• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں فوجی آپریشن پوری آب و تاب سے جاری تھا، سڑکیں سنسان، گلیاں ویران اور بازاروں میں ہو، کا عالم ہوا کرتا تھا، نت نئے عقوبت خانے دریافت ہورہے تھے۔ روشنیوں کے شہر کا حسن، بیوہ کی اُجڑی ہوئی مانگ کی طرح ماند پڑ چکا تھا، میں اپنے ایک بہت ہی عزیز دوست کے چھوٹے بھائی کے گھر گلشن اقبال میں بیٹھا ہوا تھا کہ جنرل نصیر اختر کا فون آیا، جو ان دنوں ”فائیو کور“ کی کمان کررہے تھے، وہ میرے میزبان سے ملنے کیلئے گلشن اقبال آنا چاہتے تھے، مگر انہیں یہ کہہ کے روک دیا گیا تھا کہ اسلام آباد سے صاحب کے ایک دوست آئے ہوئے ہیں۔ اس لئے وہ آج کسی سے بھی نہیں مل رہے۔
پیپلز پارٹی کی سربراہ بیگم شہناز وزیر علی کو گیٹ سے واپس بھیج دیا گیا تھا۔ سردار شوکت حیات کی صاحبزادی، وینا حیات بھی میرے میزبان سے ملے بغیر پلٹ گئی، اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ عرفان اللہ مروت تو ڈرائنگ روم تک پہنچ گئے تھے مگر ملاقات سے معذرت کردی گئی، میں نے ایک دو بار کہا بھی کہ آپ اپنے معمول کے کام اور ملاقاتیں جاری رکھیں، مگر میزبان نے یہ کہہ کے کمال عقیدت کا اظہار کیا کہ ”آج صرف آپ کا ہے، سیاست اور بزنس تو ہم روز ہی کرتے ہیں۔“
میرے اس میزبان کی بیگم عدم سدھار چکی تھیں، بیٹا کسی غیر ملکی ایئر لائن میں کمرشل پائلٹ اور بیٹی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی بعد میں جس کی شادی پاکستان کے ایک سابقہ وزیر خزانہ شوکت ترین سے ہوئی تھی، مجھے میرا میزبان گھر کی ساری منزلیں اور سارے کمرے میں لئے لئے پھر رہا، کون سا ڈیکوریشن پیس کس ملک سے منگوایا گیا ہے اور کون سا قالین ایران کے کس شہر سے بنوایا تھا، البانیہ سے منگوائے گئے پھولوں کے پودے بھی دکھائے، وہ اس روز بہت خوش تھا، میں رہ رہ کر اس کی بے نیازی پر رشک کرتا رہا کہ ملک کے کہتے ہی اہم لوگ اس سے ملنے آئے مگر وہ کسی سے بھی نہ ملا، کبھی اپنی ایڑیاں اٹھا کر در و دیوار پر لگے قد آدم آئینوں میں جھانکتا کہ واقعی میں اتنا معتبر ہوگیا ہوں؟ تھوڑی دیر بعد کھانا چنے جانے کی اطلاع دست بستہ پہنچائی گئی، ہم اس وقت آخری منزل کی چھت سے کراچی کا فضائی جائزہ لے رہے تھے، کھانے کی میز پر پچاس سے زیادہ ”ڈشیں“ سجی ہوئی تھیں اور کھانے والا میں اکیلا کیوں کہ میزبان کو شوگر کا عارضہ تھا، البتہ ”انسولین“ کا ٹیکہ لگوانے کے بعد میزبان نے چپل کباب کا ڈیڑھ دو انچ ٹکڑا کاٹ کر منہ میں رکھا، جو خاص طور پر صبح کی فلائٹ سے پشاور سے منگوایا گیا تھا، تمام امور سے عہدہ برائی کے بعد جب ہم ریٹائرنگ روم میں گئے کہ کچھ سستا لیا جائے اور ساتھ ساتھ قہوے کا دور بھی چلتا رہے گا تو میرا وہ میزبان جو صبح سے ہر لمحے میرے علم میں خوشگوار اضافے کئے جارہا تھا، جس کا سماجی قد مجھے اس کی ظاہری قد سے کئی گنا بڑا دکھائی دیا، جوسرتا، پا قناعت تھا، جس کا مسکراتا ہوا چہرہ اس کی فطری خوشی کا آئینہ دار لگا، جو مجھ بوریا نشین کے لئے اپنی راج دھانی موقوف کئے بیٹھا تھا، میری فکر اور تصور کی بلندی کو یہ کہہ کے زمین بوس کردیا کہ ”مرزا صاحب، میں اس علاقے کا سب سے غریب انسان ہوں۔“
میں جو اس وقت گرم گرم قہوے کا کپ منہ تک لے جاچکا تھا، گھبراہٹ میں قدرے بڑا گھونٹ بھر گیا اور پھر اسی عالم میں نگل بھی گیا، مگر تن بدن میں گرم قہوے نے اتنی سڑاند پیدا نہ کی تھی جس قدر میزبان کے اس جملے نے ہیجان بپا کردیا تھا کہ وہ اس علاقے کا غریب انسان ہے، بہرطور میں وضاحت چاہی تو میزبان نے کہا کہ اس کے پاس صرف سات ہزار ایکڑ زمین ہے، میں نے کہا ہمارے پاس اسلام آباد میں سات مرلے بھی ہوں تو ہم خود کو امیر ترین سمجھتے ہیں، وہ بولا کہ اس کے پڑوسی کے پاس سولہ ہزار ایکڑ زمین ہے، اس نے اپنے بنگلے کو بھی پڑوسی کے بنگلے سے چھوٹا کہا، اس نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکہ اور یورپ کی تجارتی منڈیوں تک سال میں چاول اور کپاس کے چھ سات ”شپ“ بھجواتا ہے اور اسے بحری جہاز کرائے پر لینے پڑتے ہیں جبکہ اس کے پڑوسی کے اپنے شپ ہیں، لیکن میرا وہ میزبان جب فوت ہوا تو واقعی وہ غریب انسان لگا اس کی قبر ہم غریبوں جیسی عام سی تھی، نہ سونے کا تابوت نہ چاندی کی پڑیاں، وہی لٹھے کا کفن ہمارے جیسا، وہ غریب جو تھا، جو زندگی میں سات ہزار ایکڑ کو بھی کم سمجھتا تھا مرنے کے بعد دو گز، میں سما گیا، مجھے اس وقت ممتاز روسی ادیب لیو ٹا لسٹائی کا شاہکار ادب پارہ ”دو گز زمین“ یاد آگیا۔
کراچی کا اصل مسئلہ دو گز زمین ہی ہے جس کے حصول کیلئے چند ”غریب لوگ سات ہزار سے سولہ ہزار ایکڑ کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ایسے میں حالات کا بے قابو ہوجانا فطری بات ہے، لیکن مجھے حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ، راجہ عباس جیسا چیف سیکریٹری، جس کی قناعت پسندی اور دیانت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، جو اولیاء اللہ سے عقیدت بھی رکھتا ہے اور صوفیائے کرام سے نیاز مندی بھی حاصل کرتا رہتا ہے جو اسلام آباد کے ایک روحانی آستانے پر دو تین بار مجھے بھی ساتھ لے گیا تھا اس کے ہوتے ہوئے کراچی میں صبر تحمل کی بجائے توسیع پسندی اور لینڈ مافیا کیوں پر، پرزے نکال رہا ہے!!
تازہ ترین