• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلم نگری کے راجا رانی ’’سنتوش کُمار، صبیحہ خانم‘‘

سنجیدہ فلموں کے شائقین ،آج بھی سَنتوش کُمار کے نام اور کام سے بہ خُوبی واقف ہیں۔ پچاس کے عشرے سے اپنی شناخت بنانے والے خوش شکل اور تعلیم یافتہ ا داکار نے لوگوں کے دِلوں پر ایک طویل عرصے تک حُکم رانی کی۔بھارت کی ریاست اتّر پردیش(یو پی)سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے گھر 25دسمبر1925ء کو لاہور میں ایک بچّے کی وِلادت ہوئی ، جس کا نام ’’ سیّد موسیٰ رضا‘‘ رکھاگیا۔ موسیٰ رضا بچپن ہی سے انتہائی ذہین،پڑھنے لکھنے کا شوقین تھا۔تعلیمی مدارج تیزی سے طے کرتے ہوئے جب اُس نے میٹرک کا امتحان نمایاں نمبرز سے پاس کیا، تو آگے پڑھنے کی جستجو بھی دو چَند ہو گئی۔ موسیٰ رضا،اتنا خوش شکل اور خوش اخلاق تھا کہ ہر کوئی اُس کی خوش اَطواری، خوش گُفتاری اور مِلن ساری پر مُلتفت ہو جاتا۔ کالج میں پہنچا ،تو اُس کی مَردانہ وجاہت کے چرچے ہر طرف ہونے لگے۔تاہم، خاندانی نجابت کے حامِل سیّد موسیٰ رضا نے اس بات پر کبھی تکبّر نہ کیا، بلکہ ہمیشہ کی طرح منکسر المزاجی سے دوستوں اور ملنے والوںکے ساتھ میل جول برقرار رکھا۔وقت گزرتا گیا اوردیکھتے ہی دیکھتے اُس نے عثمانیہ یونی ورسٹی ،دکّن سے گریجویشن کی سند بھی حاصل کرلی۔ موسیٰ رضاکامستقبل تاب ناک اور عزائم خواب ناک ہو چلے تھے ۔ابھی یہ طے بھی نہیں کیا تھا کہ کون سی راہ اپنائی جائے کہ موسیٰ رضا کے ایک قریبی دوست نے اُسےمشورہ دیا کہ ’’تم انتہائی خوش شکل ہو ، میری مانو تو، فلم انڈسٹری کی طرف نکل جاؤ۔ تمہارے جیسے پڑھے لکھے، مہذّب اور وجیہ و شکیل نوجوان کی صورت میں انڈسٹری کو ایک اچھا چہرہ مل جائے گا۔‘‘ موسیٰ رضا نے دوست کی بات کو ہَنس کر ٹال دیا،مگر وہ دوست کسی طرح ٹَلنے والا نہ تھا۔ سو، اُسی کوششوں سے موسیٰ رضا کوغالباً 1946 ءکے آس پاس ’’میری کہانی‘‘ نامی ایک فِلم میں کام کرنے کا موقع ملا،مگروہ فِلم کام یاب نہ ہوسکی۔ 1947ءمیں ’’کشمیر فِلمز‘‘ کے بینر تلے بننے والی ’’اَہِنسا‘‘ نامی فلم میںموسیٰ رضا کو بہ طورہیرو کاسٹ کیا گیا۔ اُسی برس پاکستان کا قیام بھی عمل میں آیا،موسیٰ رضا کا گھرانہ بھی لاکھوں مسلمانوں کی طرح ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آگیا اور لاہور کو اپنا مَسکن بنایا۔ تقسیمِ ہند سے قبل ،لاہور فلموں کا بڑا مرکز تھا، یہاں ہر وقت بڑی تعداد میں فن کار اور ہدایت کار جمع رہتے ،مگر تقسیم کے بعد وہ اپنے سازو سامان کے ساتھ ہندوستان چلے گئےاور یوںپاکستانی فلمی صنعت میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی،گویا اَب راکھ کے ڈھیر سے آغاز کرنا تھا۔جہاں بہت سے فن کاروں نے بھارت ہجرت کی تھی، وہیں کئی فن کار ایسے بھی تھے، جو بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے۔ایسے ہی فن کاروں ،ہدایت کاروں، موسیقاروں، گیت نگاروںاور پروڈیوسرزمیں سَنتوش کُمار،نورجہاں(یہ گلوکاری کے میدان میں بھی یکتا تھیں)شمیم بانو، غلام محمد،اجمل، خواجہ خورشید انور،فیروز نظامی،رشید عطرے، تنویر نقوی ،غلام حیدر، سبطین فاضلی،شوکت حسین رضوی،نظیر وغیرہ جیسےلوگ شامل تھے۔ نئی مملکت تھی، دیگر شعبوں کی طرح نو آموز پاکستانی فلمی صنعت کو بھی اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے حامل تعلیم یافتہ اور سُلجھے ہوئے افراد کی ضرورت تھی۔پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان کی فلمی صنعت تجربہ کار اور منجھے ہوئے لوگوں پر مشتمل تھی۔اُس وقت ہندوستانی فِلم اسکرین پر، جو نام جگمگا رہے تھے، اُن میں دِلیپ کُمار،نرگس، مدھوبالا،راج کپور،دیو آنند وغیرہ شامل تھے۔ ہندوستانی شائقین اُن کی فلمیں دیکھنے کے لیے بے چین رہتے،گویا ہندوستانی فلمی صنعت ابتدا ہی سے مضبوط بنیادوں پر استوار تھی۔

