• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیتھولک کلیسا کے سربراہ اور پاپائے روم پوپ فرانسس نے گزشتہ ہفتے 3تا 5فروری 2019ء متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا دورہ کیا۔ وہ کلیسا کے پہلے سربراہ ہیں جنہوں نے جزیرہ نما عرب کا دورہ کیا۔ سرزمین عرب پر ہی دین اسلام کا ظہور ہوا۔ اس دورے کی دعوت انہیں دبئی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید نے دی تھی۔ انہوں نے سرزمین عرب پر پہلی مرتبہ پاپائی اجتماع (PAPAL MASS) سے خطاب کیا، جس میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ مسیحی برادری کے افراد نے شرکت کی۔ یہ دورہ کئی حوالوں سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بین المذاہب یا بین العقائد مکالمے کیلئے اس دورے سے ایک ذکری تحریک کا آغاز ہو سکتا ہے، جو بنی نوع انسان کیلئے بہت ضروری ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ اس حوالے سے پہل دنیائے عرب سے ہوئی۔ شیخ محمد بن زید نے پوپ فرانسس کو عرب آنے کی دعوت دے کر غیر مسلم دنیا کو ایک ایسا پیغام دیا ہے، جس کا ابلاغ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا۔ شیخ محمد بن زید کا یہ اقدام انتہائی غیر معمولی اور جرأت مندانہ ہے۔ دوسری طرف پوپ فرانسس نے بھی سرزمین عرب کا دورہ کرکے غیر معمولی اور جرأت مندانہ اقدام کیا۔ اگرچہ دونوں طرف کے قدامت پرستوں اور انتہا پسندوں کی طرف سے تنقید ہو رہی ہے لیکن انسانی تاریخ طویل عرصے سے انسانیت کی بھلائی کیلئے کسی ایسے وقوعہ کی منتظر تھی۔

متحدہ عرب امارات نے 2019ء کو ’’برداشت اور رواداری‘‘ کا سال قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے پاپائے روم کو نہ صرف وہاں کے دورے کی دعوت دی گئی بلکہ بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے کانفرنس بھی منعقد کی گئی۔ اس دورے میں دبئی کے حکمراں نے پاپائے روم کو قطعۂ اراضی (پلاٹ) کا تحفہ دیا، جس پر گرجا گھر (چرچ) تعمیر ہو گا اور یہ سرزمین عرب پر تعمیر ہونے والا پہلا چرچ ہوگا۔ پوپ فرانسس نے شیخ محمد کو فریم کیا ہوا ایک یادگاری سکہ (MEDALLION) پیش کیا، جس میں سینٹ فرانسس اور مصر کے ملک کمال کے مابین ہونیوالی ملاقات کو دکھایا گیا ہے، جو 1219ء میں ہوئی تھی۔ اس دورے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ پوپ فرانسس اور جامعہ الازہر مصر کے مفتی اعظم شیخ احمد الطیب نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کے تحت ویٹی کن اور جامعہ الازہر مصر دونوں انتہا پسندی کے خلاف مشترکہ طور پر لڑیں گے۔ صلیبی جنگوں کے بعد مسلم اور عیسائی دنیا کے مابین جو فاصلے پیدا ہوئے تھے، وہ کسی نے کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ عیسائی دنیا میں نشاۃ ثانیہ یا رینے سان (RENAISSANCE) کا دور بھی آیا۔ یہ ازسر نو احیاء کا دور تھا، مغرب اس دور میں قدامت پرستی اور تنگ نظری کے عذاب سے نکالا اور اس دور کے مغربی مفکرین نے روشن خیالی اور انقلابات کیلئے زمین ہموار کی لیکن اس دور میں بھی یہ کوشش نہیں ہوئی۔ اگرچہ مسلم دنیا نے بھی بڑے مفکرین کو جنم دیا، جنہوں نے تاریخ کی وسیع تر تناظر میں تعبیر کی اور ان کے لوگوں پر گہرے اثرات بھی تھے، مگر وہ بھی اس طرح کی کوئی کوشش نہ کر سکے۔ جو کچھ دبئی میں ہوا، اس پر عہدِ نو کے مفکرین حیرت سے غور و فکر میں مصروف ہیں۔

کچھ حلقوں کا خیال یہ ہے کہ پوپ فرانسس کسی حد تک مختلف نظریات کے حامل ہیں، جو قبل ازیں کسی پاپائے روم کے نہیں تھے۔ اگرچہ انہوں نے کلیسا کے روایتی نظریات سے کوئی بڑا اختلاف نہیں کیا ہے لیکن وہ طبقاتی، نسلی، گروہی اور قومیتی استحصال کی ہر صورت کے مخالف ہیں اور غریبوں اور مظلوموں کے حق میں کھل کر بولتے ہیں۔ وہ بین المذاہب ہم آہنگی کے بھی سب سے بڑے مبلغ ہیں۔ اس لئے ان پر کچھ قدامت پرست حلقوں کی جانب سے تنقید کی جاتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے دورے سے واپسی کے بعد دورانِ پرواز ہی انہوں نے صحافیوں کے کئی اہم سوالوں کے جوابات دیئے۔ جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ ان پر مسلمانوں کی طرف جھکائو کا الزام عائد کیا جاتا ہے تو انہوں نے مسکراہٹ کے ساتھ یہ جواب دیا کہ ’’الزام لگانے والے مجھے صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ سب کا آلہ کار قرار دیتے ہیں‘‘۔

امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب صلیبی جنگوں کے حوالے سے بیان دیا تھا تو مجھے یاد ہے کہ پوپ فرانسس نے ٹرمپ کے بارے میں یہ تاریخی ریمارکس دیئے تھے کہ ’’وہ دیواریں تعمیر کرتے ہیں، پل تعمیر نہیں کرتے‘‘۔ پوپ فرانسس کی شخصیت اور فکر کو کچھ حلقے اس اہم اقدام کا سبب قرار دیتے ہیں، جس کے تحت انہوں نے سرزمین عرب کا دورہ کیا۔ دوسری طرف شیخ محمد کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ وہ غیر روایتی سوچ کے حامل ہیں اور جدید دنیا کے بارے میں ان کا اپنا وژن ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کو بھی ایسی غیر روایتی سوچ کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ولی عہد کی فکر کو بھی اس واقعہ کا سبب قرار دیا جاتا ہے، جو 3تا 5فروری دبئی میں رونما ہوا۔ اس طرح اس تاریخی وقوعہ کو عرب دنیا کے حکمرانوں خصوصاً محمد بن زید اور محمد بن سلمان اور پوپ فرانسس کی غیر روایتی سوچ کا نتیجہ تصور کیا جا رہا ہے۔ ان حلقوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ بین المذاہب مکالمہ کسی بین الاقوامی تحریک کا نتیجہ نہیں ہے اور اسے بعد میں جاری رکھنا بھی آسان نہیں ہوگا لیکن میں تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے پُرامید ہوں کہ یہ مکالمہ بعد میں بھی جاری رہے گا کیونکہ غیر روایتی طور پر اس کے محرک کلیسا اور بادشاہت ہیں۔ عصری تقاضوں اور حالات کا بھی کوئی نہ کوئی کردار ہے۔

تاریخ نے بین المذاہب یا بین العقائد جنگوں اور تصادم میں سب سے بڑی تباہیاں دیکھی ہیں۔ تباہی کا آخری عمل جاری و ساری ہے، جو امریکی پروفیسر سیموئل ہنٹنگٹن (HUNTINGTON) کے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ والے نظریہ کی بنیاد پر مغرب کی طرف سے یکطرفہ جنگ مسلط کرکے شروع کیا گیا۔ ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ والے نظریہ کی بنیاد یہ تھی کہ مسلم دنیا کا غیر مسلم دنیا خصوصاً مغربی اقوام کے ساتھ تصادم ناگزیر ہو گیا ہے لیکن اس مصنوعی تصادم کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم دنیا میں داخلی جنگ شروع ہو گئی۔ عرب دنیا کے ساتھ ساتھ افغانستان اور پاکستان اس داخلی جنگ کی آگ میں جھلس رہے ہیں۔ پوپ فرانسس نے متحدہ عرب امارات کے دورہ سے قبل اپنے بیان میں جنگِ یمن کی مذمت کی اور کہا کہ یہاں انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ وہاں بچے بھوک، پیاس اور بیماریوں سے مر رہے ہیں۔ ان بچوں اور ان کے والدین کی چیخیں آسمان چیر کر رب تعالیٰ تک پہنچ رہی ہیں۔ سرزمین عرب پر بھی آکر انہوں نے فریقین کو نہ صرف یمن میں فوری جنگ بندی کیلئے کہا بلکہ شام، عراق اور لیبیا میں بھی جنگیں ختم کرانے پر زور دیا۔

بین المذاہب جنگوں کی تباہ کاریوں سے ہمیں ضرور سبق سیکھنا چاہئے اور اب وقت کی ضرورت ہے کہ انسانیت کو بین المذاہب ہم آہنگی کے ذریعے امن کے راستے پر ڈالا جائے لیکن اس سے پہلے عالم اسلام کی داخلی جنگوں کی تباہ کاریوں کو بھی روکنا ہوگا، ورنہ بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ہم کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’’مفاہمت‘‘ میں اس بات پر زور دیا تھا کہ جب تک عالم اسلام کی داخلی جنگیں ختم نہیں ہوں گی۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمانوں کا خون بہانا بند نہیں کرے گا، تب تک ہم مغرب کیساتھ مفاہمت کی بات آگے نہیں بڑھا سکتے۔ ہم مسلمان تو دنیا کو سب سے پہلا تحریری دستور دینے والے ہیں، جو ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کی صورت میں سرورِ کائناتﷺ نے مرتب کیا تھا۔ اس دستور میں ہر رنگ، نسل، مسلک، مذہب اور قوم کے لوگوں کو ایک ریاست میں برابری کے حقوق فراہم کئے گئے تھے، جسے آج کئی بین الاقوامی چارٹرز کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ پوپ فرانسس کو سرزمین عرب پر بلانے والوں کا اقدام قابلِ تحسین ہے لیکن یمن، عراق، شام اور لیبیا کی جنگیں بھی ختم ہونی چاہئیں، جن کیلئے پوپ فرانسس نے کہا ہے۔ اس سے بڑھ کر ہمارے ہاں فرقہ ورانہ تصادم کے خاتمے کیلئے بھی کوششیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد ہم ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ والے نظریے کو غلط ثابت کر سکتے ہیں۔

تازہ ترین