• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھٹوکی پڑھنے کی صلاحیت شاندار سمری سے پوری بات سمجھ لیتے تھے ،صفدر محمود

کراچی (ٹی وی رپورٹ) ممتاز محقق ‘ سابق بیوروکریٹ ‘ادیب ‘ دانشور ‘ پروفیسر ڈاکٹر صفدر محمود نے کہا ہے کہ بھٹو صاحب کی پڑھنے کی صلاحیت شاندار تھی وہ سمری سے پوری بات سمجھ لیتے تھے، یحییٰ خان نے ایوب خان کیخلاف گھمبیر سازش کی تھی،وہ جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے،ڈاکٹر صفدر محمود نےایوب سے جنرل مشرف تک کے مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایوب دور کی سب سے بڑی خوبی صنعتی اور معاشی ترقی اور استحکام تھا تاہم اسے محترمہ فاطمہ جناح قبرستان کی خاموشی سے تعبیر کرتی تھیں ایوب دور کی سب سے بڑی خرابی جمہوریت کا قتل تھا جس میں رائے عامہ اور عوام کی آواز کو بری طرح سے دبادیا گیا تھا۔انہوں نے اس سے اتفاق کیا کہ سانحہ مشرقی پاکستان کی بنیاد ایوب دور میں رکھی گئی اگر وہ دستور کو نہ توڑتے تو مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار بھٹو یایحییٰ ؟کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یحییٰ خان میں سیاسی بصیرت نام کی کوئی چیز نہ تھی اور اختیار بھی اس کے پاس تھا اس لئے ضر وری نہیں تھا کہ وہ بھٹو کے ہر فیصلے پر عمل بھی کرتا لیکن ذوالفقار علی بھٹو پر یہ ذمہ داری اس لحاظ سے عائد ہوتی ہے کہ بھٹو نے اس عمل کو جو ایسٹ اور ویسٹ پاکستان کے درمیان دوری پیدا کررہاتھا تیز کیا بجائے اس کے کہ وہ اس گیپ کو بھرنے کی کوشش کرتے اورانہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ۔ صفدر محمود نے مزید کہا کہ یحییٰ خان سیاسی حکمرانی کے اہل نہیں تھے انہوں نے ایوب خان کے خلاف ایک گھمبیر سازش کی،اور ایوب خان کو آخری دنوں میں اقتدار سے علیحدگی اختیار کرنے میں یحییٰ خان کی سازش نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا ایوب خان محب الوطن تھے انہیں اپنے بنائے معاشی ڈھانچے کی تباہی سے تکلیف ہوتی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا مجھے ان تک رسائی تو حاصل نہ تھی تاہم اس وقت میں ایسے محکمے کا سربراہ تھا جہاں کیبنٹ کی سمریز اور کیبنٹ کے فیصلے سب سے آخر میں فائل ہونے کے لئے آیا کرتے تھے تو مجھے بعض اوقات وہ سمریز جو مختلف وزارتوں کی طرف سے بھٹو صاحب کو پیش کی جاتی تھیں پڑھنے کا اتفاق ہوتا تھااور میں نے دیکھا کہ بھٹو صاحب کی پڑھنے کی صلاحیت اتنی شاندار تھی کہ وہ اس سمری سے ہی پوری بات سمجھ لیتے تھے اور فیصلہ صادر کردیتے تھے ۔ صفدر محمود کا کہنا تھا کہ بھٹو صاحب کے آخری دور میں وہ انٹیلی جنس بیورو میں تھے اور ایک بار میرے سامنے کچھ گھنٹے پہلے بھیجی ایک سمری آئی میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس میں ایک لفظ کی اسپیلنگ غلط تھی اور بھٹو صاحب نے اس کو گول نشان لگا کر انڈر لائن کیا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کی فیصلہ سازی بھی بہت تیز تھی ۔دسمبر 76ء کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولانا کوثر نیازی کا شمار بھٹو کے قریبی لوگوں میں ہوتا تھا اس کے علاوہ پیرزادہ اور ممتاز بھٹو بھی ان کے قریبی تھے اسی دوران یہ افواہ اڑی کہ بھٹو صاحب ایک سال پہلے ہی اگلے مہینے الیکشن کا اعلان کرنے والے ہیں اسی دوران مجھے مولانا کوثر نیازی کا فون آیا کہ آپ شام کی چائے میرے ساتھ پئیں میں پہنچتا ہوں تو وہ اتنے بے چین تھے کہ فوری سوال کرتے ہیں کہ آپ کو علم ہے ممتاز بھٹو اور پیرزادہ اپنے اپنے دفاتر نہیں جارہے گھر میں بند ہیں جبکہ میرے خلاف مواد اکٹھا کیا جارہا ہے ایسا کیوں ہے جس پر میں نے ان سے کہا کہ میں انٹیلی جنس بیورو میں ہوں مگر مجھے معلوم نہیں کیونکہ میری وزیراعظم تک رسائی نہیں ہے ۔ تاہم اس کے جواب میں مولانا کوثر نیازی نے لاجواب بات کہی کہ ”بھیڑیئے کا خوف اچھا ہوتا ہے یا بڑے بھائی کا احترام “ اور 76ء میں کہی گئی یہ بات میں نے 86ء میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کو سنائی اور کہا آپ یہ کام نہ کریں کیونکہ میاں صاحب نے بھی وہی کام کرنا چاہا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ راز اس دن کھلا جب ضیاء الحق نے بھٹو کو گرفتار کرکے مارشل لاء لگایا تو جو لوگ گھروں میں نظر بند تھے ان سے جاکر ہمارے ڈائریکٹر انٹیلی جنس بیورو کو ذاتی طور پر ملنے کا حکم دیا گیا اور جب وہ مولانا کوثر نیازی سے مل کر آئے تو انہوں نے بتایا کہ ان کے اندر بھٹو صاحب کے لئے اتنی نفرت تھی کہ وہ مجھ سے کہہ رہے تھے اس کو وہاں مارو جہاں پانی بھی نہ ملے۔ انہوں نے کہا یہی بات پیرزادہ اور یہی بات ممتاز بھٹو کے بارے میں تھی اور یہ سارے ہی لوگ اندر سے نفرت میں بھرے ہوئے تھے ۔لیکن خوف اور اقتدار کے لالچ میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ضیاالحق دور کا ذکر کرتے ہوئے صفدر محمود کا کہنا تھا مجھے ضیاالحق کا قریبی کہا جاتا ہے مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ جو لوگ ان کے زیر عتاب آئے ان میں ‘ میں بھی شامل تھا ‘ تاہم جنرل ضیا سے پہلی ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب کے دور میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگی ہوئی تھی ضیا دور میں اس پر کوئی فیصلہ کرنے کی خبر مجھ تک پہنچی اور انٹیلی جنس بیورو سے اس حوالے سے مدد مانگی گئی جس پر جنرل غلام حسن نیشنل سیکورٹی کے چیئرمین تھے ان کی طرف سے حکم آیا کہ ہر سمری ان کو براہ راست بھیجی جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس وقت غلام اسحاق خان ‘ روئیداد خان ‘ جنرل غلام حسن ‘ضیا الحق کے پالیسی ساز اور ذہن پر حاوی شخصیات میں شامل تھے اور یہی حکومت چلارہے تھے او رانہوں نے ہی ضیا الحق کی ذہن میں یہ بات ڈالی تھی کہ وہ نیشنل عوامی پارٹی کو اپنی طاقت کے طور پر استعمال کریں کیونکہ یہی جماعت بھٹو کی دشمن ہے۔ تاہم جب سمری بنا کر دینے کا وقت آیا تو میں نے اس میں لکھ دیا کہ یہ پابندی سپریم کورٹ نے بھٹو دور میں لگائی تھی تو اس پابندی کو سپریم کورٹ کے ذریعے ہی ہٹوایا جائے۔تاہم اگلی صبح اخبار میں خبر لگی دیکھی کہ بھٹو صاحب نے نیشنل عوامی پارٹی سے پابندی ہٹالی ہے اور ولی خان کو محب وطن کا سرٹیفکیٹ دیدیا ہے۔جس کے چار روز بعد مجھے میرے ڈائریکٹر طلب کرکے کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب نے کہا ہے کہ انہوں نے سمری مانگی تھی مگر نہیں بھجوائی گئی جس پر میں نے ان کو بتایا کہ ہم نے تو بھجوادی تھی اور جنرل حسن صاحب کو بھجوائی تھی کیونکہ انہوں نے اس کا حکم دیا تھا جس پر ضیا صاحب حیران رہ گئے کہ وہ مجھ تک تو نہیں پہنچی۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا ذکر کرتے ہوئے صفدر محمود کا کہنا تھا کہ بے نظیر کے دور میں ‘ میں نے ایک آرٹیکل دی نیوز میں بے نظیر کی فضول خرچی پر لگا دیا کہ 200 لوگوں کو جہاز بک کرواکر نیویارک لے کر گئی ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں مہاتیر محمد صرف ایک سیکریٹری کے ہمراہ پہنچتا ہے ۔

تازہ ترین