کلکتہ (موجودہ کول کتہ) اور بمبئی (موجودہ ممبئی)،فلم کے مراکز مانے جاتے تھے۔ دوسری جانب پاکستانی فلمی صنعت تھی، جس میںچند بڑے ناموں (جن میں میڈم نورجہاں کا نام سب سے مستند تھا)اور لاہور کے تاریخی شہر کے ،( جہاں فلمیں بننے کا رواج تھا،)باقی ناموں سے عام لوگ اور نہ ہی فلموں کے شائقین واقف تھے۔ ایسے میں سنتوش کی صورت میں پاکستان فلم انڈسٹری کو ایک تابندہ چہرہ اور ’’سنتوش ،صبیحہ ‘‘کی صورت انڈسٹری کو ایک شان دار فلمی جوڑا میسّر آ گیا، جس کا نام ہی فلم کی کام یابی کی ضمانت قرار پاتا تھا۔سنتوش کو اپنی شخصی وَجاہت اورتعلیمی قابلیّت کی بنا پر بیرونِ ممالک ،پاکستانی فلمی صنعت کا ’’وزیرِ خارجہ ‘‘گردانا جانے لگا۔ گرچہ سنتوش اور صبیحہ نے بہ طور ہیرو اور ہیروئن الگ الگ حیثیتوں میں بھی کئی فلموں میں کام کیا،لیکن اُن کی وہ فلمیں ،جن میں وہ ایک دوسرے کے مدّ ِمقابل تھے،فلم بینوں میں بے حد مقبول ہوئیں۔اُن کی ایسی ہی چند یادگار فِلموں میں ’’قاتل‘‘،’’سات لاکھ‘‘، ’’موسیقار‘‘، ’’وعدہ‘‘،’’مُکھڑا‘‘ ،’’دامَن ‘‘ ’’عِشق لیلیٰ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔

جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے پاکستان ہجرت کی،تو ایک ہنگامی حالت پیدا ہو گئی۔ یہ مناظر بھی دیکھنے میں آئے کہ یہاںپہلے سے مقیم باشندوں نے مہاجرین کے لیے دِیدہ و دل فرشِ راہ کر دئیے۔وقت گزرتا گیا اور1948ءمیں سید موسیٰ رضا کی فلم’’اَہِنسا‘‘ (یہ فِلم 1947 ءمیں بنی تھی)ریلیز ہوئی ،مگروہ کام یاب نہ ہو سکی۔دِل برداشتہ ہوکر اُس نے فلموں کا خیال بھی دِل سے نکال دیااور کسی ایسی راہ کی تلاش میں مصروف ہوگیا، جو اُسے معاشی اور ذہنی تسکین کی طرف لے جانے کا موجب بنے۔ یہ 1950 ء کی بات ہے، جب ہدایت کارمسعود پرویز نے پنجابی زبان میں ایک فِلم ’’بیلی‘‘ بنائی،جس کی کہانی برّصغیر کے مقبول ترین افسانہ نگار اور کہانی کار، سعادت حسن منٹو نے اورگِیت ناظم پانی پتی، امرِتاپریتم اور احمد راہی نےلکھے تھے،جب کہ موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی۔یہ سنتوش کُمار کی پہلی پاکستانی فِلم تھی،اِس میں اُن کے مدّ ِمقابل ، شاہینہ غزنوی (نام ور موسیقار رفیق غزنوی کی بیٹی)کو کاسٹ کیا گیاتھا۔بیلی کی کہانی 1947ءکے ہنگامہ خیز واقعات اور اُس کے نتیجے میں پیش آنے والی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کا اِحاطَہ کرتی تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اِس فلم میں صبیحہ خانم نے پہلی بار اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوئے ایک ڈانسر یا رقّاصہ کا کردار ادا کیا،تاہم، اُن کا کردار مرکزی نوعیّت کا نہیں تھا۔ بیلی کو فلم بینوں کی جانب سے کسی تحسین کا سزاوار نہ گردانا گیا۔شاید فلم کی ناکامی کی وجہ یہ رہی ہو کہ ناظرین ،تقسیم کی تَلخ یادوں کو دُہرانا نہ چاہتے ہوں۔تاہم، سنتوش کُمار اپنی اداکاری اور مردانہ وجاہت کے باعث فلم بینوں کےدِلوں میں اپنی جگہ بنانے میںکام یاب رہے۔ اسی برس ’’نوبہار فلمز‘‘ کے تحت ہدایت کارمرتضیٰ جیلانی اور انور کمال پاشا نے ’’دو آنسو‘‘ بنائی، جس کےکہانی کار، حکیم احمد شجاع پاشااور مکالمہ نگارخود انور کمال پاشا تھے۔فلم کی کہانی حکیم احمد شجاع پاشاکے مشہور ناول’’باپ کا گناہ‘‘ سے مستعار لی گئی تھی۔ حکیم احمد شجاع پاشا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہ تھا،انور کمال پاشا اُن ہی کے بیٹے تھے۔یہ فلم سُپر ہٹ ثابت ہوئی۔ اپنے پَیروں پہ کھڑی ہوتی ، پاکستانی فلم انڈسٹری کی یہ پہلی سِلور جُوبلی فلم تھی۔ نئی مملکت میں اب سنتوش کانام بہ طورر ہیرو تسلیم کر لیا گیاتھا۔ فلم میں صبیحہ نے ’’نوری‘‘ کا کردار ادا کیا، جسے بہت سراہا گیا،تاہم اِس میں بھی کردار مرکزی نوعیّت کا نہ تھا۔مذکورہ سال ہی سنتوش کی دو اور پنجابی فلمیں بھی ریلیز ہوئیں ۔ اب سنتوش کُمار فلم پروڈیوسرز کی ضرورت بن چکے تھے۔گرچہ اُس وقت لالہ سدھیر بھی انڈسٹری میں موجود تھے اور ہیرو کا کردار ادا کر رہے تھے،مگرسنتوش کوملک کاسب سے پہلا ’’رومینٹک ہیرو‘‘ تسلیم کر لیا گیاتھا۔یہ تو سنتوش کُمار کی زندگی کےاُس حصّے کا احوال تھا،جس میں صبیحہ خانم کا کردار شامل نہیں تھا۔وہ دونوں پچاس کی دَہائی میں شادی کے بندھن میں بندھےاور پاکستانی فِلمی صنعت کی’’آن اسکرین‘‘سُپر ہٹ جوڑی، ’’آف اسکرین‘‘ بھی بے حد کام یاب رہی۔

