• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج نہ جانے کیوں چند ایک زندہ دل بزرگ یاد آئے جو بڑھاپے اور چھوٹی موٹی بیماریوں کے باوجود قہقہے لگاتے اور ہنستے مسکراتے قبروں میں لڑھک گئے۔ سوچتا ہوں کہ انسانی تعلقات میں ہر نقصان کے ساتھ کچھ فائدے بھی وابستہ ہوتے ہیں۔ میرے دوستوں کی اکثریت بقول شخصے میرے والد صاحب کی ہم عمر تھی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ بہت جلد تنہا ہو گیا لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ان سے نہ صرف بہت کچھ سیکھا بلکہ جب وہ یاد آتے ہیں تو میں تنہائی میں مسکرانے لگتا ہوں۔ سچی بات یہ ہے کہ مسکراہٹ زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ ہے۔ اسے صدقے کی حیثیت حاصل ہے، کسی کو مسکراہٹ دو تو اس کے دل کا گلاب کھل اٹھتا ہے اور چہرے پہ رونق آ جاتی ہے بشرطیکہ یہ کوئی ظالم حسینہ نہ ہو جہاں مسکراہٹ الٹی بھی پڑ سکتی ہے۔

پروفیسر مرزا منور گورنمنٹ کالج لاہور میں نہ صرف پڑھاتے تھے بلکہ کالج کے روح رواں تھے۔ میں بھی ایم اے کرنے کے فوراً بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا رہا تھا۔ ایک روز میں ان کی تلاش میں ان کے گھرماڈل ٹائون پہنچا، ان کے گھر کا پتہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اتنے میں ایک منحنی سے بزرگ نظر آئے۔ مجھے اتنا معلوم تھا کہ مرزا صاحب جناب حفیظ جالندھری کے کرایہ دار ہیں اور ان کی انیکسی میں رہتے ہیں، چنانچہ میں نے ان سے پوچھا کہ حفیظ جالندھری کا گھر کس طرف ہے۔ انہوں نے مجھے مسکرا کردیکھا اور کہا کس سے ملنا ہے۔ عرض کیا پروفیسر منور صاحب سے۔ انہوں نے راستہ بتادیا۔ پروفیسر صاحب سے چائے پی کر فارغ ہوا تو حفیظ صاحب سے ملنے کی خواہش کی۔ پروفیسر صاحب مجھے ان کے گھر لے گئے۔ گھنٹی بجائی تو وہی منحنی قسم کے بزرگ برآمد ہوئے جن سے پتہ پوچھا تھا۔ یہ میری حفیظ جالندھری سے پہلی ملاقات تھی جس نے ان گنت ملاقاتوں کی راہ ہموار کی۔ ایوب خان کا دور تھا اگرچہ اس کا تنزل شروع ہوچکا تھا۔ حفیظ صاحب وزارت اطلاعات کے ایک شعبے میں کنٹریکٹ پر ملازم تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک شام مَیں اور مرزا منور صاحب حفیظ صاحب کی دعوت پر ان کی سرکاری رہائش گاہ راولپنڈی پہنچے۔ رات کا کھانا کھا کر سڑک پر ٹہل رہے تھے لطیفے اور فقرے بازی ہورہی تھی۔ سڑک ویران تھی، دور صرف ایک پان سگریٹ کا کھوکھا آباد تھا۔ حفیظ صاحب نے کوئی ایسا لطیفہ سنایا کہ ہم ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے کھوکھے کے پاس پہنچ گئے۔ کھوکھے و الے نے حیرت سے دیکھا اور بولا ’’تھوڑی پینی سی نا‘‘ اس پر بےساختہ دوسرا قہقہہ پھوٹا اور مرزا صاحب نے کھوکھے والے سے کہا ’’یارا ساڈی تے خیر اے کم از کم ایہہ شاہنامہ اسلام دا ہی خیال کرلینا سی‘‘ یارو یہ عجیب لوگ تھے۔ آج کل ہر بوڑھا اپنی پیشانی پر یہ بورڈ سجائے پھرتا ہے کہ قہقہہ لگانا منع ہے لیکن یہ بزرگ سفید سروں اور سلوٹوں زدہ چہروں کے ساتھ بلا خوف و خطر قہقہے لگاتے اور مسکراہٹیں تقسیم کرتے تھے۔ ایک ٹھنڈے ٹھار دن حفیظ صاحب گورنمنٹ کالج میں مرزا منور کے کمرے میں آئے جو میرا اور مزرا صاحب کا مشترکہ کمرہ تھا۔ چہرے پر شرارت مسکرارہی تھی’’او مرزا ہتھ کڈ‘‘ مرزا صاحب نے ہاتھ بڑھادیا، حفیظ صاحب نے ہاتھ پہ ہاتھ مارا اور ہنس کر کہا آج میں نے اس صدی کا سب سے بڑا فلاسفر دریافت کرلیا ہے۔ میں گھر سے بس اسٹاپ کی طرف آ رہا تھا تو سڑک کے کنارے میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ایک نیم مجذوب کو دھوپ سینکتے دیکھا۔ میرے آگے کچھ بچے بستے اٹھائے اسکول جارہے تھے ایک بچے نے سڑک سے بجری اٹھا کر اسے ایک چھوٹا سا دانہ مارا۔ اس نے اوپر دیکھنا بھی گورانہ کیا۔ دوسرے نے بھی یہی حرکت کی تو ان نے اوپر دیکھ کر چہرہ نیچے کرلیا۔ تیسرے نے ذرا موٹا پتھر زور سے مارا تو اس کی آنکھوں سے شعلے لپکے۔ اس نے ہاتھ ہوا میں لہرا کر غصے سے کہا ’’اوئے تیری شادی کروا دیاں گا‘‘ اس پر کمرے میں ایک قہقہہ لگا ،میں نے جھجکتے ہوئے کہا آپ حضرات اتنا Discourage کرتے ہیں کہ مجھے شادی سے خوف آنے لگا ہے۔ حفیظ صاحب بولے :دیکھ صفدر میں دو شادیاں کر کے بھی ہنستا اور قہقہے لگتا ہوں، تم کیوں ڈرتے ہو۔ ویسے صرف شریف لوگ ہی بیویوں سے ڈرتے ہیں اور یہی شرافت کی نشانی ہے۔

میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے کالج سے چلا گیا۔ ایک مدت بعد لاہور پوسٹ ہوا تو ایک دن اچانک حفیظ صاحب بغل میں اپنا چمڑے کا بیگ اٹھائے تشریف لائے۔ وہ اس بیگ کو بیوی سے بھی زیادہ سنبھالتے تھے۔ بیٹھتے ہی فرمایا ’’صفدر ذرا یار میرے گھر فون کر کے آنٹی سے کہہ دو حفیظ صاحب میرے پاس پراپرٹی کے کچھ کاغذات لینے آئے ہیں‘‘ میں مسکرایا اور فون کردیا۔ ان کے چہرے پر اطمینان چھا گیا۔ دوپہر میرے ساتھ وہ میرے گھر آئے، کھانا کھایا، کھانے کے بعد انجیر کھانا ان کی عادت تھی۔ پچھلے پہر کچھ خریدنے بازار گئے۔ دکاندار سے ایک سیٹ کی قیمت پوچھی تو اس نے جواب دیا گاہک سے ہم اس کے تین سو لیتے ہیں لیکن حفیظ جالندھری سے اپنی قیمت ِخریدہی یعنی ڈھائی سو لیں گے۔ وہ زمانہ ٹی وی کا نہیں تھا، مجھے حیرت ہوئی کہ دکاندار نے کیسے پہچان لیا۔ پوچھنے پر بولا ’’میں ریڈیو پر حفیظ صاحب کو سنتا ہوں، آواز سے پہچان لیا‘‘ پھر ایک دن یہ سریلی مسکراتی آواز ہمیشہ کے لئے قبر میں سو گئی۔ ان کی خواہش تھی کہ انہیں علامہ اقبال کی مانند شاہی مسجد کے قریب دفنایا جائے، چنانچہ انہیں ماڈل ٹائون لاہور میں امانتاً دفن کیا گیا، میں پنجاب میں سیکرٹری اطلاعات و ثقافت و سیاحت تھا تو وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف سے حفیظ صاحب کی میت مینار پاکستان کے قرب میں منتقل کرنے کی اجازت لی۔ انتظامات کرنے میں وقت لگ گیا اور غلام حیدر وائیں صاحب وزیر اعلیٰ بن گئے۔ پھر ایک دن سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی میت اس پارک میں لائی گئی جہاں 23مارچ 1940کو قرار داد لاہور (پاکستان) منظور ہوئی تھی۔ ایک چھوٹے سے مقبرے کی قبر میں وائیں صاحب اور میں نے ترانہ پاکستان کے خالق حفیظ صاحب کے تابوت کو قبر میں اتارا۔

زمانہ بیت گیا لیکن آج بھی حفیظ صاحب کا مسکراتا چہرہ میری آنکھوں میں محفوظ ہے اور ان کے قہقہے میرے کانوں میں رس گھول رہے ہیں، یہی یادیں اب سرمایہ حیات لگتی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین