• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہنے کو تو کہہ سکتا ہوں کہ میں زندگی کی 79بہاریں دیکھ کر 80ویں بہار کا بے تابی سے انتظار کررہا ہوں۔ لیکن میری کیفیت یہ ہے کہ میں اپنے ہی 79 برسوں کے ملبے تلے دبا ہوں۔ میرے دست و بازو۔ دل و دماغ مجھ سے بہت سے سوالات کررہے ہیں۔ ان سے بہتر کون مجھے سمجھ سکتا ہے۔ یہ میری جلوت خلوت کے عینی شاہد ہیں۔ میری سیاہیوں۔ خباثتوں۔ وحشتوں۔ بے اعتدالیوں۔ کمزوریوں۔ مصلحتوں کو ان سے زیادہ کون جانتا ہوگا۔میں دوسروں کے سامنے تو سر اٹھا کر کھڑا ہوتا ہوں۔ لیکن اپنے ماہ و سال کے مقابلے میں سر جھُکائے رہتا ہوں۔ یہ79سال۔ 948مہینے۔ 4108ہفتے۔ 28835دن۔692040گھنٹے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی گرانقدر عنایت نہیں تھے۔ کیا کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ بہت سے لوگ تو بہت جلدی چلے گئے۔ اس سے نصف عمر میں کارہائے نمایاں کرگئے۔ ایسی ایسی ایجادات کہ دنیا بھر میں زندگی آسان ہوگئی۔ انسان کو راحت ملی۔ ایسی ایسی دریافت کہ خلق خدا اپنے رب کی نعمتوں سے زیادہ فائدے اٹھانے لگی۔ کچھ اپنی مختصر سی عمر میں قوموں کو جگاکر چلے گئے۔

میرے 79سال مجھ سے پوچھتے ہیں۔ کہ تم کس بات پر فخر کرسکتے ہو۔ ہے کوئی ایسی نیکی تمہارے نامۂ اعمال میں۔ میرا قلم جواب تو دیتا ہے لیکن وہ خود بھی مطمئن نہیں ہے۔ وہ مجھے حکمرانوں کی خوشامدیں کرتے دیکھ چکا ہے۔ آمر و منتخب کی تفریق نہیں۔ حکمراں سول ہو یا فوجی۔ اپنی مدح بے جا سے بہت شاد ہوتا ہے۔

ان 79سال میں کتنی قومیں آزاد ہوئیں۔ افریقہ۔ ایشیا سے غیر ملکی استعمار کو فرار ہونے پر مجبور کیا گیا۔ پاکستان بھی اسی اثنا میں آزاد ہوا۔ لیکن یہ آزادی ہمیشہ موہوم رہی۔ ذہنی اوراقتصادی طور پر ہم غلام ہوتے گئے۔ ہم پر غلاموں کے غلام مسلط کردیے گئے۔

70کی دہائی مجھ سے پوچھ رہی ہے کہ بنگالی بھائی ہم سے الگ ہونے پر کیوں آمادہ ہوئے۔ یہ تسلّی اپنی جگہ کہ وہ ہم سے الگ ہوکر خوش ہیں۔ ہم سے زیادہ خوشحال ہیں۔ لیکن بھائیوں میں تلخیاں تو پڑ گئیں۔ محبت اور باہمی رضا مندی سے یہ علیحدگی ہوتی تو یہ خوشی دونوں طرف ہوتی۔70کے ماہ و سال ہی یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ اپنے ارد گرد دیکھو پاکستان کا سب سے بڑا شہر۔ سب سے بڑا تجارتی و صنعتی مرکز۔ یہاں کیا حال ہوا ہے۔ انسان کس بے چارگی میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے تمہیں لمبی عمر دی تو کسی مقصد کے لیے ہی دی ہوگی۔ کبھی تم نے اس مقصد کو جاننے کی کوشش کی۔ وہ جھنگ وہ شہر جہاں تم نے اپنا بچپن۔ لڑکپن۔ جوانی کی ابتدا گزاردی ۔ علم حاصل کیا۔ اس کے لیے تم نے کیا کیا۔ صرف اپنے روزگار۔ اپنی آسودہ حالی کی خاطر تم وہ گلیاں۔ چوبارے۔ پگڈنڈیاں چھوڑ آئے۔ تمہارا گھر۔ تمہارے خوابوں کا مرکز اکیلا ہے سنسان ہے۔ تمہارے عظیم والد۔ جنہوں نے تمہیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا۔ سامراج سے لڑنے کی تربیت دی۔ ان کی آخری آرام گاہ پھولوں کا انتظار کرتی رہتی ہے۔

یہی ماہ و سال مجھے یاد دلاتے ہیں۔ دائیں اور بائیں کے درمیان پیہم کشاکش کا۔ نظریاتی مباحثوں کی خونریز تصادم کی۔ سرد جنگ کی گرما گرمی کی۔ کمیونزم۔ کیا عروج تھا۔ کیا طنطنہ تھا۔ طبقاتی تضادات اب بھی وہی ہے۔ پسے ہوئے نادار طبقے گزشتہ صدیوں کی طرح اب بھی بمشکل زندگی گزارتے ہیں۔قدم قدم مشکلات۔ آزمائشیں۔

