• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

حلقہ 218 کا ضمنی انتخاب: دو مخدوموں کی پرانی سیاسی لڑائی میں تبدیل ہوسکتا ہے

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار تیسری مرتبہ ملتان آئے اور کئی حوالوں سے ان کا یہ دورہ خبروں کا مرکز بن گیا۔ انجانے میں آئی جی پنجاب کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھے بغیر پلٹنے کا عمل بہت بڑی خبر بن گیا حالانکہ اگلے ہی لمحے وہ اپنی غلطی مان کر آئی جی پنجاب سے مصافحہ کرچکے تھے۔ سونے پر سہاگہ ان کی میڈیاسے گفتگو ثابت ہوئی، جس میں انہوں نے یہ کہہ کر اپنے مخالفین کو مزید تنقید کا موقع دیا کہ وہ ابھی ٹریننگ لے رہے ہیں آہستہ آہستہ سب سمجھ آ جائے گا۔ ان کے دورے کے حوالے سے دوسری خبریہ بنی کہ ان کی ہی پارٹی کے ضلعی عہدے داروں نے ملاقات کے لئے نہ بلانے پر احتجاج کیا۔ حتیٰ کہ انہوںنے وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف پریس کانفرنس کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ عثمان بزدار ملتان آئے اور انہوںنے پارٹی کے مقامی عہدیداروں، اراکین اسمبلی سے ملاقات نہیں کی۔ ان کی سکیورٹی کے انتظامات اتنے سخت ہوتے ہیں کہ سوائے بلائے گئے افراد کے کوئی دوسرا ان تک نہیں پہنچ سکتا حالانکہ جب شہباز شریف ملتان آئے تھے تو مسلم لیگ (ن) کے عہدے دار ہر قیمت پر ان سے ملنے میں کامیاب ہو جاتے انہیں ملاقات کا پیشگی وقت نہیں دیا ہوتا تھا۔ تاہم جب اس صورت حال کی بھنک وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے کان میں پڑی تو انہوںنے ضلعی صدر اعجاز حسین جنجوعہ سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ جلد ہی ملتان کے تفصیلی دورہ پر آرہے ہیں جس کے دوران وہ پارٹی کے کارکنوں، عہدے داروں سے خصوصی ملاقات کریں گے اور اس سے پہلے ضلعی اوردیگر تنظیمی عہدے داروں کو لاہور بلا کر ان کے مسائل بھی سنے جائیں گے۔ تاہم کارکن مسلسل نظر انداز کرنے کی وجہ سے ان سے نالاں ہی ہیں۔ وزیراعلیٰ کی آمد پر پارٹی کے عہدے داروں کا اس طرح کا احتجاج کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ تحریک انصاف میں نظم و ضبط کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ادھر یہ چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ شریف فیملی کے سماتھ کوئی ڈیل ہونے جارہی ہے۔ پہلے حمزہ شہباز کا بیرون ملک جانا پھر نواز شریف کا کوٹ لکھپت جیل سے سروسز ہسپتال منتقل ہونا اور شہباز شریف کے حوالے سے ان خبروں کا سامنے آنا کہ وہ ڈیل کی صورت میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کو چھوڑنے کو تیار ہیں۔اس بات کے اشارے ہیں کہ کچھ نہ کچھ تہہ آب ہو رہا ہے اور نواز شریف کی بیماری کو بنیاد بنا کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے ذریعے ان کی ضمانت اور بعد ازاں انہیں علاج کے لئے بیرون ملک بھیجنے کا حکم بھی آ سکتا ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کی سیاست میں ایک نئے موڑ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے ۔ یاد رہے کہ ابھی آصف علی زرداری کو کوئی ریلیف ملنے کی توقع نہیں ہے۔ حکومت نے ای سی ایل سے جن 37لوگوں کے نام نکلوانے کے لئے ریویو کمیٹی کو بھجوائے ہیں ان میں آصف زرداری کا نام نہیں ہے گویا نواز شریف کو تو شاید این آر او مل جائے مگر آصف علی زرداری کے لئے منی لانڈرنگ کیس ایک بہت بڑا پہاڑ بن کر کھڑا ہے۔

ادھر ملتان میں صوبائی حلقہ 218سے گیلانی خاندان کے دستبردار ہونے کی اطلاعات ہیں اور ذرائع کے مطابق اس نشست پر اپنی شکست کا رسک لینے کی بجائے یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کی جگہ حلقے کے ایک مؤثر سیاسی خاندان کے ارشد راں کو پارٹی کا ٹکٹ دلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے پائے گئے ہیں کہ ارشد راں کی انتخابی مہم وہ خود چلائیں گے۔دوسری طرف ان کی یہ کوشش بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل ہو جائے لیکن مقامی سطح پر مسلم لیگ (ن) کے مضبوط دھڑے اس نشست پر پیپلز پارٹی کو واک اوور نہیں دینا چاہ رہے اور سابق رکن قومی اسمبلی عبدالغفار ڈوگر یہاں سے اپنے بھائی ذوالفقار ڈوگر کو ٹکٹ دلانا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ اس حلقہ سے مسلم لیگ (ن) کے پرانے ٹکٹ ہولڈر ظفر راں نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی حمزہ شہباز شریف سے ملاقات ہو چکی ہے اور یہاں سے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ انہیں ملے گا۔ اس سے پہلے تحریک انصاف یہاں سے ملک مظہر عباس راں مرحوم کے بیٹے کو ٹکٹ دینے کا اعلان کرچکی ہے اور شاہ محمود قریشی نے یہ یقین دلایا ہے کہ اس حلقہ میں پی ٹی آئی کے امیدوار کی مہم خود چلائیں گے۔ یوں دیکھا جائے تو صوبائی حلقہ218کا ضمنی الیکشن دو مخدوموں کی پرانی معرکہ آرائی میں تبدیل ہوسکتا ہے۔یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی کئی بار قومی اسمبلی کی نشست پر ایک دوسرے کے مدمقابل رہے لیکن یہ اپنی نوعیت کا شاید پہلا مقابلہ ہوگا کہ دونوں براہ راست امیداور نہ ہونے کے باوجود اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم چلائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ واضح کرے گا کہ قادر پور راں کی سیاست میں کس مخدوم کا پلڑا بھاری ہے۔ شاہ محمود قریشی کو اس لئے برتری حاصل ہوگی کہ ملک مظہر عباس راں کے بیٹے جو تحریک انصاف کے امیدوار ہیں کو ہمدردی کا ووٹ بھی حاصل ہوگا، ویسے بھی مظہر عباس راں اس حلقے سے کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور اب ان کے اچانک انتقال کی وجہ سے ان کا ووٹ بیٹے کو ملنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

تازہ ترین
تازہ ترین