• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو بسا اوقات مایوسی کا شکار ہونا پڑتا ہے ۔ یہاں نت نئے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ، جن سے ہماری قومی زندگی کے تاریک پہلو اجاگر ہوتے ہیں ۔ ملک اور قوم کی قسمت کے فیصلے ان فورمز میں نہیں ہوتے ، جہاں ہونے چاہئیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنے ایسے ایجنڈے بنا لئے ہیں ، جو سیاسی جماعتوںکے نہیں ہونے چاہئیں ۔ جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتیں کہتی ہیںکہ احتساب نہیں ہونا چاہئے ۔ وہ کرپشن کو روکنے کے لئے تیار نہیں ہیں بلکہ وہ سب ملکر کرپشن میں شامل ہیں ایک دوسرے کو بڑھاوا دیتی ہیں اور ایک دوسرے کا تحفظ کرتی ہیں حالانکہ احتساب کے بغیر جمہوریت نہیں ہوتی ہے ۔ سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا نہیں کر ر ہیں ۔ اس خلاء کو انتہا پسند قوتیں پر کر رہی ہیں ۔ کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ بہتری کے امکانات ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔ ان حالات میں جب یہ خبریں آتی ہیں کہ ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام ملا ہے اور شرمین عبید چنائے کو ان کی دستاویزی فلم پر ’’ آسکرز ایوارڈ ‘‘ ملا ہے تو اچانک یہ ادراک ہوتا ہے کہ آج کے پاکستان کا ایک روشن پہلو بھی ہے ۔ وہ روشن پہلو یہ ہے کہ ہماری خواتین ، ہماری مائیں ، بہنیں اور بیٹیاں پاکستان کو ایک بہتر سماج بنانے کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں ۔ بعض حلقوں کا خیال یہ ہے کہ مغرب ایک خاص ایجنڈے کے تحت ملالہ یوسف زئی اور شرمین عبید چنائے کو زیادہ اہمیت دے رہا ہے تاکہ اہل مغرب کو یہ بتایا جا سکے کہ پاکستانی سماج کس قدر رجعتی اور فرسودہ ہے ، جہاں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور جہاں غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کر دیا جاتا ہے اور اسے کوئی جرم بھی تصور نہیں کیا جاتا ۔ مذکورہ حلقوں کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ ملالہ یوسف زئی نے جب ایک سخت گیر قبائلی معاشرے میں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کی جدوجہد شروع کی تھی تو انہیں یہ علم بھی نہیں ہو گا کہ دہشت گرد ان پر حملہ کریں گے اور ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ دنیا میں انہیں اتنی زیادہ اہمیت دی جائے گی ۔ ملالہ یوسف زئی کے علاوہ ہماری بے شمار بہنیں اور بیٹیاں کسی صلے یا ایوارڈ کی تمنا کے بغیر یہ کام کر رہی ہیں ۔ تھر کے علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کام کرنے والی ایک اور عظیم بیٹی آسو بائی کولہی کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ اسی طرح غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بھی شرمین کے علاوہ بہت ساری خواتین کام کر رہی ہیں ۔ اگر دنیا نے انہیں اعزازات سے نوازا ہے تو ہمیں ان کے عظیم کاموں کی اہمیت کو گھٹانے کی بجائے فخر کرنا چاہئے ۔ پاکستانی سماج میں خاموش انقلاب رونما ہو رہا ہے ۔ ہم نے اس خوش آئند بات کو شدت سے محسوس نہیں کیا ہے کہ ہماری بچیاں تعلیم کے ہر شعبے میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں ۔ کسی بھی سطح کے امتحانات ہوں ، زیادہ تر پوزیشنیں ہماری بچیوں کے حصے میں آتی ہیں ۔ میڈیکل ، انجینئرنگ ، بزنس ، کامرس ، سائنس غرض ہر شعبے میں ہماری بچیوں کو لڑکوں پر سبقت حاصل ہوتی ہے ۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ پروفیشنل اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر لڑکیاں ہی آگے ہوتی ہیں ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر اوپن میرٹ کا یہ سلسلہ جاری رہا تو کچھ عرصے کے بعد مرد ڈاکٹرز نہیں ملیں گے ۔ اس وقت بھی سرکاری میڈیکل کالجوں اور یونیوستیوں میں میرٹ پر ہونے والے داخلوں میں سب سے زیادہ نشستیں لڑکیاں ہی لے جاتی ہیں ۔ اس لئے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے 50 ، 50 فیصد نشستیں مختص کر دی جائیں۔
