• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری ڈگری درست اور یونیورسٹی سری لنکا میں تسلیم شدہ ہے،ڈاکٹر شیخ اختر

اسلام آباد (عمر چیمہ) پاکستان میں دوائوں کی نگرانی کیلئے قائم ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے سربراہ کے پاس نہ صرف پی ایچ ڈی کی مشکوک ڈگری ہے بلکہ وہ اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا لفظ بھی ا ستعمال کرتے ہیں اور ڈاکٹریٹ کی اس ڈگری پر خصوصی الائونس بھی حاصل کرتے ہیں۔ تاہم، ’’ڈاکٹر‘‘ شیخ اختر حسین کی اصل اہلیت ان کے اعلیٰ حلقوں کےساتھ تعلقا ت ہیں، وہ نہ صرف اپنے اختیارات کے غلط استعمال کرتے ہیں بلکہ انہوں نے خود کو ڈریپ کا چیف ایگزیکٹو افسر لگوانے کیلئے بھی اس وقت راہ ہموار کی جب انہیں اس سے قبل قائم مقام چیف ایگزیکٹو افسر مقرر کیا گیا تھا۔ ان کیخلاف نیب انکوائری روکنے کا حکم دیا گیا، جن اصولوں کے تحتسرکاری ٹی وی کے چیئرمین عطاء الحق قاسمی اور پاکستان کڈنی لیور ٹرانسپلانٹ ادارے کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کو ہٹایا گیا تھا انہی اصولوں کو ڈریپ کا سربراہ مقرر کیے جانے کے وقت مکمل طور پر نظر انداز کر دیاگیا۔ جب انہیں اس عہدے پر لگانے کیلئے غور کیا جا رہا تھا اس وقت شیخ اختر کی پی ایچ ڈی کی اسکروٹنی نہیں کی گئی۔ انہیں اس عہدے پر مقرر کرنے کا پورا عمل انہی کی نگرانی میں ہوا۔ وہ بیک وقت قائم مقام چیف ایگزیکٹو افسر اور مستقل چیف ایگزیکٹو کے عہدے کے امیدوار کے طور پر کام کر رہے تھے۔ وہ پالیسی بورڈ کے بر بنائے عہدہ (Ex-Officio) سیکریٹری تھے جس نے اسکروٹنی کمیٹی اور انٹرویو کمیٹی تشکیل دی۔ چونکہ وہ ڈائریکٹر میڈیکل ڈیوائسز اینڈ میڈیکیٹڈ کاسمیٹکس نامی ادارے کے قائم مقام انچارج تھے، اسلئے وہ اپنے ڈائریکٹر کے عہدے کی وجہ سے میڈیکل ڈیوائس بورڈ کے بھی چیئرمین بن گئے۔ چونکہ وہ ڈائریکٹر کوالٹی اشورنس اینڈ لیبارٹری ٹیسٹنگ کے قائم مقام انچارج تھے اس لئے اپنے اس عہدے کی بدولت وہ ڈرگ رجسٹریشن بورڈ اینڈ ڈرگ لائسنسنگ بورڈ کے ممبر بن گئے۔ دی نیوز کے سوالوں کے جواب میں، انہوں نے اعتراف کیا کہ جس وقت انہوں نے مستقل چیف ایگزیکٹو افسر کے عہدے کیلئے درخواست دی تھی اس وقت وہ قائم مقام چیف ایگزیکٹو ڈریپ کے ساتھ دیگر کئی عہدوں پر بھی براجمان تھے۔ شیخ اختر کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے سری لنکا کی اوپن انٹرنیشنل یونیورسٹی سے فارماکولوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ نہ صرف انہیں ڈریپ سے اس ڈگری کی وجہ سے خصوصی الائونس ملتا ہے بلکہ ’’ڈاکٹر‘‘ لفظ بھی ان کے نام کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ اسی پی ایچ ڈی کی وجہ سے انہیں سلیکشن کمیٹی کی جانب سے خصوصی مارکس دیے گئے۔ تاہم، جس یونیورسٹی نے انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی ہے اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) تسلیم نہیں کرتا۔ ویب سائٹ تلاش کرنے کی کئی کوششیں ناکام گئیں جبکہ شیخ اختر بھی متعدد درخواستوں کے باوجود یونیورسٹی کی ویب سائٹ ڈھونڈنے میں مدد دینے سے کتراتے رہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کا اصرار ہے کہ ان کی ڈگری درست ہے اور یونیورسٹی سری لنکا میں تسلیم شدہ ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ایسی ہی بات ہے تو اس یونیورسٹی کو ایچ ای سی تسلیم کیوں نہیں کرتا تاکہ پاکستان میں ملازمت کیلئے اہل سمجھا جائے، تو انہوں نے اس سوال کا جواب تو نہیں دیا لیکن یہ کہا کہ جب انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی اس وقت ایچ ای سی کا وجود نہیں تھا۔ ڈریپ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر عبید نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں شیخ اختر کی پی ایچ ڈی اور تقرریوں کو چیلنج کر رکھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ سب اقدامات قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیے گئے ہیں۔ اسکروٹنی کمیٹی کی جانب سے ڈگری کی اسکروٹنی نہ کیے جانے کے حوالے سے شیخ اختر کا کہنا تھا کہ ڈریپ ایکٹ کے سیکشن پانچ کے تحت اسکروٹنی کمیٹی کا کام امیدوار کی موزونیت جانچنا ہے نہ کہ اس کی تعلیمی اسناد۔ تاہم، وہ یہ بتاتے ہوئے شاید سیکشن 12؍ دوم بھول گئے جس میں پالیسی بورڈ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مذکورہ بالا کمیٹیوں کے کام کرنے کے طریقہ کار کی نگرانی کرے۔ یہ پورا عمل قواعد و ضوابط بنائے بغیر ہی مکمل کیا گیا۔ حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ہدایات بھی نظرا نداز کی گئیں جس میں کمیٹی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ دستاویزات اور دیگر ضروریات کے مستند ہونے کو یقینی بنایا جائے۔ جب انٹرویوز کیے جا رہے تھے اس وقت شیخ اختر پالیسی بورڈ کے سیکریٹری تھے اور بورڈ کی جانب سے تشکیل دی جانے والی انٹرویو کمیٹی میں نہ صرف شیخ اختر مستقل چیف ایگزیکٹو افسر کے عہدے کیلئے انٹرویو دینے خود پیش ہوئے بلکہ کمیٹی نے انہیں سب سے زیادہ نمبر بھی دیے۔ کمیٹی نے صرف دو امیدوا روں کو شارٹ لسٹ کیا تھا حالانکہ قانون میں لکھا ہے کہ کم از کم تین امیدوار ہونا چاہئیں۔ دوسرے امیدوار کا نام عاصم رئوف تھا جو شیخ اختر کے قریبی ساتھی ہیں۔
تازہ ترین