• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے معذور افراد کے لئے ملازمتوں کے مختص کوٹہ پر عملدرآمد کا ایکشن اور ٹائم فریم پلان طلب کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر متعلقہ وفاقی اور صوبائی سیکریٹریوں کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے معذور افراد کے حقوق سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اس حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ 1981ء میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے لئے ایک فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا تھا۔ 1998ء میں اسے دو فیصد اور پھر 2015ء میں مزید بڑھا کر تین فیصد پر لے جایا گیا، تاہم قانون پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے کی شکایات عام ہو گئیں۔ سپریم کورٹ انہی شکایات کے کیس کی سماعت کر رہی ہے۔ عالمی بینک اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کے دس فیصد افراد گونگے، بہرے، نابینا یا ذہنی و جسمانی طور پر معذور ہیں، اسلامی شعار اور عالمی قوانین کی روشنی میں معذور افراد ہر طرح سے معاشرے کا کارآمد حصہ ہیں اور ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری محض اہلِ خانہ ہی پر نہیں پورے معاشرے اور ریاستی مشینری پر عائد ہوتی ہے، تاہم ان کے حقوق کے لئے صرف قانون بنا دینا کافی نہیں ہے اس پر مکمل طور پر عمل درآمد کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے، جسے پورا کرنے کے لئے فاضل عدالت بجا طور پر ہر زوایے سے کیس کو دیکھ رہی ہے۔ اس ضمن میں سرکاری وکلا کا یہ موقف بھی سامنے آیا کہ معذور افراد کی بھرتیوں کا اشتہار اخبارات میں دیا گیا ہے اور بھرتیوں کے لئے کمیٹیاں بھی بنا دی گئی ہیں، تاہم معذور افراد کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومتیں بھرتیوں کا طریقہ کار آسان کے بجائے مشکل بنا رہی ہیں جس کی وجہ سے اس قانون سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ حکومت کو چاہئے کہ معذور افراد کی ملازمتوں میں بھرتیوں کا طریق کار آسان بنانے سمیت تمام ممکن سہولتیں مہیا کرے۔

تازہ ترین