فلم نگری کے راجا رانی ’’سنتوش کُمار، صبیحہ خانم‘‘
ایس سلیمان اور بیوی زرّیں پنّا،خوش گوار موڈ میں

صبیحہ خانم 16اکتوبر1935ءکو گجرات،بھارت میں پیدا ہوئیں،اُن کا اصل نام مختاربیگم تھا۔صبیحہ کی والدہ،اقبال بیگم،امرتسر سے تعلق رکھتی اور تقسیم ِ ہندسے قبل پنجابی فلموں میں ’’بالو‘‘ کے نام سے اداکاری کرتی تھیں۔ والد محمد علی ماہیا دہلی کے رہنے والے تھے۔ دولت و ثروت سے دُور، تاہم، اُن کی فلم نگری سے گہری وابستگی تھی۔پاکستان بننے کے بعد صبیحہ کے والد ین پاکستان آگئے اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔1948ء کی بات ہے کہ ایک ثقافتی وفد نے سیالکوٹ کا دورہ کیا،مختار بیگم بھی اپنے والد کے ساتھ اس وفد کا حصّہ تھیں۔ یہاں اُنہوں نے ایک پنجابی فِلم ’’سسّی پُنّوں ‘‘ کاگانا ’’کِتّھے گیوں پردیسیا وے‘‘سُناکر خوب داد سمیٹی۔ چند ہی دنوں میں اُن کے والد نے اُس زمانے کے ایک مشہور شاعر اور ڈرما رائٹر،نفیس خلیلی سے اپنی بیٹی کا تعارف کروایا اور کہا کہ’’ اِسے اَداکاری کا بے حد شوق ہے ، اگر اِسےکسی ڈرامے میں کام مِل جائے، تو مختارکو بہت خوشی ہوگی۔‘‘ نفیس خلیلی نے سب سے پہلے تومختار بیگم کا نام تبدیل کرکے’’ صبیحہ خانم‘‘رکھا اور ساتھ ہی ایک ڈرامے میں کام کرنے کی پیش کش بھی کردی۔ صبیحہ کوتو شاید ایسے ہی کسی موقعے کی تلاش تھی۔ اُنہوں نے فوری طور پر نفیس خلیلی کی پیش کش قبول کر لی۔اسی کے ساتھ نفیس خلیلی نے اپنے دوست اور فلم ڈائریکٹر، مسعود پرویز سے سفارش کی کہ ’’اس لڑکی کو کسی فلم میں موقع ضرور دینا۔‘‘ ’’بیلی‘‘ وہ فلم تھی ، جس کے ذریعے صبیحہ نے پہلی بارفلمی دنیا میں قدم رکھا۔ اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ بنی ،جس میں صبیحہ نے بھی ایک کردار ادا کیا،مگر وہ اب تک سنتوش کی ہیروئن نہیں بنی تھیں۔1951ءمیں ’’شاہ نورفلمز‘‘ (سیّد شوکت حسین رضوی اور نور جہاں کے نام پر تھا) کے بینر تَلے ایک فِلم ’’چَن وے ‘‘ بنی،جس نے کام یابیوں کے جھنڈے گاڑدئیے۔اِس فلم میں سنتوش کے ساتھ نور جہاں نے مرکزی کر دار ادا کیا۔ ’’چن وَے‘‘کی ہدایت کاری کے فرائض بھی نورجہاں ہی نے انجام دئیے۔ فلم کی کام یابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لاہور کے ایک سینما میں متواتر اٹھارہ ہفتوں تک چلی۔فلم کا ایک گانا’’تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے…وے منڈا سیالکوٹیا‘‘جسے خود نورجہاں نے گایا تھا ،اِس قدر مقبول ہوا کہ گھر گھر گونجنے لگا۔

