• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آخر سیاست کون سی حسینہ ہے جس کو بچانے کے لئے کینیڈا سے بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والوں کویلغار کرنا پڑی اور سیاست کونسی بلا ہے جس کا قلع قمع کرنے کے لئے امیر حمزہ کی کوہ قاف پر گرزریزی کا اعادہ کیا گیا؟ جہاں تک مروج معاشرتی علوم کا تعلق ہے وہ ریاست اور سیاست کو ایک دوسرے کی ضد سمجھنے کی بجائے،ایک دوسرے سے متصل قرار دیتے ہیں۔ اگر سیاست کو صرف منتخب حکومتی انتظامیہ گردانا جائے تو یہ عدلیہ، سیکورٹی ایجنسیوں سمیت ریاست کا ہی ایک ادارہ ہے ۔اگر سیاست کو وسیع تر معنوں میں لیا جائے تو یہ تمام ادارے سیاسی ہی ہیں، سیاست کرتے ہیں اور اس سے فیضیاب ہونے کی تگ و دو مصروف رہتے ہیں۔ مثلاً فوج کا مارشل لا لگانا یا پس پردہ رہ کر کنٹرول کرنا یا عدلیہ کے آئینی فیصلے سیاست کے ہی زمرے میں آتے ہیں۔ اس لئے ’سیاست نہیں ریاست کو بچاوٴ‘ کا نعرہ بے معنی ہے۔ اس کا یہ غلط العام اور گمراہ کن تصور ہے کہ سیاست صرف سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کانام ہے۔
حقیقت میں پاکستان قومی ریاستوں کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ بہاول بہاولپور یا پٹیالہ جیسی ذاتی ریاست نہیں ہے جس میں حکمران اپنی ضرورت کے مطابق جغرافیہ تبدیل کر سکتے ہیں، جیسا کہ بیٹی کو جہیز میں ریاست کا ایک حصہ دے دینا۔ پاکستان ایک قومی ریاست ہے جس کے مالک ملک کے تماتر عوام ہیں ۔ ملک کے حکمران اداروں کا فرض ہے کہ وہ اس کی جغرافیائی سا لمیت کو قائم رکھیں۔ اس لئے اگر شمالی وزیرستان پاکستان کا حصہ ہوتے ہوئے پاکستانی اداروں کے زیر نظم نہیں ہے تو یہ علاقائی سلامتی کی نفی ہے اور قومی اداروں کی ناکامی ہے کہ وہ ملک کی جغرافیائی سا لمیت کی حفاظت کرنے سے قاصر ہیں۔
ریاست کا جو ہر یہ ہے کہ یہ حکمران طبقوں کی مفاہمت سے وجود میں آتی ہے۔اس کیلئے آئین اور قوانین مرتب ہوتے ہیں اور ان کو نافذ کرنے کیلئے ہتھیار بند جتھے (فوج، پولیس وغیرہ) بنائے جاتے ہیں۔ بلکہ ریاست ان ہتھیار بند جتھوں کے ذریعے آلات جبر کی اجارہ دار ہوتی ہے۔ اگر اس طرح کی اجارہ داری کو ریاست کے اندر چیلنج ہو جائے تو اس کی رٹ ختم ہو جاتی ہے اور اس کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ اسی لئے کوئی بھی ریاست متوازی ہتھیار بند جتھوں یا آلات جبر کو برداشت نہیں کر سکتی۔ پاکستان میں مسلح مذہبی و غیر مذہبی گروہ پرائیویٹ میلیشیا ریاست کے ہتھیار بند جتھوں کے متوازی وجود رکھتے ہیں اور اس کے قوانین نافذ کرنے کی اجارہ داری کو چیلنج کرتے ہیں ، اس پہلو سے وہ ریاست کے اصل دشمن ہیں اور جلد یا بدیر یا ریاست کا شیرازہ بکھر جائے گا اور یا ریاست ان متوازی طاقتوں کا قلع قمع کردے گی۔ ان دو انتہاوٴں کے درمیان نہ کبھی مصالحت ہوئی ہے اور نہ ہی ہوگی۔آج کی قومی ریاستیں اپنی بقا کیلئے یک رنگی اور ہموار ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ریلوے، ذرائع ابلاغ اور نظریات کو بھی ہم رنگی اور یکسانیت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستانی ریاست نے بہت سے علاقوں میں مادی ذرائع کو ہموار بنا کر (جیسے سڑکوں کا وسیع تر انتظام) یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس میں مدد کرنے والے بہت سے قومی اداروں (ریلوے، پی آئی اے) وغیروں کا انحطاط اتحاد اور یکسانیت پیدا کرنے میں زیادہ مددگار ثابت نہیں ہوا۔ پاکستان میں نظریاتی اور لسانی پالیسیاں بھی ناکام ہوئی ہیں۔ پاکستان میں قومیتوں کے درمیان تفریق اور مخاصمت کا بڑھنا، لسانی اور نسلی گروہ بندیوں کا اولیت اختیار کرنا نظریاتی اور پالیسیوں کی ناکامی کا ثبوت ہے۔ اگر ایک مخصوص پالیسی نے ساٹھ سال میں وحدت اور یکسانیت پیدا کرنے کی بجائے نفاق اور باہمی آویزشوں کو جنم دیا تو اس کی ناکامی کا اور کونسا ثبوت چاہئے؟ اب اس پورے پس نظر میں دیکھیں کہ پاکستان کی قومی ریاست کو خطرہ کن طاقتوں سے ہے اور اس کو بچایا کیسے جا سکتا ہے؟ اوپر کی گئی ریاست پر طویل بحث سے یہی بتانا مقصود تھا کہ عوام کی نمائندگی کرنیوالے سیاست دان اس کیلئے کسی بھی طرح سے خطرہ نہیں بن پائے۔ ان کی رشوت ستانی ، اقربا پروری یا دوسری بد عنوانیاں ریاست کے اندر معاشی یا سماجی حالات کو تو خراب کر سکتی ہیں لیکن اس کیلئے زہر قاتل نہیں بن سکتیں۔ اگر حکومتی ہتھیار بند مشینری کے متوازی لڑنے والی قوتیں ان سیاست دانوں کے ہی کرتوتوں سے پیدا ہوئی ہوں تو ہم ان کو مورود الزام ٹھہرا سکتے ہیں ۔ لیکن ایسا تو ہوا نہیں کیونکہ متوازی ہتھیار بند طاقتوں کا ایجنڈا خالص مذہبی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کا نظریہ یہ تنظیمیں پاکستان پر ٹھونسنا چاہتی ہیں وہ پہلے سے ہی پاکستان میں لسانی اور نسلی انتشار کو بڑھانے کا سبب بنا ہے۔پاکستانی ریاست کی جزوی ناکامی (یہ مکمل ناکام ریاست نہیں ہے) کا سارا الزام صرف عوام سے تعلق رکھنے والوں پر نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ ملک کی تاریخ میں نصف سے زیادہ عرصہ تو فوج نے حکومت کی ہے۔ وہی اس کی بنیادی نظریاتی اور لسانی پالیسیوں کی خالق اور محرک رہی ہے اور زیادہ تر اسی کے زمانے میں متوازی ہتھیار بند گروہ پیدا ہوئے ہیں ۔ اس لئے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم کیسے عوامی منتخب نمائندوں کو مورود الزام ٹھہرائیں اور اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے جائیں جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں۔ مولاناطاہرالقادری کے ’سیاست نہیں ریاست بچاوٴ ‘ کے جلسے کے بارے میں سب سوالات ثانوی ہیں کہ یہ جلسہ انہوں نے خود کیا یا ان سے کسی نے کروایا، بنیادی سوال یہ ہے کہ انہوں نے کہا کیا اورنظریہ کیاپیش کیا۔ اور نظریہ یہ تھا کہ ریاست کو بچانے کیلئے دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کو میدان سے نکال پھینکا جائے۔
قادری صاحب نے ملک پر زیادہ عرصہ حکومت کرنے والی فوجی حکومتوں کے بارے میں ایک فقرہ بھی نہیں بولا۔ اسی لئے تقریباً ہر حلقے میں یہی تاثر تھا کہ جلسے کیلئے اتنی بڑی مہم ایجنسیوں کی مدد کے بغیر چلائی نہیں جا سکتی۔ قادری صاحب نے حلفیہ بیان میں اس تاثر کی تردید کی اور ممکن ہے وہ سچ ہی کہہ رہے ہوں کیونکہ ان کی مذہبی سلطنت کیلئے اتنی رقم کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے جلسے سے فیضیاب کون ہوگا؟قادری صاحب کے جلسے سے کچھ روز پہلے پیر پگارا نے حیدرآباد میں تاریخی جلسہ کیا تھا۔ اس کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ یہ شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ تھا۔ لگتا یوں ہے کہ آبادی کئی گنا بڑھ گئی ہے جس سے جلسے بھی بڑے ہو گئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے تک پاکستان کی آبادی ساڑھے پانچ سے چھ کروڑ تھی جو کہ بڑھ کر بیس کروڑ ہو گئی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے آج بھٹو کے جلسوں سے تین چار گنا بڑا جلسہ کیا جائے تو ان کے جلسوں کی برابری کر سکتا ہے۔ جلسے کروانے کے بارے میں یہ بات بھی مد نظر رہنی چاہئے کہ اب ان کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں کی تعداد میں کئی ہزار گنا اضافہ ہو چکا ہے جو جلسوں کو فنانس کر سکتے ہیں۔ اس لئے ان جلسوں کے ہجوم کو مجلس احرار کے جلسے ہی سمجھا جائے جو حجم میں مسلم لیگ سے بڑے ہوتے تھے لیکن وہ ووٹوں میں تبدیل نہیں ہوتے تھے۔ قادری صاحب کا جلسہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا کیونکہ وہ الیکشن جیت کر حکومت نہیں بنا سکتے۔مولانا طاہر القادری کی تنقید کا شکار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں پارٹیاں وڈیروں ، دولت مندوں اور بد عنوان عناصر پر مشتمل ہیں۔ یہ ہر الیکشن میں جیت کر آتی ہیں اور عوام کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ پہلے نظامِ ریاست تبدیل کیا جائے اور پھر انتخابات ہوں جس میں ہر طبقے کے لوگ اسمبلیوں تک پہنچ پائیں۔ایسا کرنے کیلئے انہوں نے دو ہفتے کی ڈید لائن بھی دے دی اور اسلام آباد میں چار لاکھ کے مجمع کی عوامی اسمبلی منعقد کرنے کا عندیہ بھی دے دیا۔بظاہر یہ نعرہ کافی دلکش نظر آتا ہے لیکن اگر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ ڈکٹیٹر شپ کی کھلی دعوت ہے۔ جو ریاست ساٹھ سال میں مولانا قادری کے تصور کے مطابق اپنے آپ کو نہ ڈھال سکی وہ دو ہفتوں میں ایسا کیسے کر سکتی ہے؟ یعنی کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
تازہ ترین