• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیا سال اپنی ذات اور اپنے زمانے کے دکھوں اور راحتوں کا حساب کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ گزرتے ہوئے وقت کے بارے میں فلسفی اور شاعر جو کچھ بھی کہتے رہے ہیں اس سے قطع نظر، جب صبح سے شام ہوتی ہے تو زندگی کے تمام ہونے کا تصور بھی گھڑی کی ٹک ٹک اور دل کی دھڑکن کے ساتھ ساتھ جاگتا رہتا ہے۔ وقت کی ناقابل فہم سرگوشی کو ہم سب اپنے اپنے تجربے اور مزاج اور مجبوری کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اجتماعی شعور اور احساس کی بات کریں تو ہمارے پیارے پاکستان کے لئے نئے سال کا پیغام کیا ہے؟ یہ گزرتا وقت پاکستان سے کیا کہہ رہا ہے؟
ایک آواز کہیں دور سے آرہی ہے اور شاید کہہ رہی ہے کہ اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی۔ کچھ دوسری آوازیں بھی جیسے دائروں میں رقصاں ہیں۔ ایک اور آواز بھی ہے جو دل کو دہلا رہی ہے۔ یہ ایک کورس ہے جس میں گولیوں کی تڑ تڑ بھی ہے۔ بموں کے دھماکے بھی ہیں اور خلق خدا کی چیخوں اور آہوں کا شور بھی۔ سوال یہ ہے کہ ان آوازوں کو کون سن رہا ہے۔ پتہ نہیں یہ آوازیں ان دیواروں کو بھی پھلانگ سکتی ہیں یا نہیں کہ جن کے حصار میں ہمارے حکمراں شاید خود کو وقت کی دسترس سے بھی محفوظ سمجھتے ہیں۔
اب یہ دیکھئے کہ 2012 نے جاتے جاتے ہم سے کیا کہا ہے۔ یا ہمیں کیا دیا ہے۔ میں صرف آخری تین دنوں کی دو خبروں کا ذکر کروں گا۔ پہلی خبر جس کی تفصیل اتوار 30/ دسمبر کے اخباروں میں شائع ہوئی، یہ ہے کہ خاصہ دار فورس کے 22/ مغوی اہلکاروں میں سے 21/ کو قتل کر دیا گیا۔ جس اہلکار کے بارے میں بتایا گیا کہ معجزانہ طور پر بچ گیا تو اس کا بھی اسپتال میں انتقال ہو گیا۔ ان اہلکاروں کو پشاور کے قریب حسن خیل کی چوکیوں سے اغوا کیا گیا تھا۔ اس کارروائی کی ذمے داری تحریک طالبان، پاکستان نے قبول کی۔ خبروں کے مطابق اسی بہیمانہ قتل کی وڈیو بھی جاری کی گئی۔ اور جس دوسری خبر کا حوالہ دینا ہے وہ سال کے الوداعی دن یعنی 31/دسمبر کے اخباروں کی سرخیاں بنی۔ ہمارے اپنے ”جنگ“ کی شہ سرخی تھی ”مستونگ میں زائرین کی 3/ بسوں پر ریموٹ کنٹرول بم حملہ، 19/ زائرین جاں بحق، 25/زخمی“ اب کہنے کی بات یہ ہے کہ دونوں خبریں اس سے پہلے کی خبروں کا تسلسل ہیں۔ یہی کچھ یا اس سے بھی زیادہ خوفناک سانحے ہم پر گزر چکے ہیں۔ گزرے سال کے آخری دنوں میں نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما بشیر بلور کا ایک خود کش دھماکے میں قتل اپنی جگہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ وہ طالبان کے خلاف اپنی جماعت کے موقف کی نمائندگی جرأت اور بہادری سے کرتے تھے۔ صرف وہ ایک واقعہ ہی فوری اور فیصلہ کن رد عمل کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایک جہادی انداز فکر ہے جس نے ہمارے پورے ملک کو یرغمال بنا لیا ہے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟ روایت ہے کہ نئے سال کی آمد پر نئے عہد و پیماں کئے جاتے ہیں پاکستان کے لئے اور اجتماعی معنوں میں ہمارے معاشرے کے لئے بھی یہ لازم ہے کہ وہ گزرتے ہوئے وقت کی نزاکت کو محسوس کرے اور آنے والے سال کو گزرے ہوئے سال سے بہتر بنانے کی ہوش مندانہ کوشش کرے۔
تو گویا سوال یہ ہے کہ کیا آنے والا سال گزرے ہوئے سال سے اچھا ہو گا۔ کسی برہمن نے کچھ بھی کہا ہو، آثار اچھے نہیں ہیں۔ کم از کم سیاسی ہلچل کا بگل تو بج رہا ہے۔ 2013 انتخابات کا سال تو ہے ہی، انقلابات کے بیج بونے کی کوشش بھی کی جارہی ہے ۔ کوئی نظام کو، کوئی ملک کو بچانے کی بات کر رہا ہے۔ سال کے آخری دنوں میں ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک حیران کردینے والے اجتماع میں ایک دھماکہ کردیا۔ انہوں نے ایسی انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کر دیا جو حکمرانوں کے لئے ناقابل قبول ہیں اور اب 14/ جنوری کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔ ایم کیو ایم نے اس لانگ مارچ میں شرکت کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس طرح دما دم مست قلندر کا اسٹیج سجنے جا رہا ہے۔ دما دم مست قلندر کا نعرہ دراصل پاکستان پیپلز پارٹی کا ہے۔ سال کا آخری ہفتہ پیپلز پارٹی کے لئے بھی ایک خاص اہمیت کا حامل رہا۔ 27/ دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کی برسی کے موقع پر، بلاول بھٹو زرداری کی یوں کہیئے کہ تاج پوشی کی گئی۔