فلم نگری کے راجا رانی ’’سنتوش کُمار، صبیحہ خانم‘‘
صبیحہ، سنتوش کی نواسی، سرش خان

سنتوش کُمار نے اسی سال ’’اکیلی‘‘ میں بھی بہ طور ہیرو کام کیا،مگر اُس میں بھی صبیحہ اُن کی ہیروئن نہ تھیں۔1951ءمیں صبیحہ کی بہ طور ہیروئن دو فلمیں’’غیرت‘‘اور ’’پنجرہ ‘‘ ریلیز ہوئیں اور دونوں ہی فلموں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔1952ءمیں صبیحہ اور سنتوش دونوں ہی کی کوئی فلم ریلیز نہیں ہوئی ۔ 1953ءمیں صبیحہ اور سنتوش پہلی بار مرکزی کرداروں میں فلم ’’غلام‘‘ کے لیے آمنے سامنے آئے ،پہلی ہی فِلم سے دونوں کی جوڑی مقبول ہوگئی۔سنتوش کی پنجابی فلم ’’شہری بابو‘‘ بھی کام یاب رہی،تاہم ، اُس میں صبیحہ ہیروئن نہیں تھیں۔’’گلنار‘‘ میں سنتوش کے مدّ ِمقابل نورجہاں تھیں اور یہ بھی خاصی کام یاب فلم ثابت ہوئی۔1954ءمیں صبیحہ اور سنتوش دوبارہ فِلم ’’رات کی بات‘‘ میں ایک ساتھ جلوہ گر ہوئے۔گرچہ ،فلم بینوں نے ان کی جوڑی کو بے حد پسند کیا،مگریہ فِلم کا م یاب نہ ہو سکی۔البتہ ،صبیحہ کی فلم ’’گم نام‘‘،جس میں اُن کے مدّ ِمقابل سدھیر ہیرو تھے،باکس آفس پر سُپر ہِٹ رہی، اس فِلم میںاقبال بانو کی گائی ہوئی غزل’’پائل میں گیت ہیں، چھم چھم کے… تُو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے‘‘کو فقید المثال شہرت حاصل ہوئی۔صبیحہ ہی کی اس سال فلم ’’سسّی‘‘ بھی سپر ہٹ رہی ،اس میں بھی اُن کے مدّ ِمقابل سدھیر ہی تھے۔ اس فلم میں کوثر پروین کا گایا ہوا ایک گانا،’’نہ یہ چاند ہو گا، نہ تارے رہیں گے ،مگر ہم ہمیشہ تمہارے رہیں گے‘‘، خاص و عام کی زبان پر آگیا۔1955ءمیں صبیحہ اور سنتوش نے ’’قاتل‘‘ اور ’’انتقام‘‘ میں ایک ساتھ کام کیا۔’’قاتل‘‘ کام یاب رہی اور اس میں اقبال بانو کی گائی ہوئی غزل ’’الفت کی نئی منزل کو چلا ،یوں ڈال کے بانہیںبانہوں میں… دل توڑنے والے دیکھ کے چل ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں ‘‘اور کوثر پروین کا گایا ہوا گانا’’او مینا، نہ جانے کیا ہو گیا‘‘بے پناہ مقبول ہوا۔اسی فلم سے نیّر سلطانہ اور اسلم پرویزبھی متعارف ہوئے۔1956ءمیں دونوں بہت مصروف رہے،جن فلموں میں دونوں نے ایک ساتھ کام کیا وہ ’’حمیدہ ‘‘اور ’’سرفروش‘‘ تھیں اور دونوں ہی کام یاب قرار پائیں۔ 1957 ءبھی صبیحہ اور سنتوش کے لیے کام یابیوں کی نئی داستانیںلے کر آیا۔فِلموں میں ایک ساتھ کام کرتے کرتےیہ جوڑی اَن دیکھے انداز میں ایک دوسرے کے قریب آگئی۔کہتے ہیں کہ ڈبلیو زیڈ احمد کی بنائی گئی فِلم’’وعدہ‘‘ وہ فلم تھی، جس کے دوران، دونوں نے ایک دوسرے کے لیے پسندیدگی کا اظہارکیا ، پھر سنتوش نے صبیحہ سے شادی کی درخواست کی۔ اِس فلم کے چند گانے انتہائی مقبول ہوئے،بالخصوص ’’تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں …جب تِرے شہر سے گزرتا ہوں ‘‘اور’’بار بار بَرسے مورے نَین‘‘،تو آج تک لوگوں کی زبان پر ہیں۔فلم کی موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی تھی۔یہی وہ فلم بھی تھی ، جس کے لیے سنتوش کمار نے پاکستان کی فلمی تاریخ کا اوّلین ’’نگار ایوارڈ‘‘جیتا۔ 1957ء ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’’سات لاکھ‘‘ نے بھی خُوب دُھوم مچا ئی۔اِس فلم میں زبیدہ خانم کے گائے ہوئے گانے ’’آئے موسم رنگیلے سُہانے، جیا نہیں مانے ‘‘، ’’گھونگٹ اٹھا لوں کہ گھونگٹ نکالوں‘‘ ،کوثر پروین کا گایا ہواگانا’’سِتم گَر مجھے بے وفا جانتا ہے‘‘ ،منیر حسین کا ’’قرار لُوٹنے والے ،تُوقرار کو ترسے‘‘اور سلیم رضا کا گایا ہوا گِیت’’یارو مجھے معاف رکھو ،مَیں نشے میں ہوں‘‘ راتوں رات مشہور ہوگئے۔ فلم کی موسیقی رشید عطرے نے دی تھی۔گلوکار منیر حسین اور سلیم رضا کے لیے بھی یہ فلم خوش بختی کا باعث بنی ،کیوںکہ اِس کے بعد اُنہیں بہت سی فلموں میں گانے کے مواقع ملے۔

