• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”یکہ توت“ پشاور کا ایک قدیم محلہ ہے۔ یہاں کے مکانوں کی چھتوں اور لکڑی کے دروازوں پر نقاشی دیکھنے والے کو حیران کر دیتی ہے۔ بظاہر خستہ اور پرانے نظر آنے والے مکانوں کے اندر کا ماحول بہت نفیس عمدہ اور دیدہ زیب ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک قدیم مکان میں جسے حویلی کہنا زیادہ مناسب ہے ملک بھر سے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نمائندہ طلبہ جمع تھے۔ ان طلبا کا تعلق طلباء کی ملک گیر تنظیم انجم طلبہ اسلام سے تھا۔ اور یہ اپنے اپنے علاقوں اور اضلاع کی نمائندگی کر رہے تھے۔ یکہ توت پشاور کی اس حولی کی ایک روحانی حیثیت ہے۔ یہ خانقاہ قادریہ ہے۔ یہاں سید امیر علی شاہ گیلانی مرحوم رہا کرتے تھے اور لوگ دور دراز سے ان سے فیض حاصل کرنے آیا کرتے تھے۔ وہ انجمن طلبہ اسلام کی سرپرستی بھی فرمایا کرتے تھے۔ لہذا انجمن نے جسے طلبہ مخفف انداز میں اے ٹی آئی بھی کہتے تھے۔ یہاں اپنا اجتماع منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ۱۹۷۸ء انیس سو اٹھتر کی بات ہے۔ ضیاء الحق صاحب امیر المومنین بن کر ملک پر قابض ہو چکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو پس دیوار زنداں تھے۔ اور ملک بھر میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی۔ جس کی خلاف ورزی کوڑے اور قید سخت تھی۔ اس صورتحال میں سیاسی اجتماعات بھی غیر سیاسی انداز میں ہوتے تھے اور چار دیواری کے اندر ہوتے تھے۔ ایک شام ایک نوجوان ساتھی مجھے ڈھونڈتا ہوا آیا اور کہنے لگا حاجی حنیف طیب صاحب آپ کو یاد کر رہے ہیں وہ کہتے ہیں آپ ان کے کمرے میں آجائیں، آپ سے ایک مہمان کا تعارف کرانا ہے۔ وہاں پہنچا تو چند دوسرے احباب بھی موجود تھے ان میں ایک اجنبی شخصیت بھی موجود تھی۔ اٹھائیس انتیس سال کے اس نوجوان کا سراپا جو ابھی تک میرے ذہن میں تازہ ہے کچھ یوں ہے درمیانہ قد، دبلا پتلا جسم، نفیس پتلون اور شرٹ کے اوپر سویٹر پہنا ہوا تھا۔ خشخشی داڑھی، عینک کے پیچھے جھانکتی ہوئے متحرک آنکھیں، ذہانت کا پتہ دیتی تھیں۔ گفتگو میں روانی اور تسلسل اس نوجوان نے ایک لمحے کے لئے مجھے دیکھا۔ حاجی حنیف طیب نے میرا تعارف کرایا اور بتایا کہ آپ بھی قادری ہیں یہ بھی قادری ہیں۔ انہوں نے اس سال گریجویشن کی ہے اور ایم اے کا سوچ رہے ہیں۔ اور پھر اس اجنبی شخصیت کاتعارف کراتے ہوئے بتایا کہ یہ محمد طاہر القادری صاحب ہیں۔ جھنگ سے تعلق ہے، وہاں وکالت کرتے تھے پھر لیکچر دیتے اور اب پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں اسلامک لاء کے لیکچر دیتے ہیں۔ قادری صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ بجائے ایم اے کرنے کے مجھے ایل ایل بی کرنا چاہئے۔ کیونکہ اسمیں آگے بڑھنے اور زندگی کے مختلف میدانوں پر کام کرنے کے مواقع زیادہ ہیں۔ پھر اس کے بعد قادری صاحب نے اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر بتانا شروع کیا کہ کس طرح انہوں نے اسلامیات میں ایم اے کیا، گولڈ میڈل لیا اور پھر ایل ایل بی کیا۔ ان کی گفتگو بہت دوستانہ تھی اور پہلی ہی ملاقات میں اس جوان پروفیسر نے مجھ نوجوان کو اس بات پر قائل کر لیا کہ مجھے قانون کے شعبے میں داخلہ لینا چاہئے۔ اور واقعی چند مہینوں بعد میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں ایک طالب علم کے طور پر ان کے سامنے بیٹھا تھا اور قادری صاحب ہمیں اسلامی اصول قانون Islamic Jurisprudenceکے متعلق لیکچر دے رہے تھے۔ یوں تو لاء کالج میں کئی سیکشن تھے لیکن قادری صاحب صرف دو سیکشنوں ”اے“ اور ”بی“ سیکشن کو پڑھاتے تھے۔ یہ سیکشنز اعلی نمبروں سے امتیازی پوزیشن حاصل کرنے والے طلبا و طالبات کے لئے مخصوص تھے۔ قادری صاحب نہر کے اس طرف سٹاف ہاسٹل میں رہتے تھے۔ لاء کالج نہر کی دوسری طرف جامع مسجد کے قریب تھا۔ اکثر پروفیسر حضرات سٹاف ہاسٹل سے پیدل چل کر آتے تھے۔ پروفیسر قادری صاحب ہاسٹل سے خراماں خراماں چلتے ہوئے پہلے اپنے کمرے میں پہنچتے وہاں مطالعہ کرتے اور پھر وقت پر لیکچر دینے تشریف لاتے۔ ان کا عمدہ سوٹ ان کی نفیس نکٹائی اور شرٹ ان کے چمکدار بوٹ ان کے ذوق کا پتہ دیتے تھے۔ انہوں نے بڑے سلیقے سے سائیڈ پر مانگ نکالی ہوتی تھی اور ان کے ماتھے پر بار بار آنے والے بالوں کی لٹ کو وہ مخصوص انداس ہٹاتے رہتے اور ہمیں آسان اور دلنشیں انداز میں پڑھاتے بھی جاتے۔ ان کا پڑھانے کا ایک مخصوص انداز تھا۔ وہ اپنی پشت کو میز پر ٹکا دیتے اور پھر ایک مختصر گہری سوچ کے بعد اپنا لیکچر شروع کردیتے۔ وہ بہت کم کرسی پر بیٹھ کر گفتگو کرتے۔ میز کے سہارے کھڑے رہتے یا پھر چبوترے پر ٹہل ٹہل کر چلتے چلتے لیکچر دینا ان کا مخصوص سٹائل تھا۔ وہ پہلے اپنے لیکچر میں بیان ہونے والے تمام موضوعات کے عنوانات کو بیان کردیتے پھر ایک ایک کرکے تمام عنوانات پر سیر حاصل بحث کرتے۔ پنتالیس منٹ کا لیکچر یوں لگتا تھا کہ پندرہ منٹ پر مکمل ہو گیا ہے۔ اس لئے پرنسپل سردار محمد اقبال متوکل سے طلبہ نے گزارش کرکے قادری صاحب کے دو لیکچر اکٹھے رکھوائے تھے۔ پنتالیس منٹ بعد دس منٹ کی بریک ہوتی۔ ہم کالج کی کینٹین سے چائے وغیرہ پی کر تازہ دم ہو جاتے اور پھر قادری صاحب کا لیکچر شروع ہو جاتا۔ آہستہ آہستہ قادری صاحب کے لیکچر کی دھوم ایسے مچی کہ دوسرے سیکشن کے طلبہ نے درخواست دی کہ انہیں بھی قادری صاحب کے لیکچر سے استفادہ کا موقع دیا جائے لیکن ایسا ممکن نہ تھا اس کا حل طلبہ نے یوں نکالا کہ وہ اے اور جی سیکشنز کے طلباء کو ٹیپ ریکارڈر دیتے تھے تاکہ قادری صاحب کا لیکچر ریکارڈ کرکے انہیں دیا جائے۔ قادری صاحب نے اپنے طلباء سے برملا کہا ہوا تھا کہ اگر وہ ان کے لیکچرز کو توجہ اور یکسوئی سے سنیں گے تو انہیں اسلامی اصول قانون کے متعلق کوئی کتاب پڑھنے کی ضرورت نہیں رہیگی اور وہ اس مضمون میں پاس ہوجائیں گے اور ایسے ہی ہوا۔ قادری صاحب کی طلبہ میں غیر معمولی مقبولیت نے ان کے حاسد بھی پیدا کردیئے لیکن یہ تعداد میں کم تھے کیونکہ انہی دنوں قادری صاحب نے سٹاف یونین اور سینڈیکٹ کے الیکشن میں حصہ لیا اور واضح کامیابی حاصل کرکے یونیورسٹی میں شہرت کا زینہ جلدی طے کر لیا۔ ابھی منہاج القران کی عملی تشکیل کو دو تین سال باقی تھے کہ قادری صاحب نے درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا ہم نے انہیں اپنے ہاسٹل میں مدعو کیا جہاں طلباء سے انہوں نے قرآن حکیم کی تشریح اتنے عمدہ انداز میں بیان کی کہ طلباء کے اندر عشق رسول کی شمع تاباں اور فروزاں ہوگئی۔ اسلام کے نام پر کام کرنے والی ایک طلبہ تنظیم کے ایک جوشیلے نوجوان نے میرے کمرے میں آکر مجھے تنبیہ کی کہ میں آئندہ اس طرح کے اجتماعات سے باز آجاوٴں ورنہ میں اس کا خمیازہ بھگتنے کئے تیار ہو جاوٴں۔ یہ نوجوان یونیورسٹی میں طاقت ور قوت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے علاقے شجاع آباد سے تعلق رکھتا تھا اس نے مجھ سے نرمی اور ادب سے بات کی اور بتایا کہ وہ مجھے اس لئے عزت سے سمجھا رہا ہے کہ وہ میرے خاندان کے پس منظر سے آگاہ ہے۔ قدرت خدا کی دیکھئے کہ اس وقت اسلام کے نام پر لوگوں کو دھمکیاں دینے والی تنظیم سے تعلق رکھنے والا یہ شخص چوہدری پرویز الہی کی کابینہ میں پنجاب کا صوبائی وزیر بنا۔ گزشتہ مرتبہ پاکستان گیا تو اس شخص نے مجھ سے اپنے رویئے کی دبے لفظوں میں معافی مانگی۔ بہرحال قادری صاحب کے ہاسٹل کے اندر لیکچر تو ختم ہوگئے لیکن انہوں نے رحمانیہ مسجد شادمان کالونی میں درس قرآن دینا شروع کیا اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔ میں انگلستان میں آیا تو ایک سال بعد ”ورلڈ اسلامک مشن“ نے حجاز کانفرنس کا انعقاد کیا۔ قادری صاحب پہلی مرتبہ انگلستان اس کانفرنس کے حوالے سے آئے۔ مجھ سے ملے اور بہت محبت کا اظہار کیا۔ اس کے بعد میں بیلجیم چلا گیا تو وہاں بھی وہ تشریف لائے اور خطاب کیا۔ پاکستان میں ایک مرتبہ انہوں نے کمال محبت سے اپنے گھر میں دعوت دی اور پرتکلف چائے پلائی۔ ان کی گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھا تو آگے پیچھے گن مین بیٹھے تھے میں نے بے تکلفی اور اپنائیت سے کہا قادری صاحب جب آپ سائیکل چلا کر یونیورسٹی آیا کرتے تھے تو کتنا اچھا پر سکون زمانہ تھا اب آگے پیچھے ”گن مین“ ہیں آپ کو کیسا لگتا ہے؟ فرمانے لگے اب سیکورٹی کے لئے اس کی ضرورت ہے۔ محترم پروفیسر طاہر القادری صاحب اب ایک مرتبہ پھر پاکستان تشریف لے گئے ہیں ان کی سیکورٹی اور بھی بڑھا دی گئی ہے کیونکہ مختلف خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالی انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ (آمین)
تازہ ترین