• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرزا غالب عشق میں جتنے بھی دیوانے ہوں گے لیکن ان کو اتنا ہوش ضرور تھا کہ خلق کو اپنے پتے سے اس کے گھر کا پتا نہیں بتانا چاہتے تھے اور اسی لئے کہا کہ’’میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے‘‘۔ اس گتھی کو آپ خود سلجھائیے کہ غالب کے پتے سے خلقت کو اس کا گھر کیسے معلوم ہوجاتا لیکن ہمیں یہ مصرع صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کانگریس میں چند ہفتے پیشتر کی گئی سالانہ تقریر ’’یونین کے احوال‘‘ کے موقع پر یادآیا۔ موصوف نے فرمایا کہ ڈیموکریٹک پارٹی امریکہ میں سوشلزم نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس بارے میں بعد میں بتائیں گے کہ ڈیموکریٹک پارٹی امریکہ میں کس طرح کا نظام لانا چاہتی ہے جسے موشگافیاں چھوڑنے کے بادشاہ ڈونلڈ ٹرمپ ’سوشلزم ‘ کا نام دے رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے ’شیر آیا شیر‘ کے واویلے سے پچھلی صدی کے ساٹھ کا زمانہ یاد آگیا جب ہم ساہیوال کالج میں پڑھ رہے تھے۔

اُس زمانے میں کالج کی سیاست زیادہ تر برادریوں اور شہری بمقابلہ دیہاتی کے گرد گھومتی تھی۔ اس زمانے میں اسلامی جمعیت طلباء کے علاوہ کوئی طالب علم تنظیم نہیں ہوا کرتی تھی۔ میرے جیسے بہت سے ایسے تھے جو نسیم حجازی اور ایم اسلم کے ناول پڑھ کر کچھ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہوتے تھے۔ چنانچہ میری نوع کے طلبایہ سوچ کر جمعیت کے ساتھ ہمدردی کرتے تھے کہ وہ ’’کچھ‘‘ تو کرتی ہے نا۔ میرے خیال میں درمیانے طبقے کے ایک حصے اور قصبوں میں جماعت اسلامی اور جمعیت اس لئے بھی پر کشش ہوا کرتی تھیں کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی اسلام کی تفسیرپیرپرستی اور جنوں بھوتوں پر مبنی نظریے سے زیادہ عقلیت پسند تھی۔ مولانا مودودی کی مخصوص حلقوں میں قبولیت کے بارے میں اس تشریح پر میرے بہت سے آزاد خیال، بائیں بازو والے اور فلسفے کے طالب علم آگ بگولا ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں مذہبی نظریہ اور عقلیت پسندی کا گہرا تضاد ہے۔ میں اپنے موقف پر قائم ہوں لیکن اس بارے میں تفصیلی بحث کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہوئے ہم اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔

ہوا یہ کہ اسی زمانے میں جماعت اسلامی نے اپنے رسالے ’چراغ راہ‘ کا سوشلزم نمبر چھاپنے کا بیڑہ اٹھایا۔ مجھے قطعی طور پر معلوم نہیں کہ ’چراغ راہ‘ کا پبلشر کون تھا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ رسالہ چھپنے سے پہلے ہی جمعیت طلبانے پیشگی بکنگ کرتے ہوئے قیمت وصول کر لی تھی۔ رسالہ دو جلدوں میں چھپ کر آیا جس میں سب بڑے بڑے علماء، دانشوروں اور سیاست دانوں کے سوشلزم کی تنقید پر مبنی مضامین تھے۔ سارا رسالہ پڑھ کر میرا تاثر یہ تھا کہ زیر تنقید نظریہ ’سوشلزم‘ تو کوئی بھلی چیز ہے اور اس کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کرنا چاہئے۔ مطلب سوشلزم سے میرا تعارف جماعت اسلامی کے وسیلے سے ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے جیسے بہت سے اور لوگ بھی ہوں گے جن کے ساتھ یہ ہوا۔ آخرجمعیت طلباسے آنے والے بائیں بازو والوں کی اتنی بڑی تعداد کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ خیر مجھے اب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اس زمانے میں جب ساہیوال جیسے شہروں میں سوشلزم کا لفظ تک کو کوئی نہیں جانتا تھا اس خصوصی اشاعت کی کیا ضرورت تھی۔یہ تو وہی بات ہوئی ’آبیل مجھے مار‘۔ مجھے یقین ہے کہ اس کے پس منظر میں کہیں امریکی جنون تھا جو ساری دنیا کو سوشلزم کے خلاف لڑنے کے لئے پیشگی تیاریاں کروا رہا تھا۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس اشاعت کے پس منظر میں مالی منفعت نہ ہو اور صرف امریکیوں نے اپنے مقامی ذرائع سے یہ سب کچھ کروایا ہو لیکن یہ یقینی امر ہے کہ اس اشاعت کا فائدے کی بجائے نقصان ہوا ہو۔