فلم نگری کے راجا رانی ’’سنتوش کُمار، صبیحہ خانم‘‘
دَرپن، نیّر سلطانہ ،ایک یاد گار تصویر

1957ء ہی وہ سال تھا، جس میں سنتوش اور صبیحہ شادی کے بندھن میں بندھے۔گرچہ سنتوش کُمارپہلے ہی سے شادی شدہ اور اپنی پہلی بیوی جمیلہ کےساتھ خوش گوارزندگی گزار رہےتھے،پھر بھی جمیلہ نے شوہر کی پسند کو دِل سے تسلیم کرتےہوئے ، اپنے شوہر کی دُلہن، خُود سجانے کا فیصلہ کیا۔سنتوش اور صبیحہ ساٹھ کے عشرے کے اوائل تک فِلموں میںمرکزی کردار ادا کرتے رہے۔ 1962ءمیں ہدایت کار قدیر غوری کی بنائی گئی فلم’’موسیقار‘‘نے، جس کی موسیقی رشید عطرےنے دی تھی، سنیما گھروں میں خوب دُھوم مچائی۔فِلم میںنورجہاں، سلامت علی، نزاکت علی، سلیم رضا کے گائے ہوئے گانوں اور صبیحہ ، سنتوش کی اعلیٰ ترین کردار نگاری اور خُوب صُورت جوڑی نے ہلچل مچا دی۔ وقت کے ساتھ صبیحہ اور سنتوش دونوں نے مرکزی کرداروں کے بہ جائے ثانوی کرداروں میں آنا شروع کر دیا۔ ستّر کے عشرے میں بھی دونوں کی فلمی صنعت سے وابستگی برقرا رہی۔ سنتوش نے اپنے وقت کے مقبول ٹی وی پروگرام ’’نیلام گھر‘‘ میں بھی شرکت کی اور اُس کے ہر دل عزیز میزبان ،طارق عزیز کے پوچھے جانے والے تمام سوالات کے دُرست جوابات دے کر ،قیمتی انعام بھی حاصل کیا۔قیامِ پاکستان کے اوّلین برسوں میں اگر سنتوش، پاکستان کی فلم نگری کے بے تاج بادشاہ تھے ،تو صبیحہ ہر لحاظ سے ملکہ کہلانے کی مستحق تھیں۔ سنتوش کُمارکا انتقال 1982ء میں ہوا۔ ان سے متعلق جدید عہد کے معتبر ترین افسانہ نگار، انتظار حسین نے اپنی کتاب’’ چراغوں کا دُھواں‘‘(صفحہ329-30 )میںلکھا کہ’’کیا باغ و بہار آدمی ہیںاور کیسے بانکے سجیلے۔ میں نے شروع میں اُنہیںاُس وقت دیکھا تھا، جب 1948ء کے اوائل میں مسعود پرویز صاحب کی فِلم میں ،جس کی کہانی مَنٹو صاحب نے لکھی تھی، ہیرو کا کردار ادا کر رہے تھے اور مَنٹو صاحب کہتے تھے کہ ’’یہ نوجوان پاکستان کا دلیپ کمار بنے گا‘‘اور اب دیکھ رہا ہوں، جب وہ اداکاری کے کاروبار سے فارغ ہو چکے ہیں،مگر اِسی طرح سُرخ و سفید،وہی سفید بُرّاق کرتا پائجامہ، احساس ہوا کہ بہت باغ و بہار شخصیت ہیں۔‘‘ البتہ،صبیحہ کا فلمی سفر اَسّی اور نوّے کی دَہائی تک جاری رہا ، بالآخر اُنہوں نے بھی فلمی صنعت سے کنارہ کشی اختیار کر کے بیرونِ ملک (امریکا) اپنے بچّوں کے ساتھ زندگی کے دن گزارنا شروع کر دئیے۔ صبیحہ اور سنتوش کے تین بچّے (احسن رضا،فریحہ شہریاراور عافیہ چوہدری) ہیں۔ اِن کی ایک نواسی ،سرش خان ،جارج میسن یو نی ورسٹی اسکول آف لا سے، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس لا گریجویٹ ہیں اور اداکاری کی دنیا سے وابستہ ہیں، وہ فلموں میں کام کرتی ہیں۔

