کا فیصلہ ہے جبکہ وہ کئی سالوں سے سیاست سے کنارہ کش رہے۔اس دوران وہ کینیڈا اور کئی دوسرے ممالک میں اسلام پر لیکچر دیتے رہے اور منہاج القرآن اسکول سسٹم (جو کہ یقیناً بہت کامیاب ہے ) کو چلاتے رہے ۔ ان کا اسکول سسٹم پاکستان میں بھی کافی اچھا ہے ۔ بلاشبہ انہوں نے اپنے بیرون ملک قیام کے دوران خوب پیسہ بھی کمایا۔
جو حقیقت ڈاکٹر قادری کی عمدہ باتوں کی اہمیت کم کرتی ہے وہ ہے ان کی کینیڈا کی شہریت ۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق کوئی بھی شخص ایک ہی وقت میں دو ممالک کا وفادار نہیں ہو سکتا خصوصاً اس وقت جب ان ملکوں کے مفادات  مذاہب  رسم و رواج اور روایات میں زمین آسمان کا فرق ہو ۔ وفاداری منقسم نہیں چل سکتی ۔ ایک ہی وقت میں یا تو آپ پاکستان کے وفادار ہو سکتے ہیں یا کینیڈا کے ۔ یہ فیکٹرشیخ الاسلام کے سارے ایجنڈے جس کے تحت وہ پاکستان کے انتخابی نظام کو تمام برائیوں سے پاک کرناچاہتے ہیں کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ ریفارمر کو قوم کے سامنے پہلے خود بطور ماڈل پیش کرنا چاہئے ۔اگر وہ خود ہی پاکستان سے وفاداری کے بارے میں کنفیوژڈ ہیں تو اس کی باتوں کا وزن انتہائی کم ہو گا ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جب ڈاکٹر قادری نے پاکستان آمد سے چند ہفتے قبل اپنے لاہور والے جلسے کی پبلسٹی مہم شروع کی تو اس وقت ہی اعلان کر دیتے کہ انہوں نے کنیڈین شہریت ترک کر دی ہے اور اب وہ صرف اور صرف اپنے ملک کی شہریت رکھتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان کا قد کاٹھ بلند ہوتا بلکہ لوگ بھی ان کے ارشادات پر یقین کرتے ۔ ان کا کینیڈین شہریت رکھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ چند ہفتے یا ماہ پاکستان میں ہلچل مچا کر پھر بیرون ملک چلے جائیں گے اور اسی طرح کے شغل میلے کے لئے واپس آتے رہیں گے جبکہ ان کو کوئی دوسرا ٹاسک دیا جائے گا ۔ ان کا دھماکے کے ساتھ پاکستان واپس آنا صرف سسٹم کی اصلاح کے لئے نہیں بلکہ سیاست کرنا ہے۔ وہ اپنی جاری مہم پر غور و خوض کے بعد فیصلہ کریں گے کہ ان کی پاکستان عوامی تحریک نے نئے انتخابات میں حصہ لینا ہے یا نہیں۔ اگر وہ سمجھے کہ وہ اتنا بڑا عوامی مینڈیٹ حاصل کرلیں گے کہ پاکستان میں انقلاب لاسکیں تو الیکشن ضرور لڑیں گے ورنہ پھر کینیڈا واپس چلے جائیں گے تاکہ اپنے نان نفقے کا بندوبست جاری رکھ سکیں۔
ڈاکٹر قادری کے لاہور میں جلسے کے انعقاد پر خرچ ہونے والے کروڑوں روپوں پر بھی بڑے سوالات اٹھ رہے ہیں جو جائز ہیں۔ یہ پیسہ کہاں سے آیا ؟ ۔ اگر یہ منہاج القرآن اسکول سسٹم سے حاصل کیا گیا تو یہ نامناسب بات ہے۔ اگر شیخ الاسلام نے اپنی جیب سے خرچ کیا تو پھر انہیں اس کا حساب دینا ہو گا کہ انہوں نے کتنا انکم ٹیکس ادا کیا ہے۔ جس طرح کک کو تو باورچی خانے کی گرمی برداشت کرنی ہی ہے ورنہ وہ یہ پیشہ چھوڑ دے اس طرح اگر ڈاکٹر قادری سیاست کر رہے ہیں اور موجودہ سسٹم کو کرپٹ کہتے ہیں تو جو اس کا حصہ ہیں وہ صرف ایک جلسہ پر کروڑوں روپے کے اخراجات پر سوال اٹھائیں گے ۔ ڈاکٹر قادری جس پاکیزگی کا دامن تھامے ہوئے ہیں اس کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنا سارا حساب کتاب عوام کے سامنے رکھ دیں ۔ اس سے انہیں سیاسی فائدہ ہی ہو گا اور ان کے مخالفین کے منہ بھی بند ہو جائیں گے ۔ صرف یہ کہنا کہ عوام نے جلسے کے اخراجات اٹھائے ہیں بے معنی ہے اور اصل سوال سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے۔