ہماری خواتین اور ہماری بچیاں پاکستان کا روشن مستقبل ہیں ۔ وہ لبرل پاکستان کی ضمانت ہیں ۔ کوئی بھی قوم اور کوئی بھی ملک نصف سے زیادہ آبادی کو ترقی کی دوڑ میں شامل نہ کرکے یا گھر بٹھا کر ترقی نہیں کر سکتے ۔ دنیا میں ان قوموں نے ترقی کی ہے ، جہاں خواتین اور مردوں کو یکساں مواقع میسر کئے گئے ہیں اور جہاں صنفی امتیاز ختم کیا گیا ہے ۔ پاکستانی سماج میں خواتین بے پناہ مسائل کا شکار رہی ہیں۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں بعض ایسے گھر ہیں جہاں عورتوں کو گھر میں رکھا جاتا ہے، وہ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود باہر نہیں نکل سکتیں، گاڑی نہیں چلا سکتیں، بچوں کو اسکول چھوڑنےاور سودا سلف کے لئے بازار نہیں جا سکتیں۔ ان سب حالات کے باوجود انہوں نے ہر شعبے میں اپنی صلاحیت کی بنیاد پر اپنے آپ کو منوایا ہے ۔ روشن پہلو یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں غیر شعوری طور پر خواتین کے مثبت کردار کو تسلیم کر لیا گیا ہے اور غیر محسوس طریقے سے خواتین کی جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو گئی ہے ۔ مسلم دنیا میں پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ یہاں محترمہ بے نظیر بھٹو پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں ۔ انہوں نے بڑی جرات مندی سے پاکستان کی آمرانہ اور عالمی سامراجی طاقتوں سے ٹکر لی اور اپنی جان قربان کر دی ۔ ان سے پہلے محترمہ فاطمہ جناح نے بھی ایک آمر کو للکارا اور جمہوری جدوجہد کی قیادت کی ۔ اس ملک میں ایک خاتون شمشاد اختر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کے عہدے پر فائر رہیں ۔ ملیحہ لودھی کی سفارت کاری کی پوری دنیا معترف ہے ۔ ہماری ہی ایک بیٹی ارفع کریم کو دنیا کی سب سے کم عمر آئی ٹی ماہر تسلیم کیا گیا ۔ بل گیٹس نے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا ۔ ہماری بدقسمتی کہ زندگی نے ارفع کا ساتھ نہیں دیا اور وہ کم عمری میں ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔ ان کی بے وقت موت نے ساری دنیا کو غم زدہ کر دیا تھا ۔ اس ملک کی ایک بیٹی نمیرا سلیم نے خلاء میں سفر کیا ۔ اس ملک کی ایک اور بیٹی ثمینہ بیگ نے ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی سر کی ۔ اس ملک میں بیپسی سدھوا ، امرتا پریتم ، پروین شاکر ، فاطمہ ثریا بجیا ، کشور ناہید ، بانو قدسیہ ، فہمیدہ ریاض شائستہ سہروردی ، بشریٰ رحمن ، حاجرہ مسرور ، ادا جعفری ، زہرہ نگاہ ، زاہدہ حنااور شیما کرمانی جیسی باکمال خواتین بھی پیدا ہوئیں۔عاصمہ جہانگیر ، بلقیس ایدھی ،امینہ سید، شاہین عتیق الرحمن جیسی خواتین بھی اس ملک میں موجود ہیں ۔ غرض ہر شعبے میں بڑا نام کمانے والی قابل احترام خواتین کی ایک بہت طویل فہرست ہے اور یہی آج کے پاکستان کا روشن پہلو ہے ۔
جن رجعتی اقدار کو ہم نے اپنے آپ پر مسلط کر دیا تھا ، ان کا ہمارے مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اسلام میں خواتین کو جو حقوق دیئے گئے ہیں ، وہ دنیا کی جدید جمہوری ریاستوں میں بھی شاید خواتین کو حاصل نہیں ہیں ۔ حضرت خدیجہ ؓ ، حضرت فاطمۃ الزہرہؓ ، حضرت عائشہ صدیقہؓ ، حضرت زینب بنت علیؓ کا کردار ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔
اسلام میں ہی حضرت رابعہ بصریؒ تصوف کی اعلیٰ ترین منزل تک پہنچیں ۔ ہمارے برصغیر میں ایک خاتون رضیہ سلطانہ نے حکمرانی کی ۔ امید افزاامر یہ ہے کہ پاکستان کی خواتین نہ صرف ہر شعبے میں اپنی صلاحیت کی بنیاد پر آگے بڑھ رہی ہیں بلکہ نئے پاکستانی سماج کی تشکیل بھی کر رہی ہیں ۔ خواتین کی اکثریت لبرل قوتوں کی حامی ہے ۔ ان کے ووٹ نے کئی مرتبہ پاکستان میں رجعتی قوتوں کو مسلط ہونے سے روکا ۔ خواتین نے جمہوری جدوجہد میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ مختلف سماجی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرنے میں خواتین کے تخلیقی کاموں کے حیرت انگیز نتائج حاصل ہوئے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں خواتین کے حقوق کے لئے جو بل منظور کیا گیا ہے ، وہ خواتین کی جدوجہد کا نتیجہ ہے ۔ اس بل میں بہتری کی گنجائش موجود ہے لیکن یہ بل خواتین کے حقوق کے حصول میں ایک قدم آگے ہے ۔ اگرچہ پاکستان کے ظاہری حالات مایوسی کی طرف دھکیلتے ہیں مگر ہماری خواتین جس طرح ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو منوا رہی ہیں اور آگے بڑھ کر قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں ، اس سے مایوسی کا جواز ختم ہوجاتا ہے ۔ ملالہ جیسی بہادر لڑکی کا پاکستان اور شرمین جیسی باصلاحیت لڑکیوں کا پاکستان کبھی بھی ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہ سکتا۔ آج کی عورت نے اپنے آنچل کو ترقی کا پرچم بنا لیا ہے۔
تازہ ترین