فلم نگری کے راجا رانی ’’سنتوش کُمار، صبیحہ خانم‘‘
تین نسلیں…صبیحہ خانم، فریحہ شہریار، سرش خان

سنتوش کمار کے چھوٹے بھائی’’ درپن‘‘ نے بھی پاکستانی فِلمی صنعت کے اوّلین عشرے میں ،چند بہترین فلمیں پیش کیں۔1928 ءمیں بھارت کی ریاست اُتّر پردیش(یوپی) میں پیدا ہونے والے درپن کا اصل نام ’’سیّد عشرت عبّاس‘‘ تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت ہندوستان ہی میں حاصل کی اور تقسیم کے بعد ہجرت کر کے پاکستان کے اُس دَور کے ادب و ثقافت کے مرکز ،لاہور میں سکونت اختیار کی۔ درپن بھی اپنے بڑے بھائی ،سنتوش کمار کی طرح انتہائی وجیہ و شکیل تھے،چوں کہ سنتوش کمار ابتدا ہی میں فلمی صنعت میں مضبوط مقام بنا چکے تھے۔لہٰذا درپن نے بھی فلم انڈسٹری ہی میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔اُن کی پہلی فِلم’’امانت‘‘ 1950 ءمیں ریلیز ہوئی، تاہم، یہ فلم باکس آفس پر عُمدہ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ 1951ء میں انہوں نے ایک پنجابی فلم ’’بلو‘‘ میں کام کیا۔تاہم،یہ فلم بھی کوئی خاص کام یابی نہ سمیٹ سکی،لیکن یہ ضرور ہوا کہ درپن بہ حیثیت اداکار اپنا نام بنانے میں کام یاب ہو گئے۔لیکن ،درپن کے لیے محض نام بنانا ہی کافی نہ تھا،اُن کی خواہش تھی کہ بڑے بھائی، سنتوش کی طرح وہ بھی فلم کی کام یابی کی ضمانت بن جائیں۔ تاہم، ایسا نہ ہوسکا۔ اُنہوں نے یکے بعد دیگرے چند اور فلموں میں کام کیا،مگر کسی بھی فلم کو باکس آفس پر غیر معمولی کام یابی نہ مل سکی۔ یہ دیکھ کر درپن نے سوچا کہ کیوں نہ،ہندوستانی فلم انڈسٹری میں کوشش کی جائے،چناں چہ انہوں نے ہندوستان کا رختِ سفر باندھااور 1955ءمیں بننے والی ہندوستانی فلم ’’عدلِ جہانگیری‘‘ میں کام کیا۔فلم کی کاسٹ میں مینا کماری اور پردیپ کمار شامل تھے۔اس فلم کو باکس آفس پر شان دار کامیابی حاصل ہوئی،مگر اس میں درپن کا کردارمرکزی نہیں تھا،لہٰذا فلم کی کام یابی سے اُنہیں کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔وہ ہندوستان میں کچھ وقت گزار کر،واپس پاکستان آ گئے،جہاں اُنہوں نے 1957ءمیں بنائی جانے والی فلم ’’باپ کا گناہ ‘‘میں بہ طورر ہیرو کام کیا۔فلم کی کاسٹ میں مسرّت نذیر اور نیّر سلطانہ بھی شامل تھیں، یہ ایک اوسط درجے کی فلم ثابت ہوئی۔ پھر57ء کے اِختتام پر اُنہوں نے ایک اور فلم ’’نورِ اسلام‘‘ میں بھی بہ طورہیرو کام کیا، جوسُپر ہٹ رہی۔ اس فلم کی خاص بات سلیم رضا کی گائی ہوئی وہ فلمی قوّالی(شاہِ مدینہؐ، شاہِ مدینہؐ ،یثرب کے والیؐ ،سارے نبی، تیرے دَر کے سوالی) تھی ،جو ساٹھ برس سے زیادہ مدّت گزر جانے کے باوجود آج بھی مقبولِ عام ہے۔درپن کو صحیح معنوں میں شناخت اِسی فِلم سے حاصل ہوئی۔1959ء میں درپن نے ’’ساتھی‘‘کے نام سے خود فلم بنائی، جس میں انہوں نے نیلو،حُسنہ ،طالش اور ساقی وغیرہ کو کاسٹ کیا۔ فلم ہِٹ ہوئی اور یوں درپن کے اعتماد میں بھی بے پناہ اِضافہ ہو گیا۔1960ءمیں ایس ایم یوسف نے ’’سہیلی‘‘ نامی ایک فِلم بنائی، جس میں درپن کے ساتھ نیّر سلطانہ اور شمیم آرا نےمرکزی کردارادا کیے، اس فِلم نے کام یابیوں کے نئےریکارڈ قائم کر دئیے۔’’سہیلی‘‘ میں نسیم بیگم کا گایا ہوا گانا’’ہم بھول گئے ہر بات، مگر تیرا پیار نہیں بھولے‘‘پورے برّصغیر میں مشہور ہو ا،یہ درپن کے فلمی کیریئر کی سب سے مشہور فلم بھی ثابت ہوئی۔ 1960ءسے1968ء تک، درپن کی کئی فلمیں ریلیز اور مقبول ہوئیں۔اِن فلموں میں ’’رات کے راہی‘‘، ’’گلفام‘‘،’’انسان بدلتا ہے‘‘، ’’قیدی‘‘، ’’آنچل‘‘،’’باجی‘‘(فلم ناکام رہی، لیکن اس کے چند گانے جن میں ’’دل کے افسانے نگاہوں کی زباںتک پہنچے‘‘،’’چندا توری چاندنی میں جیا جلا جائے رے‘‘،’وغیرہ انتہائی مقبول ہوئے) ’’شِکوہ‘‘،’’اِک تیرا سہارا‘‘، ’’نائلہ‘‘، ’صاعقہ‘‘، ’’اک گناہ اور سہی‘‘ اور ’’پائل کی جھنکار‘ ‘ (بہ طور ہیرو درپن کی آخری فلم)، شامل ہیں۔ 1973ء میں درپن نے فلم ’’عظمت‘‘ کی ہدایت کاری کے فرائض بھی انجام دئیے، اِسی فلم میں اُن پرفلمایا گیا، مہدی حسن کا گِیت ’’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں‘‘بے پناہ مقبول ہوا۔