برطانیہ۔ جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اب اپنی حدود میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔ میری عمر کی دہائیاں مجھ سے جواب طلب کرتی ہیں کہ جنوبی ایشیا سے نفرتیں کیوں دور نہیں ہوسکیں۔ بھارت میں تعصبات پہلے سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں۔ سیکولر ازم کے سہانے خواب دکھاکر وہاں بد ترین ہندو شدت پسندی مسلط کی جارہی ہے۔ کشمیری آج بھی حق خود ارادیت سے محروم ہیں۔ کسی نسل کو انصاف ملا نہ چین سے جینے دیا گیا۔

اللہ کی بہت بڑی نعمت پاکستان سے تمہیں نوازا گیا۔مشرقی پاکستان تو ہم سے سنبھالا نہیں گیا کہ ایک ہزار میل دور تھا۔ درمیان میں انسانیت کا دشمن بھارت۔ لیکن یہ موجودہ پاکستان تو بہترین اقتصادی اکائی ہے۔ یہاں کیا نہیں ہے۔ قدرتی وسائل۔ سر سبز زمینیں۔ انسانی وسائل لیکن بد نیت۔ لالچی۔ خود غرض حکمرانوں نے اس بہترین معاشی جنّت کو دوزخ میں بدل دیا۔ یہ حکمران تم ہی منتخب کرتے تھے۔ تم ہی ان کا پرچار کرتے تھے۔

پاکستان میں موجود ہر علاقائی قومیت کا اپنا ایک پس منظر ہے۔ ان کی صدیوں سے۔ اپنی تہذیب ہے۔ اپنی ثقافت ۔ اپنا ادب۔ یہ 72سال صدیوں پر غالب تو نہیں ہوسکتے تھے۔ تم نے ان 72سال کو صدیوں سے لڑوانے کی کوششیں کیں۔ انتشار بڑھ گیا۔ محرومیاں شدت اختیار کرگئیں۔ یہاں تحریک پاکستان اس طرح نہیں چلی تھی۔ جیسے ان علاقوں میں جنہیں پاکستان میں شامل نہیں ہونا تھا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ہم یہاں صدیوں سے رہتے لوگوں سے روشنی حاصل کرتے۔ ان سے کچھ سیکھتے۔ ہم خوش تھے کہ ان علاقوں کے جاگیردار۔ سردار ہمارے ساتھ ہیں تو یہ ساری مخلوق ہمارے ساتھ ہے۔ انہیں زندگی کی آسانیاں دینے کی ضرورت ہے۔ نہ اچھے راستوں کی نہ ان کے نوجوانوں کی مرضی جاننا ضروری ہے۔ نہ ان کے خواب پوچھنا۔

میرے ماہ و سال میرے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔یہ میرے دشمن نہیں ہیں۔ یہ میرا ضمیر ہے۔میرا احتسابی ادارہ ہیں۔یہ ہر لمحہ میرا جائزہ لیتے رہے ہیں۔میری درجہ بندی کرتے رہے ہیں۔ یہ میرے ممتحن ہیں۔ یہ بار بار مجھے چیلنج دے کر حالات سے پنجہ آزما ہونے کا حوصلہ بیدار کرتے ہیں۔

یہ مجھ سے کہتے ہیں کہ جب پوری دُنیا میں گھوم کر آتے ہو۔ وہاں زندگی کی آسانیاں دیکھتے ہو۔ بچوں کی پرورش کتنی احتیاط اور خیال داری سے ہوتی ہے۔ نوجوانوں کے لیے کتنی تجربہ گاہیں قائم ہیں۔ بزرگوں کے لیے کتنی محفوظ زندگی ہے۔ واپس اپنے وطن آکر ان سہولتوں کی فراہمی کے لیے کوشش کیوں نہیں کرتے ہو۔

میں اسّی کی دہائی میں داخل ہوگیا ہوں۔ لیکن مجھ میں حالات سے لڑنے کا جذبہ جوان ہے۔میں اب بھی حرف کی حرمت کا شیدائی ہوں۔ میں اب بھی عملی کوششوں میں مصروف ہوں کہ بلوچستان۔ سندھ ۔ کے پی۔ پنجاب۔ فاٹا۔ آزاد کشمیر۔ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکیں۔ وہ ایک دوسرے کی زبان سیکھیں۔ ایک دوسرے کا درد جانیں۔ یہ سب بہت محنت کرنے والے ہیں۔ یہی باہر جاتے ہیں تو قوموں کی وقعت۔ طاقت میں اضافہ کردیتے ہیں۔ انہیں یہاں بھی ویسا مساوی میرٹ پر مبنی ماحول دے دیں۔ یہاں بھی صحرائوں کو گل و گلزار کردیں گے۔

تحریک پاکستان پھر سے چلانے کی ضرورت ہے۔ پہلے ہم نے جغرافیائی حیثیت حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دیں۔ جغرافیائی مقام مل گیا۔ صدیوں پر محیط تاریخ پہلے سے موجود تھی۔ مستقبل ہمیں بنانا تھا۔ مستقبل کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیتے تو وہ ہماری مرضی سے بنتا۔ یہ باگ ڈور ہم نے انہی لوگوں کو دئیے رکھی جو ہر فاتح کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ اس لیے وقت ہمارے ہاتھوں سے نکلتا رہا۔

میں اپنے 79سال کی موجودگی میں آنے والے برسوں سے عہد کررہا ہوں کہ میں کوتاہیوں کا کفارہ ادا کروں گا۔ اپنے لوگوں کے حقوق کے لیے لڑوں گا۔ ان کی زندگی میں وہ آسانیاں لانے کی جدو جہد کروں گا۔ جو دُنیا میں آگے بڑھتی قوموں کو میسر ہیں۔

تازہ ترین