• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورٹ مارشل کیوں نہیں ہوا، اصغرخان کیس میں سپریم کورٹ ایف آئی اے کی کارکردگی پر ناراض، 4 ہفتے میں انکوائری مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم

اسلام آباد (نمائندہ جنگ،نیوز ایجنسیاں ) سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں ایف آئی اے کی کارکردگی پر اظہار ناراضی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملوث فوجی افسران کے خلاف وزارت دفاع نے کورٹ ماشل کیلئے کارروائی کیوں شروع نہیں کی ہے ؟جبکہ جنرل (ر)مرزا سلم بیگ اور لیفٹیننٹ جنرل (ر)اسد درانی سمیت دیگر ملزم فوجی افسران کیخلاف ادارہ جاتی سطح پر ہونے والی انکوائری سے متعلق سیکرٹری دفاع سے پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 4ہفتوں کیلئے ملتوی کردی ہے۔سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ فوجی افسران کیخلاف وزارت دفاع نے کورٹ ماشل کیلئے کارروائی کیوں شروع نہیں کی؟ ایسامعلوم ہوتا ہے ایف آئی اے ہاتھ اٹھانا چاہتی ہے،وزارت دفاع کے لوگ بھی اپنے سابق افسروں کے پتے دینے کو تیار نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نےاس موقع پر کہا کہ اصغر خان کیس میں 28 سال پہلے 184 کروڑ روپے کی رقم استعمال ہوئی۔جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا بانی ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم کو بھی پیسے ملے تھے،کیس میں ان کا نام سامنے آیا نا ہی ایف آئی اے رپورٹ میں۔ایف آئی اے نے کہا کہ بینکوں میں 28سال پہلے کا ریکارڈ موجود نہیں، اسی لئے ہمیں ثبوت مل رہے۔ جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ ایساہے توبینکوں کے صدورکوبلاکرپوچھتے ہیں کیا معاملہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ایم کیو ایم بانی سمیت جو لوگ برطانیہ میں ہیں انکے بارے میں بات چل رہی ہے، جلد پیش رفت ہوگی۔ سپریم کورٹ نےاصغر خان کیس میں پاک فوج کےملوث افسران کےخلاف 4 ہفتے میں انکوائری مکمل کرنے کا حکم دیدیا۔ جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بنچ نے پیر کے روز اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کے حوالے سے کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل انور منصور ، ڈی جی ایف آئی اے ،بشیر احمد میمن اور درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ پیش ہوئے، ڈی جی ایف آئی اے ، نے بیان کیا کہ ہم نے ہفتہ کے روز ایک متفرق درخواست کے ذریعے اپنی پیشرفت رپورٹ جمع کروادی تھی ،اس پر عدالت کے حکم کے منتظر ہیں ، جسٹس گلزار احمدنے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ فوجی افسران کے خلاف وزارت دفاع نے کورٹ ماشل کے لیے کارروائی کیوں شروع نہیں کی ہے ؟تو انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے اور وہ مکمل ہونے کے بعد معاملہ آگے بڑھے گا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ فوجی حکام تو ایف آئی اے کو ملوث افسران کے ایڈریس تک بتانے کو تیار نہیں ہیں، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایف آئی اے اس کیس سے ہاتھ اٹھانا چاہتی ہے؟ آرمی نے بھی صرف اتنی رپورٹ دی ہے کہ فوجی افسران کے خلاف تحقیقات جاری ہیں،جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ملزم فوجی افسران کا براہ راست کورٹ مارشل کرنے کے بجائے ان کے خلاف انکوائری کیو ں کی جارہی ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ کورٹ مارشل سے پہلے تحقیقات ایک قانونی تقاضا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ریٹائرمنٹ کے کتنے عرصہ کے بعد کورٹ مارشل ہو سکتا ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کسی بھی فوجی ملازم کے خلاف فراڈ یا بدعنوانی کالزام ہو تو کسی بھی وقت اس کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصغر خان کیس میں 28 سال پہلے کروڑوں روپے کی رقم استعمال ہوئی تھی ، جسٹس گلزار احمد نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو بھی پیسہ ملنے کے حوالے سے کیس میں ان کا نام سامنے آیا تھا، لیکن ایف آئی اے رپورٹ میں انکا کوئی ذکر موجود نہیں ہے؟ایم کیو ایم کی کون نمائندگی کررہا ہے ؟جس پر فاضل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ میں الطاف حسین نام موجود ہے لیکن وہ ملک میں موجود نہیں ہیں ، الطاف حسین اور اور چند دیگر ملزمان کی حوالگی کے حوالے سے برطانوی حکومت کے ساتھ حکومت پاکستان کی بات چیت جاری ہے ، بہت جلد اہم پیشرفت متوقع ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ عدالتی فیصلے کو اتنا زیادہ وقت گزر گیاہے اور ابھی تک آپ کو منی ٹریل ہی نہیں مل سکا ہے ؟جن لوگوں نے مڈل مین کا کردار ادا کیا تھا ،کیا ان کا کوئی اتا پتہ ہے ؟ جس پراٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ ساری چیزیں انکوائری میں سامنے آجائیں گی ،جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایف آئی اے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بنکوں میں 28 سال سے زیادہ پرانا ریکارڈ دستیاب نہیں ہے اس لئے شہادت نہیں مل رہی ہے۔

تازہ ترین