بڑی بڑی آنکھوں اور وجیہ شخصیت سے لاکھوں دِلوں پر راج کرنے والے اَداکار درپن نے ، قدرے شرمیلی اور کم گو،ساتھی اداکارہ نیّر سلطانہ سے شادی کی۔ تاہم، دِل چسپ امر یہ ہے کہ کئی فِلموں میں ایک ساتھ کام کرنے کے باوجود دونوں کی جوڑی، سنتوش اور صبیحہ کی طرح مقبول نہیں تھی۔درپن اور نیّر سلطانہ کے، دو بیٹے (قیصراور علی) ہیں۔ فلمی صنعت کا یہ ستارہ 8 نومبر 1980ء کو لاہور میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا مِلا۔

نیّر سلطانہ نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو صحیح معنوں میں ایک مشرقی عورت کے پیکر سے روشناس کروایا۔ چہرے پر پاکیزہ تبسّم، ہیروئن ہوتے ہوئے بھی، لباس اس طرح زیبِ تن کرنا کہ کسی بھی رُخ سے عامیانہ نہ محسوس ہو،دھیما لہجہ،یہ وہ اوصاف تھے، جو عمومی پاکستانی ہیروئنز میں نہ نیّر سلطانہ سے پہلے کسی میں دِکھائی دئیے اور نہ اُن کے بعد۔ اُن کا اصل نام’’ طیبّہ بانو‘‘ تھا۔ وہ 1937ءمیں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔انور کمال پاشا کی،جو پاکستان کے ابتدائی برسوں کے کام یاب پروڈیوسر اور ڈائریکٹر تھے،اہلیہ شمیم بانو سے نیّر سلطانہ کےوالدین کی رشتے داری تھی۔یہی تعلق آگے چل کر نیّر سلطانہ کو فلم انڈسٹری میں متعارف کروانے کا ذریعہ بنا۔انور کمال پاشا نے1955ء میں ایک فلم ’’قاتل‘‘ بنائی، جس کےمرکزی کردارصبیحہ اور سنتوش تھے۔اسی فِلم کےثانوی کرداروں میں نیّر سلطانہ بھی موجود تھیں۔یہ اُن کی پہلی فلم تھی۔ یہی مسرّت نذیر اور اسلم پرویز کی بھی پہلی فلم تھی۔ اُس کے بعد ’’انتخاب‘‘ نیّر سلطانہ کی دوسری فلم تھی،جس میں انہوں نےاہم کردارکیا۔بس پھر قسمت کی دیوی ایسی مہربان ہوئی کہ تواتر سے فلمیں ملنے لگیں۔دراز قامت اور خُوب صُورت چہرے کی مالک نیّر سلطانہ پر المیہ کردار خوب سجتے اور وہ ایسے کرداروں میں اتنے عُمدہ رنگ بھرتیں کہ یوں معلوم ہوتا ، گویا وہ اداکاری نہیں بلکہ حقیقت نگاری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ’’سہیلی‘‘، ’’باجی‘‘، ’’اولاد‘‘، ’’دلہن‘‘، ’’مہتاب‘‘، ’’ماں کے آنسو‘‘،’’میری بھابی ‘‘وغیرہ وہ فلمیں تھیں ،جن میں نیّر سلطانہ نے اپنی اعلیٰ کردار نگاری سے رنگ بھر دئیے۔نیّر سلطانہ 27 اکتوبر 1992ء کو ا س جہانِ فانی سے کُوچ کرگئیں۔