24/ سالہ بلاول نے پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے سیاسی کردار کا آغاز کیا۔ ایک ایسی تقریر کی جس میں پارٹی کے مزاج اور لہجے کی اچھی عکاسی تھی۔ گویا ایک نیا محاذ کھل گیا ہے اور مبصر اس انتظار میں ہیں کہ دیکھیں، یہ نوجوان قیادت پاکستان کی سیاست کی سب سے اہم اور سیماب صفت جماعت کو نئے سال کا کیا تحفہ دے گی۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں زیادہ کچھ کہنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اپنے ایک انگریزی کالج میں، میں نے یہ کہا تھا کہ پاکستانی سیاست کے خاکستری لبادے میں، پیپلز پارٹی سرخ ریشم کی ڈوری کی طرح نمایاں ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام میں جو لگن پیدا کی اور محروم طبقے کے دلوں میں خواہشات کا جو الاؤ روشن کیا، اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ مشکل یہ ہوئی کہ بات وہاں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ بے نظیر بھٹو، اپنے والد کی سیاست کی جائز وارث تسلیم کی گئیں۔ بحران زدہ معاشروں میں کرشماتی قیادت کی بھوک سمجھ میں آتی ہے اور یہ قیادت خاندان میں منتقل بھی ہو جاتی ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری کا معاملہ ذرا مختلف پیچیدہ ہے۔ یوں بھی آصف زرداری نے پیپلزپارٹی کا حلیہ کسی حد تک تبدیل کردیا ہے لیکن کانٹے کی بات یہ ہے کہ کرشماتی لیڈر اپنی جماعت میں حرف آخر ہوتا ہے وہ اپنے فیصلے خود کرتا ہے اور کوئی اس کے فیصلے کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ بلاول اپنے والد کے سائے میں کھڑے ہیں اور یہی کیفیت پیپلزپارٹی کی بھی ہے۔
جس منظر اور پس منظر کی میں بات کر رہا ہوں وہ کسی کے بھی ہوش اڑا دینے کے لئے کافی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم کسی کھائی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور جیسے خواب میں اکثر ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے اعضاء پر قابو نہیں ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ راستہ تباہی کی طرف جاتا ہے اور پھر بھی ہم میں رک جانے یا راستہ بدلنے کی جیسے سکت ہی نہیں ہے۔ اپنے ایک حالیہ کالم میں، میں نے کہاکہ تھا کہ ہمارے حکمراں ایک دوراہے پر رکے ہوئے ہیں اور فیصلہ کرنے میں دیر لگا رہے ہیں۔ اب میں کہوں گا کہ معاشرہ کی، سول سوسائٹی کی، سیاسی جماعتوں کی کیفیت بھی یہی ہے۔ معاشرے کسی بڑے واقعہ کی چوٹ کھا کرکیسے کھڑے ہو جاتے ہیں اس کی ایک مثال اپنے پڑوسی ملک میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ چند روز پہلے، دہلی میں ایک چلتی ہوئی بس میں ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور پھر اسے زخمی کر کے سڑک پر پھینک دیا گیا۔ اس کی حالت اتنی نازک تھی کہ علاج کے لئے اسے سنگاپور منتقل کیا گیا جہاں اس کی موت واقع ہوگئی۔
اگر آپ اخبار پڑھتے ہیں یا انٹرنیٹ سے آپ کا واسطہ ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس جرم کا ردعمل کیا ہوا۔ کیسے سوال اٹھے اور کیسے مظاہرے ہوئے۔ ملک کی قیادت نے اس میں کیا رول ادا کیا۔ دہلی میں ”ریپ“ کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ البتہ اس واقعے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ فلمی اداکار شاہ رخ نے یہ تک کہہ دیا کہ مجھے اپنے مرد ہونے پر شرم آتی ہے۔ ہمارے یہاں کاروکاری جیسے واقعات آئے دن ہوتے ہیں۔ معاشرے میں خواتین کی جو حیثیت ہے وہ بظاہر بھارت سے بھی زیادہ تشویشناک ہے لیکن ہمیں تو ملالہ یوسف زئی پر ہونے والے حملے نے بھی جگایا نہیں جبکہ وہ بچیوں کی تعلیم کے حق کا معاملہ تھا۔ یہ ہمیں کیا ہو گیا!
تازہ ترین