• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل و خار … سیمسن جاوید
کسی بھی مہذب معاشرے میںاور ترقی یافتہ ممالک کے پیچھے ان ممالک کے قوانین کا بہت اہم رول ہوتاہے چاہے وہ امیر ہوں یا غریب ،وی آئی پی، وزیر اعظم و دیگر سیاسی اور امراء ہوں ،قوانین سب پر یکساں لاگو ہوتے ہیں اور لوگ ان پرمن و عن عمل کرتے ہیں ۔یہی ان کے مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کا زار ہے۔یہی وجہ ہے کہ آ ج یہ ممالک انسانی حقوق کے علمبردارہیں ۔ان کے تمام شہریوںکو اظہار رائے کی مکمل آزادی حاصل ہے اور اْس کے لئے باقاعدہ ضابطہ اخلاق بھی مرتب ہے ۔جس سے تجاوز کرنے کی کسی کو اجازت نہیں اور نہ ہی کوئی کسی کی ایذا رسانی کر سکتا ہے۔ اگر کوئی بھی خاص و عام کسی کے خلاف پولیس میں رپورٹ لکھوا دے تو مجرم کو قانون کے مطابق جرم ثابت ہونے پرقرار واقعی سزا دی جاتی ہے ۔ حتیٰ کہ کسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا سکول کابچہ کسی کالے ،گورے یا موٹے کو طعنہ یا گالی نہیں دے سکتا۔ اگر کوئی مسلک کمیونٹی یا مذہب کے خلاف کچھ کہتا ہے تو فوراً اسکے ماں باپ کو جواب دہی کیلئے طلب کر لیا جاتا ہے اور ضرورت پڑنے پر سخت ایکشن بھی لیا جاتا ہےتاکہ یہی بچے بڑے ہو کر معاشرے کا ناسور نہ بن جائیں کیونکہ بچے ہی بڑے ہو معاشرے یا قوم کی تعمیر کرتے ہیں۔اسی طرح گلی محلے ،گھروں یا دوسری جگہوں پر بھی یہ قانون لاگو ہے۔کوئی مرد اپنی بیوی یا بچوں کو ایذا نہیںپہنچا سکتا۔ مرد بیوی کی مرضی کے بغیر اس سے زبردستی نہیں کر سکتا ۔یہی وہ خوبیاں ہیں جو اسے دوسرے ترقی پزیر ممالک سے افضل رکھے ہوئے ہیں مگراس کے برعکس پاکستانی معاشرے میں بے شمار معاشرتی معاشی ،سیاسی اور اخلاقی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔اقلیتیں غیر محفوظ ہیں ۔ توہین عدالت کی تو سزا دی جا رہی ہے مگر سیاست دانوں اور اس کے حواریوں کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق دکھائی نہیں دیتا۔جیسے بدتمیزی کی مکمل آزادی حاصل ہے۔۔ پچھلے 71 سالوں میں کسی نے بھی مہذب معاشرے کی تشکیل کے لئے کوئی لائحہ عمل یا قوانین وضع نہیں کئے ۔یہاں تک کہ قانون پر عمل کروانے والے ادارے خودبھی کسی ضابطے یا قانون کی پابندی نہیں کرتے اور اس سلسلہ اب مضبوط جڑ پکڑ چکا ہے۔قانون پر عمل درآمدکروانے والے اداروں کے ہاتھوں بہت سے بے گناہ ٹارگٹ بنے ۔رہی سہی کسر پچھلے سات سالوں میں سیاسی رہنماؤں نے ہٹ دھرمی کے کلچر کو فروغ دیکر پوری کر دی۔سیاست دانوں کی زبانوں سے مہذب الفاظ کی بجائے،اوئے،چور ،ڈاکو، پٹواری جیسے غیر مہذب الفاظ کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا۔ایسے الفاظ پڑھے لکھے یا مہذب انسان کوشیوا نہیں دیتے ان کے ساتھ ساتھ ان کے کارکن اور حواری بھی انہی کے نقشِ قدم پر چل نکلے ہیں۔ سوشل میڈیا پر معاشرے کی اصلاح ،برائیوں کے خاتمے، ہوشرباء مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے روز گاری کے خاتمے کیلئے جدوجہد کی بجائے سیاست دان ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے میں مصروف عمل ہیں۔کرپٹ سیاست دانوں یا مجرموں کو سزا دینا عدالت کا کام ہے۔پاکستان میں ناخواندگی کی شرح اپنی جگہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ مگر تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت تو دیا جائے۔ایک مہذب معاشرے کی تشکیل میں جہاں قانون کا رول ہے وہاں مذہبی و سیاسی و تعلیمی درس گاہیں بھی ذمہ دار ہوتی ہیں۔مگر یہاں سیاست دان اور مذہبی انتہا پسند تنظیموں نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گدھے پر کتابیں لاد دینے سے گدھا پڑھا لکھا نہیں بن جاتا یا اسے عقل نہیں آ جاتی۔