ایس سلیمان بھی اسی فلمی ستاروں سے پُر’’خانوادے ‘‘کے ایک فردہیں۔اُن کے والد سیّد داؤد نے دو شادیاں کی تھیں۔پہلی بیوی سے سنتوش اور درپن اوردوسری سے ایس سلیمان اور منصورپیدا ہوئے۔ ایس سلیمان کی وجۂ شہرت ،اداکاری کے بہ جائے ہدایت کاری رہی ۔ سنتوش کُمار نے اپنے چھوٹے بھائی ایس سلیمان کو، ہالی وڈ کے بڑے ہدایت کاروں کے نام اور کام سے روشناس کروایا۔ایس سلیمان 29دسمبر 1938ءکوہندوستان کی ریاست، حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔1961میںانہوں نے’گلفام‘‘ کے نام سے اپنی پہلی اُردو فلم بنائی، جس کے ہیرو ،درپن اور ہیروئن مسرّت نذیر تھیں۔فلم کی موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی،اِس فلم نےباکس آفس پر خوب دُھوم مچائی۔یوں ایس سلیمان نے کام یاب ہدایت کارکے طور پر کام کا آغاز کیا۔1963ءمیں فلم’’باجی ‘‘ بنائی،جو ناکام تو رہی،تاہم، اُس کے شان دار گانوں نے دُھوم مچا دئی۔گرچہ بعد کے دو برسوں میں انہوں نے کئی فلمیں بنائیں،مگر وہ کام یاب ثابت نہ ہوئیں۔1966ء میں ایس سلیمان نے ’’لوری ‘‘بنائی، جس کی کاسٹ میں زیبا، محمد علی اور سنتوش شامل تھے۔ یہ بہت کام یاب فِلم ثابت ہوئی، اس میںمجیب عالم کا گایا ہوا گانا ’’میں خوشی سے کیوں نہ گاؤں، مِرا دِل بھی گا رہا ہے‘‘اورآئرن پروین کا گایا ہواگانا ’’تالی بجے بھئی تالی بجے ‘‘بھی بہت مقبول ہوا۔1967ءمیں اُن کی بنائی گئی فلم ’’آگ‘‘ سُپر ہٹ ثابت ہوئی، جس میںمحمد علی اور زیبا ہیرو اور ہیروئن تھے۔فلم کے چند گانے ،جن میں ’’بیتے دِنوں کی یادوں کو کیسے میں بھلاؤں‘‘،’’موسم حسیں ہے، لیکن تم سا حسیں نہیں ہے‘‘، ’’یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ ایس سلیمان نے نوّے کی دَہائی کے اختتام تک فلمیں بنائیں ،اُن کی بعض فلمیں یادگار ثابت ہوئیں۔اُن کی چند یادگار فِلموں میں ’’اناڑی‘‘،’’اُف یہ بیویاں‘‘،’’سوسائٹی‘‘،’’انتظار‘‘،’’بھول‘‘،’’زِینت‘‘،’’پرنس‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ایس ایم سلیمان کی و ہ فلمیں، جواُنہوں نے ندیم اور شبنم کے ساتھ بنائیں، شائقین کو بے حد پسند آئیں۔ایس سلیمان نے معروف رقّاصہ زریں پنّا سے شادی کی۔سنتوش،درپن اور ایس سلیمان کے سب سے چھوٹے بھائی منصور نے بھی چند فلموں میں اداکاری کی،تاہم کام یاب نہ ہونے کے باعث کنارہ کشی اختیار کر لی۔

پاکستان کی نوزائیدہ فلمی صنعت کے لیے سنتوش کُمار کا گھرانہ ایک ستون بن کر سامنے آیا اور ملک کے قیام کے پہلے ہی عشرے میں پاکستان کی فلمی صنعت کو ایک شناخت عطا کی۔ سنتوش اور صبیحہ،درپن اور نیّر سلطانہ بہ حیثیت اداکار مستقل جدّوجہد میں مصروف رہے ، انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں بہترین انداز میں پاکستان فلم انڈسٹری کی نذر کیں ، جس کی بِنا پر پاکستانی فلم صنعت اپنے ابتدائی برسوں میں اپنے پَیروں پر کھڑی ہونے کے قابل ہو سکی۔ایس سلیمان نے ہدایت کاری کے میدان میں فلم انڈسٹری کو چند بہترین فلموں سے نوازا اور یوں اس گھرانے کے افراد نے ہر سطح پر اِس صنعت کی مضبوطی و استحکام میں اپنا کردار اد کیا۔ پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ میں اس خانوادے کی طویل خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

تازہ ترین