• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

این آر او کا جو نام نہاد قانون جنرل مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں منصبِ صدارت پر مزید پانچ سال فائز رہنے کیلئے انہی سیاسی عناصر سے مفاہمت کی خاطر متعارف کرایا تھا، جن کے خلاف ان کی حکومت نے سنگین کرپشن کے الزام میں بڑے پیمانے پر مقدمات قائم کیے تھے، موجودہ دورِ حکومت میں ایک بار پھر اس کا بڑا غلغلہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور حکومت کی دیگر ذمہ دار شخصیات کی جانب سے مسلسل یہ کہا جاتا رہا ہے کہ اب کوئی این آر او نہیں ہوگا اور کرپشن میں ملوث کسی شخص سے کوئی مصالحت نہیں کی جائے گی، تاہم ایک روز قبل ایک حکومتی اجلاس میں میڈیا رپورٹوں کے مطابق وزیراعظم کی جانب اس وضاحت کے بعد کہ این آر او کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں اور مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی سے کوئی این آر او نہیں ہو رہا، عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ باب اب بند ہو گیا لہٰذا یہ بحث اب مزید جاری نہیں رہے گی لیکن گزشتہ روز بلوکی میں ’’پلانٹ فار پاکستان‘‘ مہم کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے ایک بار پھر اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ آج کل این آر او کی بڑی بازگشت ہے، این آر او یہ ہوتا ہے کہ آپ بڑے مجرموں کو معاف کر دیں، دو بار این آر او نے ملک کو تاریخی نقصان پہنچایا، آج ہمارے جو حالات ہیں، ملک جس قدر مقروض ہے، اس کی بڑی وجہ دو این آر او ہیں‘‘ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’’ ایک این آر او مشرف نے نواز شریف کو دیا، دوسری طرف 2ارب روپے زرداری کے سوئس کیس پر قوم کے خرچ ہوئے، لندن میں سرے محل کیس ہوا جو پاکستان حکومت جیت گئی، یہ پیسہ پاکستان کو ملنا تھا لیکن این آر او سائن ہوا اور وہ کیس بھی چھوڑ دیا گیا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 2008ء سے 2018ء تک ان این آر او والے دو رہنمائوں نے 5،5سال حکومت کی، پاکستان کا جو قرضہ 60سال میں یعنی 2008تک 6ہزار ارب تھا، ان کے دو این آر او کے بعد 30ہزار ارب ہو گیا کیونکہ کسی کو خوف نہیں تھا‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ لٹیروں کیلئے این آر او ملک سے غداری ہوگی، جنہوں نے ملک کا دیوالیہ نکالا انہیں نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ وزیراعظم کے خطاب کی مزید تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اس تازہ اظہارِ خیال کا اصل محرک قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کے منصب پر فائز ہو جانا ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’جمہوریت کی تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ جیل سے ایک آدمی اٹھ کر آئے اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بن جائے اور پھر وہی نیب کو طلب کرلے۔ کہیں بھی کسی جمہوریت میں کوئی یہ تصور نہیں کر سکتا، ہم نے اس پر بھی پارلیمنٹ چلانے کی کوشش کی لیکن جتنی کوشش کرنا تھی وہ کر لی، اب کسی قسم کی رعایت کسی کرپٹ آدمی کو نہیں دیں گے‘‘۔ اس بات سے کوئی محبِ وطن پاکستانی ہرگز اختلاف نہیں کر سکتا کہ قومی وسائل لوٹنے والوں کو کسی بھی صورت معاف نہیں کیا جانا چاہئے لیکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی پر وزیراعظم کا یہ موقف اس بنا پر وضاحت طلب ہے کہ میاں شہباز شریف کا اس منصب پر تقرر حکومت کی رضا مندی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اور اگر اب بات یہ ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ بننے کے بعد وہ قواعد و ضوابط کے منافی کوئی کام کر رہے ہیں تو اس کی روک تھام کا بندوبست بھی قانون ہی میں موجود ہے، جس کے ذریعے انہیں ایسے اقدامات سے روکا جا سکتا ہے۔ جہاں تک حزبِ اختلاف کی قیادت کا تعلق ہے تو اس کی جانب سے مسلسل کسی این آر او کی تردید کی جاتی رہی ہے۔ اس صورتِ حال نے پوری قوم کو ابہام کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں مستقبل کے حوالے سے بے یقینی اور بے اعتمادی کا ماحول پروان چڑھ رہا ہے۔ قومی معیشت سمیت ہر شعبۂ زندگی اس سے متاثر ہے۔ لہٰذا ابہام کی یہ کیفیت جلد از جلد ختم ہونا چاہئے۔ قوم کو بتایا جانا چاہئے کہ کون، کس سے اور کس طرح این آر او مانگ رہا ہے اور حکومت کے مسلسل انکار کے باوجود یہ باب بند کیوں نہیں ہو رہا تاکہ یہ معاملہ اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور کاروبارِ مملکت شفاف انداز میں چل سکے۔

تازہ ترین