سپریم کورٹ آف پاکستان کا کردار قابل تحسین ہے جس نے کرپشن ،اقلیتوں کے حقوق اور دوسرے جرائم کیلئے از خود نونس لئے ہیں گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے لبیک یا رسول اللہ کی طرف سے راولپنڈی اسلام آباد کو ملانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع فیض آباد انٹر چینج پر دیئے گئے دھرنا کیخلاف ازخود نوٹس کا فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ منافرت کا فتویٰ دینے والوں کیخلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائی ہونی چاہئے اور کسی کوایسے عناصر کی پشت پناہی کی اجازت نہ دی جائے حکومت یا ادارے ،قانون سب پر لاگو ہوتا ہےاور کہ وزارت دفاع اور مسلح افواج کے سربراہان کوحلف سے رو گردانی کے مرتکب اپنے اپنے ماتحتوں کیخلاف قانونی کاروائی کرنے کا حکم جاری کیا ہے جب کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ملک میں نفرت پھیلانے، انتہا پسندی کو فروغ دینے اور دہشت گردی کرنے والوں کی کڑی نگرانی کرنے اور اسکے ذمہ داروںکے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی سمیت تمام خفیہ اداروں او ر افواج پاکستان کے ترجمان ادارہ آئی ایس پی آر کو کسی صورت بھی اپنے مینڈیٹ سے باہر نہیں نکلنا چاہئے۔ و ہ ادارے کسی بھی صورت میںاظہار رائے کی آزادی کو نہیں روک سکتے ۔ اور نہ یہ کسی براڈ کاسٹ یا پبلیکیشن میںمداخلت کا اختیار رکھتے ہیں۔ ہرشہری، سیاسی جماعت کوپْرامن اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اجتماع اور احتجاج کا حق حاصل ہے دیگر شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت متاثر نہیں ہونی چاہیے۔املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو سزا دی جائے۔ پیمرا براڈ کاسٹرز کو تحفظ دینے میں ناکام رہا۔جیو اور ڈان کی کینٹ ایریا میں بندش کو بھی منفی قرار دیا۔الیکشن کمیشن کو لبیک کی فنڈنگ کی مکمل جانچ پڑتال کا حکم بھی دیا۔وزارت دفاع کے حکام نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کہا تھا کہ بعض سیاسی شخصیات نے بھی فیض آباد دھرنے کی حمایت کی تھی اور ان شخصیات میں عوامی لیگ کے سربراہ اور وفاقی وزیر شیخ رشید کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ضیا کے اعجاز الحق ، پیپلز پارٹ کے شیخ حمید اور پاکستان تحریک انصاف کا علما ونگ بھی شامل ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ لبیک کے دھرنہ کی پشت پناہی کرنے میں مذہبی انتہا پسند تنظیموں ،پی ٹی آئی ،شیخ رشید اور کئی دوسرے سیاست دان ملوث رہے ہیں۔یاد رہے کہ شیخ رشید لبیک کے دھرنہ کے موقع پر یہ کہہ کرانہیں سپورٹ کیا کرتا تھے کہ یہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔یہ رموز رسالت کے پروانے ہیں حکومت کو گرا کر ہی جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔سپریم کو رٹ کو ایسے انتشار پسند اور مفاد پرست عناصر کا سختی سے محاسبہ کرنا چاہئے جو ماحول کو تشویشناک بناتے ہیں۔ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپیل کرتے ہیںکہ مذہبی اقلیتوں کے متعلق اپنے تمام فیصلوں پر عمل درآمد کروائیں اور جو انتہا پسند عناصر مسیحیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کیلئے جواز ڈھونڈتے رہتے ہیں اورجن کی وجہ سے تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ غریب مسیحیوں کی زندگیاں اجیرن بن گئی ہیں۔ایسے عناصر کے خلاف از خود نوٹس لے کر انہیں کڑی سزا دی جائے تاکہ ملک میں سب کو بلا تفریق مذہب ،رنگ و نسل جینے کا حق ملے۔اسی طرح حکومت وقت کو بھی شر پسند سیاست دانوں اور اپنے ایسے کارکنوں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے کہ وہ ضابطہ ا خلاق کو مدنظررکھیں اور کسی کو ہدف تنقید نہ بنائیں ورنہ ہمارا معاشرہ بد سے بد تر ہوتا چلاجائے گا۔
تازہ ترین