• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چونکہ میں بہت پرانا ہوں اس لئے میر ی یادوں کا سلسلہ بہت پرانے پاکستان سے شروع ہوتا ہے۔ اصل میں میری یادیں بہت پرانے پاکستان سے بھی زیادہ پرانی ہیں۔ وہ اس طرح کہ برصغیر کے جس حصے پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا، میں بہت پہلے سے وہیں موجود تھا۔ گارڈن روڈ پر ہمارا گھر گاندھی گارڈن کے اس قدر قریب تھا کہ وہاں سے ببر شیروں کے چنگھاڑنے کی آوازیں صاف سنائی دیتی تھیں، اس لئے ہم بچپن سے ہی ببر شیروں سے ڈرے ہوئے ہیں۔ کراچی کے Zoo یعنی چڑیا گھر کا نام انگریز نے اپنے کٹر مخالف مہاتما گاندھی سے منسوب کیا تھا اور سرکاری طورپر گاندھی گارڈن کہلوانے میں آتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد جب کراچی کے روڈ راستوں، چوراہوں، باغ باغیچوں کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سیاستدانوں سے منسوب کیا جارہا تھا، تب نہ جانے کیوں گاندھی گارڈن کو کسی سیاستدان کے نام سے منسوب کرنے کے بجائے اس کا نام کراچی زولوجیکل گارڈن رکھا گیا۔ سولجر بازار میں ایک عمدہ کرکٹ گرائونڈ کا نام تھا پٹیل پارک، آپ کا یہ فقیر طالب علمی کے دور میں اپنے اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی ٹیم کے ساتھ پٹیل پارک میں کئی میچز کھیل چکا تھا۔ نام بدلنے والوں نے سیاسی توڑ کے طورپر پٹیل پارک کا نام تبدیل کرکے عبدالرب نشتر پارک رکھا۔ اب وہاں کرکٹ میچز نہیں بلکہ سیاسی جلسے ہوتے ہیں۔ پٹیل پارک کا تعلق کسی بھی طورپر ولبھ بھائی پٹیل سے نہیں تھا۔ کراچی کے اہم ترین اور طویل راستے کا نام تھا بندر روڈ، کیماڑی سے شروع ہوکر ٹکری کے قریب ختم ہوتا تھا۔ ایک چھوٹی سی پہاڑی کو کہتے تھے ٹکری۔ چھوٹی سی پہاڑی پر قائداعظم کا مقبرہ بنا ہوا ہے۔ بندر روڈ پر ایک قدیم مسافر خانہ تھا۔ اس مسافر خانہ کا نام تھا مولوی مسافر خانہ اور آشرم۔ مولوی مسافر خانہ کے عین سامنے ایک چھوٹا سا تکونہ پارک تھا۔ پارک کا نام تھا شوجی پارک (شیوا جی پارک نہیں) نام تبدیل کرنے والوں سے چوک ہوگئی۔ وہ بھگوان شو کے نام سے منسوب شوجی پارک کو شیوا جی پارک سمجھ بیٹھے۔ نام تبدیل کرنے والوں نے چھوٹے سے تکونے پارک کو اورنگزیب عالمگیر پارک کانام دے دیا۔ شیوا جی نے ہندوستان پر چھپن برس حکومت کرنے والے اورنگزیب عالمگیر کے خلاف چھبیس برس گوریلا جنگ لڑی تھی۔ نام تبدیل کرنے والے تاریخ سے واقف تھے، مگر شوجی اور شیوا جی کے ناموں سے دھوکہ کھا گئے۔ کاش میں آ پ کو ان پرانی یادوں سے وابستہ مقامات کی جائےوقوع بتا سکتا۔ ہم مٹھائی کی دکانوں، نہاری بیچنے والوں اور ریسٹورنٹ کا حوالہ نہیں دے سکتے۔ اب آپ بندر روڈ کے طول و عرض میں ڈھونڈتے پھریں کہ مولو ی مسافر خانہ اور اورنگزیب عالم گیر پارک کہاں ہیں۔ اتنا بتا دوں کہ بندر روڈ کو اب ایم اے جناح روڈ کہتےہیں۔

