• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کی حالت ہی قابل رحم ہے لیکن ن لیگ تو باقاعدہ ابنارمل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے اعصاب بہت ہی بری طرح جواب دیتے جا رہے ہیں۔ ان کی حالت دُم کٹی چھپکلی کی اس کٹ چکی دُم جیسی ہے جو بہت دیر تک بلا وجہ پھدکتی رہتی ہے ۔جن لوگوں نے یہ منظر دیکھا ہے وہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔سچ پوچھیں تو آج سمجھ آئی ہے کہ خواجہ آصف نے ’’کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ جیسا جملہ کس کے لئے بولا تھا ۔علیمہ خان کو NROکا طعنہ دینا ذہنی طور پر دیوالیہ پن کی انتہا نہیں تو کیا ہے؟ انہیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں کہ اس قسم کی چند مزید بونگیاں مارنے کے بعد یہ کوئی ڈھنگ کی بات بھی کریں گے تو غیرجانبدار اور سمجھدار لوگ اس پر کان نہیں دھریں گے۔ علیمہ خان کو خوامخواہ اسکینڈلائز کرنا ہی تھا تو کم از کم NROکا حوالہ ہرگز نہ دیتے کہ دونوں معاملات میں زمین آسمان سے بھی زیادہ فرق ہے لیکن جب مت ماری جائے تو یہی کچھ ہوتا ہے اور صرف ن لیگ ہی کیا پوری اپوزیشن ہی عدم توازن کا شکار ہےورنہ ایسا احمقانہ اعتراض کیسے کرتے کہ ’’کوئی وزیراعظم آئی ایم ایف کے سربراہ سے نہیں ملتا۔‘‘ وزیر اعظم اگر اپنے وزیرخزانہ کا ہاتھ بٹا رہا ہے تو اس میں سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے اور یہ کہاں لکھا ہے کہ جو کسی اور وزیراعظم نے نہیں کیا وہ پاکستان کا وزیراعظم بھی نہیں کرسکتا؟ ملک کو معاشی طور پر ایسی مخدوش حالت میں بھی تو کسی اور نے نہ چھوڑا ہوگا، کتنے کرکٹرز نے پیرانِ تسمہ پا جیسے سیاسی مافیاز کو جڑوں سمیت اکھاڑا ہوگا؟ کس وزیراعظم نے وزارتِ عظمیٰ تک پہنچنے سے پہلے ایسے ہسپتال، یونیورسٹیاں بنائی ہوں گی؟ اور کس وزیراعظم نے فلاپ ہو چکی سیاسی جماعت کو مقبول ترین سیاسی جماعت میں تبدیل کیا ہوگا ؟نیوٹن سے پہلے کسی نے کشش ثقل بھی نہ ڈھونڈی تھی، رائٹ برادرز سے پہلے کسی نے ہوائی جہاز کا پنگا بھی نہ لیا تھا، سلطان محمد فاتح سے پہلے کسی نے لکڑی کے تختوں پر چربی چڑھانے کے بعد جہاز بھی نہیں چلائے تھے، قسطنطنیہ بھی فتح نہیں کیا تھا ۔یہ کیا دلیل ہے کہ’’ ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔‘‘ دراصل ان کا مسئلہ کچھ ہونا نہ ہونا ہرگز نہیں۔ ان کا ’’خفیہ خوف‘‘ یہ ہے کہ اگر عمران جیسے چومکھی لڑنے کے عادی، ہار نہ ماننے والے شخص کو چند سال مل گئے تو پاکستان نامی یہ سونے کی چڑیا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے ہاتھوں بلکہ پنجوں سے ہی نہ نکل جائے کہ یہ تو وہ لوگ ہیں جو میرٹ پر ’’پی سی ایس‘‘ کا امتحان پاس نہ کر سکیں۔پی سی ایس تو دور کی بات ہے یہ تو میرٹ پر پٹواری بھرتی نہ ہوسکیں جو برسوں تک پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے اور آج انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ جائیں کہاں اور کریں کیا ؟