• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی نہ صرف بنیادی انسانی ضروریات میں سب سے لازمی شے ہے بلکہ اس کے بغیر حیات کا تصور بھی ناممکن ہے۔ اگرچہ زمین کا قریباً 71فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے مگر اس میں سے صرف 2.5فیصد پانی ہی پینے کے قابل ہے۔ دنیا بھر میں کم و بیش 66کروڑ افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں جبکہ پانی کا بحران روز بروز سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2025ء تک دنیا کی 14فیصد آبادی کو پانی کے بحران کا سامنا ہوگا۔ پانی کے ممکنہ بحران سے نمٹنے کیلئے دنیا بھر میں جہاں ڈیمز اور آبی ذخائر تعمیر کرکے پانی کو محفوظ بنایا جا رہا ہے وہیں پر سمندری اور کھارے پانی کو صاف کرنے کے منصوبوں پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ عالمی یومِ آب2018 کے موقع پر اقوام متحدہ کا پانی کے حوالے سے رواں دہائی(2018-28)کو ’’انٹرنیشنل ڈکیڈ آف ایکشن‘‘ قرار دینا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا کہ جس میں سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے اقدامات کئے جائیںگے۔ ایسے میں گورنر سندھ عمران اسماعیل کا سی بی سی کے دفتر اور کیئر سینٹر کے دورہ کے موقع پر یہ بیان کہ حکومت کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن کے تعاون سے سمندری پانی قابلِ استعمال بنانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے، جو ڈیفنس اور کلفٹن کے رہائشیوں کی ضرورت پوری کر نے کیلئے کافی ہوگا، خوش آئند ہے۔ اس سے قبل صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے بھی یہ بتا چکے ہیں کہ کراچی میں پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے سندھ حکومت سمندر کے پانی کو پینے کے قابل بنانے کیلئے ڈی سیلینیشن پلانٹ لگانے کے منصوبے پر کام شروع کر چکی ہے۔ ابتداء میں اس سے 300ملین گیلن پانی روزانہ حاصل ہوگا جو بعد میں1200ملین گیلن روزانہ تک پہنچ جائے گا۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ، خلیجی ممالک سمیت ساحلی پٹی پر موجود کئی ریاستیں سمندری پانی کو قابلِ استعمال بنا کر اپنی ضروریات پوری کر رہی ہیں۔ ضروری ہے کہ ایسے ممالک کے تجربے سے سبق حاصل کرتے ہوئے سمندری اور کھارے پانی کو قابلِ استعمال بنانے کے منصوبوں پر بھرپور توجہ دی جائے تاکہ بقائے حیات کے ضامن پانی کو محفوظ بنایا جا سکے۔

تازہ ترین