• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجٹ 2019-20 کی تیاریاں شروع ہوچکی ہیں۔ ہر صوبے کی ترقی کے لیے تجاویز مانگی جارہی ہیں۔ صوبہ سندھ بھی اس سلسلے میں اپنی سفارشات تیارکررہا ہے۔ لیکن کیا بغیر حقائق کے مانے ترقی کے لیے قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ سندھ کی حکومت اور اس کے اراکین یہ راگ الاپتے سنائی دیتے ہیں کہ سندھ میں ترقی کا عمل بہت تیز ہے،بہت بہتری آچکی ہے۔ کیا واقعی یہی حقیقت ہے یا معاملہ اس کے برعکس ہے؟ یقیناً وہاں پر پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک ہے۔ لوگ انہی کو ووٹ دیتے ہیں کوئی اور سیاسی پارٹی وہاں اپنے قدم ہی نہ جماسکی اور نہ کوئی جماعت ایسی کوشش کرتی ہے ۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا مرکز توجہ پنجاب ہی رہتا ہے۔ لہذا پیپلزپارٹی کے لیے میدان ویسے ہی خالی رہتا ہے۔ اگر کبھی کوئی نئی جماعت یا نیااتحاد وہاں پاؤں جمانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو وہاں کے باشندے انہیں زیادہ خاطرمیں نہیں لاتے۔ لہذا سندھ کا ووٹ تو بھٹوکا ہی ہے۔ لہذا ووٹ کی طاقت کا" غلط استعمال" نہ کریں جواباً ان کے لیے کچھ کیا بھی جائے ، کبھی بغیر مطلب کے بھی اپنے ووٹر کے حقوق کے لیے کچھ کردیناچاہیئے۔ اس وقت سندھ کے عوام بہت ہی پس ماندہ ہیں۔ ترقی کے ہر میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ یونیورسٹیاں تو کافی موجود ہیں اورآگے بھی بڑھ رہی ہیں۔ لیکن افسوس اسکول ابھی تک " بھوتوں" کے حوالے ہیں۔ جس کی بدولت شرح خواندگی بڑھ کرہی نہیں دے رہی۔ سرکاری اسپتال بھی گودام، فیکٹری یا بیٹھک کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ ذرا ان دونوں کی طرف بھی توجہ کرلی جائے۔ کیونکہ سندھ کی ترقی کے لیے بہت اہم ہے کہ وہاں پر تعلیم کودسویں جماعت تک لازم قرار دیتے ہوئے معیاری اسکولز قائم ہوں لہذا گھوسٹ " بھوت" اسکول کو ختم کرکے انسانوں کے اسکول بنائے جائیں اورتعلقات کی بنیاد پر ہر گھربیٹھے تنخواہ لینے والے استادوں کو نکال کر پڑھانے کے شوقین اور اہل استاد کو نوکری دی جائے تاکہ معیار کو بہتر کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ بنیادی بیماریوں کے لیے ہر ضلع میں ہسپتال کا قیام یقینی بناکر وہاں معیاری سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ عوام دھکے کھاتے نہ پھریں۔تیسر اور سب سے اہم سڑکوںکی تعمیرہے ، آمدورفت کے ذرائع کے بغیر علاقے اور لوگوں کی ترقی ممکن نہیں جب تک شہروں اور گاؤں میں جگہ جگہ سڑکوں کی تعمیر نہ ہوگی لوگوں کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ آناآسان نہ ہوگاسندھ کی ترقی ممکن نہیں ہے ۔لہذا روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے سے نکل کر اب تعلیم، صحت اور سڑک کا نعرہ لگایئے اور اس کے لیے کام کیجئے۔ عوام خود ہی روٹی، کپڑا اور مکان اپنے لیے حاصل کرلے گی۔ لیکن اس کے لیے باشعور اور صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔ کراچی میں بیٹھ کر بیان دینا آسان ہے۔ لیکن عملاًاپنے عوام کے لیے کچھ کرنا ذرامشکل ہوتا ہے۔ ذرا کڑواگھونٹ ہی پی لیجئے اور معیاری صحت وتعلیم ان کے اپنے شہر اور گاؤں میں فراہم کردیجئے پھر دیکھیے گا کہ سندھ کیسے ترقی کرے گا؟بجلی ،گیس اور پانی کی تو پورے ملک کو ضرورت ہے۔اس پر راقم زورنہیں دے رہا۔

تازہ ترین