اور تو اور ان صاحب کو دیکھو اور’’ تہتر کے آئین کے تناظر‘‘ میں دیکھو تو جو مولانا فضل الرحمٰن کہلاتے ہیں اور اپنی تمام تر فنکاری کے باوجود ’’باہر‘‘ بیٹھے یوں تڑپ رہے ہیں جیسے پانی سے باہر مچھلی بالکل ایسے ہی پھدکتی ہے جیسے چھپکلی کی کٹی ہوئی دم جس کا ذکر میں نے کالم کے شروع میں کیا۔ مولانا فضل الرحمٰن حکومت کے خلاف اسلام آباد کی جانب ملین مارچ اور دھرنے پر غور فرما رہے ہیں۔ مولانا کا دھرنا تو واقعی بہت ’’زوردار‘‘ اور ’’لمبا چوڑا‘‘ ہوگا لیکن کوئی مولانا سے پوچھے کہ یہ ملین مارچ کیا ہوتا ہے ؟یہ سب ٹیڑھی میڑھی انگلیوں سے وکٹری کے نشان بنانے والے نہیں جانتے کہ یہ نشان سب سے پہلے کس نے متعارف کرایا اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ ہاتھوں کی زنجیر بنانے والے نیم خواندہ یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ سلسلہ کب، کیوں، کیسے اور کہاں شروع ہوا۔ بالکل اسی طرح انہیں ککھ علم نہیں کہ ملین مارچ کا مطلب کیا ہے لیکن نہیں ....’’تہتر کے آئین ‘‘کے تناظر میں یہ ہاتھ پاؤں مارنے سے کبھی باز نہیں آئیں گے اور ہاتھ پاؤں مارنے سے پہلے حالات کی تبدیلی پر بھی غور نہیں فرمائیں گے ،نہ یہ جان پائیں گے کہ دلدل میں ہاتھ پاؤں مارنے سے غرق ہونے کا پروسیس تیز تر ہو جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں ایک ایسا مضحکہ خیز ملک دیا جس میں دواؤں کی نگرانی کے لیے قائم کیے گئے ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان(ڈریپ) کا سربراہ ڈاکٹریٹ کیے بغیر پوری ڈھٹائی سے اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ لکھتا ہے ۔HECاس یونیورسٹی کو ہی جعلی قرار دیتی ہے جہاں سے یہ اپنی نام نہاد ڈاکٹریٹ حاصل کرتا ہے لیکن شیخ اختر نامی یہ شخص اپنے دفاع میں دلیل دیتا ہے کہ جس یونیورسٹی سے میں نے ڈاکٹریٹ کی وہ سری لنکا میں تسلیم شدہ ہے یہ علیحدہ بات کہ ایچ ای سی اسے تسلیم نہیں کرتا۔ بندہ پوچھے تو یہاں کیوں چمٹا ہوا ہے، سری لنکا کیوں نہیں جاتا؟11فروری کو ’’جنگ‘‘ کے فرنٹ پیچ پر سٹار رپورٹر عمرچیمہ کی ایک رپورٹ چھپی ہے جس میں اس جعلی ڈاکٹر اور ’’ڈریپ‘‘ کے ’’مستقل سی ای او‘‘ بارے ایسے حقائق پیش کئے گئے ہیں کہ آدمی سر پکڑ کے بیٹھ جائے۔ یاد رہے کہ ’’ڈریپ‘‘ پاکستان کی چند معروف ترین سونے کی کانوں میں سے ایک ایسی کان ہے جس کی عام پاکستانی کو کانوں کان خبر نہیں کہ بھارت کے مقابلہ پر یہاں جو دوائیں انہیں کئی گنا زیادہ قیمت پر خریدنی پڑتی ہیں، ان کے پیچھے کن فنکاروں کے ہاتھ ہوتے ہیں۔میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروںتمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانےعمر چیمہ کی یہ رپورٹ ری پروڈیوس کروں تو کالم طویل ہو جائے گا۔ بہتر ہو گا خود پڑھ لیں تاکہ جان سکیں کہ آپ کس ملک، ماحول اور معاشرے میں زندہ ہیں۔اسی تصویر کا دوسرا رخ یہ کہ پندرہ مرغیوں کی چوری کے الزام میں محمد زاہد نامی ایک پاکستانی گزشتہ ایک سال سے اڈیالہ جیل میں قید بھگت رہا ہے جبکہ پندرہ ارب،پندرہ کھرب لوٹنے والے؟؟؟ یہ ہے وہ پاکستان جو ان لوگوں نے ہمیں تحفہ میں دیا اور آج کل ملین مارچ کے منصوبے بنا رہے ہیں۔بلین کھانا اور ملین مارچ کے منصوبے بنانا ان کی ہابی ہے۔

تازہ ترین