مجھے یاد ہے کہ اس ابتدائی تعارف کے باوجود میری سوشلزم کے بارے میں جستجو محدود رہی کیونکہ 1967 میں پیپلز پارٹی کے معرض وجود میں آنے کے باوجود ساہیوال جیسے شہر میں سوشلزم یا اسلامی سوشلزم کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ بعد میں پیپلز پارٹی اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا کر بر اقتدار آگئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکیوں کو پہلے سے اندازہ تھا کہ ایسی بائیں بازو کی تحریک ابھرنے کے امکانات ہیں ؟کچھ بھی ہو امریکی یا پاکستان کی قدامت پرست سیاسی جماعتیںپیپلز پارٹی اور بائیں بازو کے ابھار کو روک نہ سکیں۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ تو جو کچھ ہوا وہ ایک علیحدہ کہانی ہے لیکن بائیں بازو کی تنظیمیں اپنے ہی بوجھ کے نیچے دب کر ختم ہو گئیں۔

اس ساری بحث سے ایک نقطہ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ بسا اوقات کسی تحریک یا تبدیلی کے منفی اشاریے پہلے سے ہی آنا شروع ہو جاتے ہیں جیسے چراغ راہ کا بے وقت سوشلزم نمبر۔ ویسے تو یہ بھی ہے کہ منفی اشاریوں کی بنا پر بہت سے تاریخی حقائق کا سراغ مل سکتا ہے۔ مثلاً ہندو ویدوں میں جن دشمنوں کا بار بار ذکر کیا گیا اس سے تاریخ دانوں نے حملہ آوروں (جنہوں نے وید لکھے)کے خلاف مقامی عوام کا احوال معلوم کیا ہے۔ حالیہ تاریخ کو لیجئے جس میں بظاہر عورتوں کے خلاف تشدد میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک منفی اشاریہ ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ خواتین نئی آزادیوں کی طلبگار ہیں جنہیں دبانے کے لئے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ تاریخ کا رجحان خواتین کے حق میں ہے اور بڑھتا ہوا تشدد انہیں روک نہیں پائے گا۔

اسی پس منظر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سوشلزم کے امکانات کے خلاف کئے گئے اعلان کو بھی دیکھنا چاہئے۔ یہ کسی بھی امریکی صدر کا کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں ڈیموکریٹک پارٹی پر سوشلزم لانے کا پہلا الزام ہے۔ کیا ماضی کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب امریکہ میں سوشلزم آنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں؟ ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک دہائی پیشتر امریکہ میں سب سے بڑی سیاسی گالی سوشلزم کی ہوا کرتی تھی اور اب ڈیمو کریٹک پارٹی کے 67 فیصد ممبران اپنی شناخت سوشلزم سے کرتے ہیں۔ ابھی تک ڈیموکریٹک پارٹی کا بایاں بازو یورپ جیسے فلاحی نظام کی بات کر رہا ہے جس میں تعلیم اور صحت جیسی سہولتیں ہر شہری کو فراہم کی جائیں۔ یہ سارا کچھ سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے کیا گیا ہے اور اس کو سوشلزم نہیں کہا جا سکتا۔ بہر حال یہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ امریکہ کے جاری سرمایہ داری نظام میں بنیادی تبدیلیاں ہونے جا رہی ہیں۔

تازہ ترین