علامہ قادری کی دھمکیاں اپنی جگہ مگر نہ ہی حکومت اور نہ ہی اپوزیشن ان کے ”حکم “ پرعمل درآمد کرنے کو تیار ہے ۔ وہ کوئی نئی انتخابی اصلاحات نہیں لا رہیں اور نہ ہی آئندہ عبوری سیٹ اپ ڈاکٹر قادری کی مرضی سے بنائیں گی۔ عبوری وزیراعظم کا فیصلہ موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور قائدحزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے مل کر کرنا ہے اور اگر وہ کسی ایک نام پر متفق نہ ہو سکے تو وہ دو دو نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوا دیں گے ۔ اگر وہ بھی کسی پر اتفا ق رائے نہ کر سکی تو پھر فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا ۔ اسی طرح عبوری وزیراعلیٰ کا فیصلہ ہوگا ۔ یقینا کیئر ٹیکر سیٹ اپ غیر جانبدار اور منصفانہ ہو گا جس پر کوئی ذی شعور شخص انگلی نہ اٹھا سکے ۔ حکومت اور اپوزیشن کے رویے کی وجہ سے ڈاکٹر قادری کا ایک بھی مطالبہ پورا نہیں ہو گا تو پھر کیاشیخ الاسلام اپنے مشن کے حصول کے لئے تحریک چلائیں گے۔ جب تقریباً تمام بڑی سیاسی جماعتیں اور سب کی سب مذہبی جماعتیں ڈاکٹر قادری کے ایجنڈے کی پذیرائی کے لئے تیار نہیں تو ان کی تحریک کیسے کامیاب ہو گی۔ اس سے قبل بھی ڈاکٹر قادری سیاست کے میدان میں اپنے جوہر دکھا چکے ہیں جو الیکشن انہوں نے لڑا تھا اس میں ان کی جماعت نے صرف ایک ہی قومی اسمبلی کی سیٹ حاصل کی تھی جو خود ان کی اپنی تھی۔ اگر وہ دوبارہ انتخابات لڑتے ہیں تو دال روٹی کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔
سب جماعتوں کی مخالفت اپنی جگہ مگر ایم کیو ایم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)نے ڈاکٹر قادری کی حمایت کی ہے۔ پی ٹی آئی کے بہت سے رہنماؤں نے ڈاکٹر قادری کے جلسے میں کئے گئے مطالبات اور ارشادات کو رد کیاتھا مگر ان کے چیئرمین عمران خان نے ان کی حمایت کی تھی۔ لہذا پی ٹی آئی میں ڈاکٹر قادری کے مشن کے بارے میں دو متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ تاہم ایم کیو ایم یک آواز ہے جبکہ اس کی اتحادی پیپلزپارٹی ڈاکٹر قادری کے ایجنڈے کی سخت مخالف ہے اور ان کے ایک لیڈر نے تو یہاں تک کہہ دیاہے کہ علامہ کون ہوتے ہیں اپناایجنڈا ہم سب کو ڈکٹیٹ کرنیوالے۔ ایم کیو ایم کو ڈاکٹر قادری کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کیاسیاسی فائدہ ہوتا ہے اس کے بارے میں اس وقت کچھ کہنا مشکل ہے سوائے اس کے کہ الیکشن موخر کرائے جاسکیں۔ یہ ویسے بھی مذاق سے کم نہیں کہ ایک شخص جو کئی سال سے بیرون ملک ہے اسے اچانک پاکستان کی حالت پر ترس آیا  وہ واپس آئے  ایک بڑا جلسہ کرے اور سب پر اپنا ایجنڈا تھوپنے کی کوشش شروع کر دے۔ تاہم ڈاکٹر قادری کا مجوزہ 14جنوری والا چار ملین کا جلسہ وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے لئے امن و امان کے نکتہ نگاہ سے بہت بڑا چیلنج ہو گا ۔ ان کی مشترکہ سرتوڑ کوشش ہونی چاہئے کہ کسی قسم کی گڑ بڑ نہ ہو تاکہ انتخابات کے التوا کے لئے کوئی جواز فراہم نہ کیا جاسکے۔
تازہ ترین