• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے بدھ کے روز کھلی عدالت میں جو اہم فیصلہ جاری کیا وہ حکومت، اداروں اور سیاسی جماعتوں کو کام اور طرز عمل سمیت کئی حوالوں سے ایسے رہنما اصول فراہم کرتا ہے جو ریاستی قوانین کا تقاضا، عام لوگوں کو بعض مشکلات سے بچانے کا ذریعہ اور جمہوری نظام و اقدار کا ناگزیر حصہ ہیں۔ اس باب میں قانون سازی سمیت ایسے اقدامات بروئے کار لانا ناگزیر ہوچکا ہے جن کا فیصلے میں واضح حکم دیا گیا ہے۔ 2017ء میں راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والی شاہراہ پر دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس کا فیصلہ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں قائم عدالت عظمیٰ کے دو رکنی بنچ نے 22؍نومبر کو فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد محفوظ کیا تھا۔ بنچ کے رکن جسٹس فائز عیسیٰ کے لکھے ہوئے 43صفحات پر مشتمل فیصلے کی نقول وفاقی و صوبائی حکومتوں، الیکشن کمیشن، قانون نافذ کرنے والے اور حساس اداروں کے سربراہوں سمیت متعدد اداروں میں کلیدی افسران کو بھیجنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے۔ عدالت عظمیٰ، دستور کی کسٹوڈین اور شارح کی حیثیت سے اس بات کی نشاندہی کرتی رہتی ہے کہ ریاستی قوانین حکومت اور اداروں سمیت سب پر لاگو ہوتے ہیں۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ قوانین کے اطلاق میں جہاں بھی کسی امتیاز کا شائبہ ہو وہاں انتقامی کارروائی، عدم مساوات اور دیگر عنوانات سے بے اطمینانی کی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے۔ مذکورہ فیصلے کا لب لباب بھی یہی اہم نکتہ ہے جبکہ اس میں قائد اعظم محمد علی جناح کے چند اقوال کے حوالے بھی شامل ہیں۔ فاضل عدالت نے قرار دیا ہے کہ منافرت کا فتویٰ دینے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائی ہونا چاہئے، مظاہروں سے نمٹنے کا اسٹینڈرڈ پلان وضع کیا جانا چاہئے، ہر شہری اور سیاسی جماعت کو پرامن اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اجتماع اور احتجاج کا حق حاصل ہے مگر اس حق کو دیگر شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت متاثر کرنے کا ذریعہ نہیں بننا چاہئے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو سزا دی جائے۔ فیصلے کے بموجب اگر کوئی سیاسی جماعت قانون کے مطابق کام نہیں کرتی تو الیکشن کمیشن کو اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ فیصلے کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنی فنڈنگ کے ذرائع کے حوالے سے حکومت کے سامنے جوابدہ ہے۔ عدالت عظمیٰ نے نشاندہی کی کہ ریاست پاکستان نے 12؍مئی 2007ء کو کراچی کی سڑکوں پر ہونے والے پرامن شہریوں کے قتل اور اقدام قتل کے واقعات پر اعلٰی عہدوں پر بیٹھے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہ کرکے بری مثال قائم کی جس سے دوسروں کو اپنے ایجنڈے کے لئے تشدد کا راستہ استعمال کرنے کا حوصلہ ملا۔ جیسا کہ مذکورہ فیصلے سے واضح ہے، قوانین کے موثر نفاذ میں ایک معاملے میں غفلت یا ناکامی سے دوسرے معاملات میں قوانین کو نظرانداز کرنے کے رجحان کو تقویت ملتی ہے جبکہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی صورت میں سامنے آنے والے نظائر کو نظرانداز کرنا بھی منفی اثرات کا موجب بن سکتا ہے اس لئے ان کی سختی سے پابندی ہونی چاہئے۔ مظاہرے اور احتجاج ہر جمہوری معاشرے کا خاصہ ہوتے ہیں مگر مہذب ملکوں میں تمام سرگرمیاں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جاری رہتی ہیں اور ان سے نہ املاک کو نقصان پہنچتا ہے نہ شہریوں کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جمہوریت کی روح یہ ہے کہ سیاسی اختلاف کا مقصد اپنی سوچ کے مطابق بہتر سمت اور طریق کار کی نشاندہی کرنا ہے، اپنی رائے مسلط کرنا نہیں۔ اسلئے ایک سوچ کا دوسرا پہلو، جسے اختلاف رائے کہا جاتا ہے، اس طرح سامنے آنا چاہئے کہ اس سے معاشرے کی ہم آہنگی پر ضرب نہ لگے۔ تاہم ایسی چیزوں کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے جن کی نگرانی بعض قوانین میں اداروں کے متعین کردار کے مطابق ضروری ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں جن امور پر پلاننگ واضح کرنے کی ضرورت اجاگر کی گئی ان پر قانون سازی سمیت تمام ضروری اقدامات کئے جانے چاہئیں۔

تازہ ترین