• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں انسانی فطرت اور جانوروں کی نفسیات میں بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ انسانی ناموں اور نشانوں کے اثرات ان کی شخصیات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ آج آپ کو خون خوار جنگلی جانوروں ٹائیگر اور شیر کی نفسیات میں حیران کن مماثلت کی کہانی سناتا ہوں۔ اس کہانی کو پڑھنے سے پہلے پاکستانی سیاست کے ٹائیگر اور شیروں کی نسل کو ذہن نشین کر لیں اور اپنے ماضی، حال، مستقبل کا ایک زائچہ بنا لیں۔ آج پنڈی کا شیر ٹرین پر چڑھ کر دھاڑ رہا ہے اور ماضی کے شیر پیشیاں اور جیل بھگت رہے ہیں اور ورلڈ کپ کا ٹائیگر اپنی سلطنت پر راج کر رہا ہے۔ لگڑ بگڑ بھی میدان میں ہیں اور ہر کوئی جنگل کی بادشاہت میں اپنی طاقت کا دعویدار ہے۔ آئیے!اس پس منظر میں پاکستانی شیروں، ٹائیگر اور لگڑ بگڑوں کی کہانی پڑھتے ہیں۔

چونکہ شیر اور ٹائیگر خون خوار جنگلی جانور ہیں اور ان کا تعلق بلی کے خاندان سے ہے، اسی لئے شیر کو بلی کی خالہ کہا جاتا ہے۔ ماہرینِ جنگلی حیات کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ شیر اور ٹائیگر بڑے دلیر جنگلی جانور ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ٹائیگر دھاری دار جانور ہے اور شیر کے جسم پر ایسا کوئی نشان نہیں۔ جسمانی اور ذہنی طور پر ٹائیگر شیر سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے اور اسی حوالے سے ماہرین سائبیریا اور بنگالی ٹائیگرز کو افریقی شیروں سے زیادہ مضبوط تصور کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ٹائیگر کا دماغ شیر سے پچیس فیصد زیادہ تیز اور چالاک ہوتا ہے اور اس کی حملہ کرنے کی رفتار شیر سے زیادہ تیس سے چالیس میل فی گھنٹہ زیادہ ہوتی ہے۔ عمومی طور پر ٹائیگر اور شیر اکٹھے رہ سکتے ہیں مگر دونوں اکثر ایک ساتھ کھیلتے کھیلتے لڑ بھی پڑتے ہیں۔ ان کی لڑائی کا انجام ہمیشہ خون خوار اور خوف ناک ہوتا ہے۔ شیر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ گروہ یا خاندان کی شکل میں زندگی گزار سکتا ہے مگر ٹائیگر کا مزاج شیر سے ذرا مختلف ہے۔ یہ ٹائیگر پر منحصر ہے کہ وہ گروپ کی شکل میں رہنا چاہتا ہے یا اکیلا۔ ٹائیگر کی نفسیات میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ شیر سے زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود ہمیشہ اس سے خوفزدہ رہتا ہے مگر شیر کو یہ خوف نہیں کہ وہ جنگ جیت پائے گا یا نہیں، ہمیشہ جنگ لڑنے کو تیار رہتا ہے۔ شیر کی نفسیات میں سماجی رویہ زیادہ محسوس کیا گیا ہے۔ شیر زیادہ تر گروہی شکار کرتا ہے اور اس شکار میں زیادہ تر خاندان کے قریبی شیر شامل ہوتے ہیں۔ اگرچہ شیر شکار خود کرتا ہے مگر اپنے شکار کا پچاس فیصد گوشت کھا کر زندگی گزارتا ہے۔ شیر کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ وہ شکار کرکے ایک طرف ہٹ جاتا ہے اور مادہ و اپنے بچوں کو شکار کھانے کا پہلے موقع دیتا ہے مگر کئی شیر ایسے بھی ہیں جو پہلے اپنا پیٹ بھرتے ہیں پھر دوسروں کو کھانے کا موقع دیتے ہیں۔ شیر سکون یا خوشی ظاہر کرنے کیلئے آنکھیں بند کر لیتا ہے اور اپنی پیدائش کے ایک ہفتے تک اندھا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیر کی جسمانی ساخت اس طرح سے بنائی ہے کہ اس کے لعاب میں جراثیم کش مادہ ہوتا ہے اسی لئے وہ زخمی ہونے کے بعد اپنے زخم چاٹتا رہتا ہے۔ شیر عام حالات میں انسانوں پر حملہ آور نہیں ہوتا، دن بھر سویا رہتا ہے، رات کے کسی پہر جاگتا اور دھندلکے میں شکار کرتا ہے۔ شیر کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ چوبیس گھنٹوں میں تقریباً بیس گھنٹے غیر فعال رہتا ہے اور عمومی طور پر چار گھنٹے متحرک۔ اس کی فعالیت شام کے بعد جوبن پر ہوتی ہے۔ شیر اور لگڑ بگڑ ایک ہی قسم کا شکار کرتے ہیں۔ اٹھاون فیصد شکار کے دوران شیر اور لگڑبگڑ کا آمنا سامنا ہو ہی جاتا ہے، شیر لگڑ بگڑ کو اس وقت تک ہی برداشت کرتا ہے جب تک وہ اسے جانی نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔ کہاوتوں میں جنگل کا بادشاہ ہمیشہ شیر کہلایا مگر حقیقت میں جنگل کا بادشاہ کون؟ یہ ہم بتائے دیتے ہیں۔ٹائیگر کے بارے میں ماہرینِ جنگلی حیات کی تحقیق کہتی ہے کہ وہ اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کی خاطر ہمیشہ انسانی آبادیوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ٹائیگر بظاہر اپنی اس فطرت کو چھپا کر رکھتا ہے کہ اسے انسانی گوشت پسند نہیں مگر وہ آدم خور جانور ہے۔ جنگل کی بادشاہی کے تنازع کو اگر ہم تحقیق کے پہلو سے دیکھیں تو بظاہر شیر جنگل کا بادشاہ ہے مگر ٹائیگر اس سے زیادہ ذہین اور طاقتور ہے لیکن شیر سے ہمیشہ خوف زدہ نظر آتا ہے، تاہم جنگل کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ٹائیگر کو ہمیشہ شہ مات ریچھ نے ہی دی۔ اگرچہ ریچھ کی طاقت کا جنگل کی تاریخ میں کوئی خاص ذکر نہیں مگر یہ حقیقت صدیوں کی تحقیق پر مبنی ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج مجھے ٹائیگر شیر کی لڑائی میں ریچھ کیوں یاد آ گیا اور لگڑ بگڑ کہاں سے آگئے، جیسا کہ ارسطو کہتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے تو جناب! آپ اور میں اسی جنگل کے چھوٹے موٹے سماجی جانور ہیں جنہیں ٹائیگر، شیر اور ریچھ کی لڑائی میں وقفے وقفے سے اپنی ضرورتوں کے تحت شکار کیا جاتا ہے اور ہم ان تینوںجانوروں کی ضرورتوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں اور کچھ لگڑ بگڑوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ آج پنڈی کا آزاد شیر جنگل میں دھاڑ رہا ہے۔ اسے اپنے سیاسی تجربے پر ناز اور حکومتی لگڑ بگڑوں کی کمزوریوں کا بھی بخوبی احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بڑے بڑے دعوے اور تقاضے کر رہا ہے، وہ عمرانی سرکار کا ایک اہم اتحادی ہونے کے باوجود ایک انوکھا شکار کرنے مچان پر بیٹھا ہے اور ٹائیگر کے ساتھ اٹکھیلیاں کر رہا ہے۔ ذہین ٹائیگر کو بھی اس کا ادراک ہے اور اس کی ٹیم کے اہم کرداروں کو بھی۔ پاکستان کے سیاسی جنگل میں ٹائیگر، شیر اور لگڑ بگڑوں کی باہمی کشمکش آہستہ آہستہ ایک بڑے شکار کی جانب بڑھ رہی ہے۔ پنڈی کا شیر فرنٹ فٹ پر دلیرانہ انداز میں بے خوف لڑ رہا ہے۔ اس کے ذہن میں اس وقت جو کچھ چل رہا ہے اس کا اظہار وہ بار بار اشاروں کنائیوں میں کر رہا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جو اُلٹ پلٹ ہونے جا رہی ہے وہ اس کا مضبوط حصہ بننے کو تیار ہے۔ آج کا ٹرین مارچ ’’کل کا لانگ مارچ‘‘ بن سکتا ہے۔ ماضی کے شیرکو بطور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی ہضم نہ کرنا اور مارچ میں ایک نئی سیاسی چال کی منصوبہ بندی جنگل میں ایک نیا فساد پیدا کرتی نظر آ رہی ہے۔ پنڈی کے شیر کو شکار میں جتنا حصہ ملا وہ اس پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں، وہ ایک ہی لقمے میں کئی سیاسی بونوں کو کھا جانے کی سبیل کر بیٹھا ہے۔ اسے اجڑے جنگل کی ابتری کا احساس بھی ہے اور جنگل سے ماضی کے شیروں کے بھاگ جانے کا ادراک بھی مگر وہ سعد رفیق کی صورت میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی صدارت کسی اور کو دینے کو تیار نہیں۔ وہ اپنی شہنشاہی کا خواب بھی دیکھ رہا ہے مگر ٹائیگر ذہین بھی ہے اور چالاک بھی۔ وہ پنڈی کے شیر کیساتھ ’’لگڑ بگڑوں‘‘ کی لڑائی میں ساتھ تو چلے گا مگر شکار میں حصہ نہیں دیگا۔ جنگلی حیات کے ماہرین کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ شیر، ٹائیگر اور لگڑ بگڑوں کی جاری لڑائی میں جنگل کا کوئی حقیقی طاقتور بیچ میں آئیگا۔

تازہ ترین