بہت پرانے پاکستان کے دیدہ زیب اور دل موہ لینے والے شہر کراچی میں مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی، جین اور بدھ مت کے پیروکار امن سے رہتے تھے۔ کوئی کسی کا گلا نہیں کاٹتا تھا۔ کوئی دوسرا کسی کی عبادت گاہ کی بےحرمتی نہیں کرتا تھا۔ مختلف عقیدوں سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شامل ہوتے تھے۔ آپس میں کرکٹ میچز کھیلتے تھے۔ فٹبال میچز کھیلے جاتے تھے۔ کے پی ٹی یعنی کراچی پورٹ ٹرسٹ کی فٹ بال ٹیم، بنگال کی موہن بھگت، ڈھاکہ محمڈن اور افغان کلب کوئٹہ کی چیمپئن فٹبال ٹیموں کی ہم پلہ تھی۔ سندھ کے پہلے ٹیسٹ کرکٹر جے نائومل ہندو جمخانہ کی ٹیم میں کھیلتے تھے اور انیس سو چھبیس کی آل انڈیا ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے ممبر تھے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد کراچی پولیس نے ہندو جمخانہ کے کرکٹ گرائونڈ پر قبضہ کرلیا تھا۔ اب وہاں پولیس کے بدنما فلیٹوں کا جنگل بنا ہوا ہے۔ ہندو جمخانہ اور پویلین میں اب ڈرامہ سکھایا جاتا ہے۔ آئے دن کراچی میں میلے ٹھیلے لگتے تھے۔ شہر بھر کی دکانوں اور گھروں کی بالکونیاں سجائی جاتی تھیں۔ رام باغ میں راون کا دیوہیکل پتلا جلایا جاتا تھا۔ بٹوارے کے بعد باغ باغیچوں کے نام تبدیل کرنے والوں نے لفظ رام کے شروع میں آ کا اضافہ کیا اور رام باغ کو آرام باغ بنا دیا۔ عین اسی طرح لکھنوکے گرد و نواح میں نوابوں کا آرام باغ تھا۔ نام بدلنے والوں نےلفظ آرام سے آ خارج کردیا اور اب آرام باغ کا نیا نام ہے رام باغ۔ تقسیم ہند کے بعد دونوں ممالک ہندوستان اور پاکستان میں Tit for tatہوتا رہا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کو ادلے کا بدلہ دیتے رہیں گے۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ دونوں ممالک اپنا ایک ایک ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں اور تالی بجاتے رہتے ہیں۔

بٹوارے کے آس پاس کراچی شہر کی آبادی ڈھائی پونے تین لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ تقسیم ہند کے بعد ہندو اور سکھوں کے ساتھ ساتھ پارسی، عیسائی، اور یہودی بھی کراچی چھوڑ کر چلے گئے۔ محبتوں کے شہر میں رہ گئے مل ملا کر ڈیڑھ دو لاکھ نفوس۔ اب کراچی میں اللہ کے فضل سے دو ڈھائی کروڑ لوگ آباد ہیں۔ ماشاءاللہ پرانا شہر اور شہر کی رونقیں اجڑ گئیں تو کیا ہوا۔ لوگ تو ہیں نا۔ روڈ راستے اکھڑ گئے تو کیا ہوا۔ لوگ تو ہیں نا۔ گٹر اور نالے کوڑے کرکٹ سے بند ہوگئے تو کیا ہوا۔ لوگ تو ہیں نا۔ گریبان چاک ہوتے ہیں تو کیا ہوا۔ لوگ تو ہیں نا۔ نیا پاکستان بننے جارہا ہے۔ ہم کراچی کے پرانے پاپی اس کو کہتے ہیں، ایک دم نیا پاکستان بننے کو جارہا ہے واجا۔

ہم پرانے پاپیوں نے پاکستان بنتے دیکھا اور چوبیس برس بعد انیس سو اکہتر میں پاکستان ٹوٹتے دیکھا۔ تب بھی ہم نے نئے پاکستان کی گونج سنی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے باقی ماندہ مغربی پاکستان کے نام سے لفظ مغربی حذف یعنی Deleteکیا اور لوگوں سے کہا، یہ ہے تمہارا نیا پاکستان۔ اب بہتر (72) برس بعد پھر سے نیا پاکستان بننے جارہا ہے۔

تازہ ترین