• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست کی بساط کے معرکے نہایت کٹھن اور صبر سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔

’’جمہوریت میں حکومت عوام کی ہوتی ہے، عوام پر کی جاتی ہے اور عوام کے لئے کی جاتی ہے‘‘ ذات کا محاسبہ، تجزیہ نفس اور مطالعہ باطن ان کا خاصہ نہیں۔

من حیث القوم شارٹ کٹ کے دلدادہ اور محنت سے جی چرانے میں ہی عظمت سمجھنے والے انتشار کے شکار معاشرے میں قانون کی حکمرانی، آئین کی بالادستی اور احتساب کے نام پر عوامی حقوق اور ان کے چھوٹے چھوٹے مفادات سے کھلواڑ کی کچھ درد ناک اور خوفناک تصویریں میرے سامنے بکھری پڑی ہیں۔

پہلی تصویر:یہ ایک ستر سالہ بزرگ ہے جس کا سر پولیس تشدد کے بعد پھٹا ہوا ہے اور اس سے نکلنے والا خون اس کے سفید کپڑوں پر بہہ رہا ہے اور اس کی آنکھوں سے اشک رواں کی نہر جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک بوڑھی خاتون پھوٹی آنکھوں پر ہاتھ رکھے درد سے کراہ رہی ہے۔ یہ کراچی میں پاکستان کوارٹرز میں سرکاری رہائش گاہیں خالی کرانے کے لئے پولیس آپریشن کے خلاف احتجاج کرنے والے وہ مکین ہیں جنہیں منتشر کرنے کے لئے واٹر کینن اور لاٹھی چارج کا بہیمانہ استعمال کیا گیا تھا۔ فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 6اہلکاروں سمیت 16افراد زخمی ہوئے تھے۔ مکینوں کی بڑی تعداد نے حکومت کے خلاف نعرہ بازی کی تھی۔ ایک لیڈر نے اس موقع پر شعلہ بیانی کی آگ بھڑکاتے ہوئے فرمایا تھا کہ 50لاکھ نئے مکانوں کی بات ہو رہی ہے اور یہاں اصل پاکستان بنانے والوں کو دربدر کیا جا رہا ہے اور ان کے گھروں کو ’’مقبوضہ پاکستان کوارٹرز‘‘ بنا دیا گیا۔ صورتحال نازک ہونے پر اعلیٰ سطحی رابطوں کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس قانونی آپریشن کو دو ماہ کے لئے موخر کرنے کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔

دوسری تصویر:کراچی کے خالد نامی رکشہ ڈرائیور نے اپنے آپ کو آگ لگا رکھی ہے وہ ٹریفک پولیس اہلکار کی جانب سے رشوت مانگنے اور نہ دینے کی صورت میں چالان کرنے پر نالاں تھا اور محنت مشقت کر کے حلال روزی کمانے، ناجائز تنگ کئے جانے پر دلبرداشتہ خود سوزی کرنے والا یہ محنت کش زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسا۔

تیسری تصویر:کراچی کے ہی علاقہ گلبہار خاموش کالونی میں سڑک کنارے کھڑے رکشہ سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ وجہ محض یہ کہ سی این جی نہ ملنے پر غربت اور حالات سے تنگ رکشہ ڈرائیور انپے حواس کھو بیٹھا اور اپنا ہی رکشہ آگ میں پھونک ڈالا۔ اس نے خود سوزی کی کوشش بھی کی تاہم موقع پر موجود لوگوں نے اسے پکڑ کر پولیس اور فائر بریگیڈ کو طلب کر لیا۔ نیم پاگل دکھائی دینے والے شاہد کا کہنا ہے کہ اس نے دو ماہ سے مکان کا کرایہ ادا نہیں کیا، مالک مکان تقاضا کر رہا ہے اور اپنے بچوں کی بیماری کے باعث وہ پریشان ہے۔

چوتھی تصویر:لاہور کے چلڈرن اسپتال میں ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت سے ہلاک ہونے والے دو ماہ کے بچے کے لواحقین سراپا احتجاج ہیں۔ ان کے مطابق دو ماہ کے احمد مختار کو بخار کے باعث قصور سے چلڈرن اسپتال علاج کے لئے لائے تھے۔

پانچویں تصویر:لاہور کے مصطفیٰ ٹائون کی کرامت بستی کے رہائشی مستری رمضان کی نعش پر اس کے ورثاء لیسکو حکام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ متوفی رمضان ایک عمارت میں پلستر کا کام کر رہا تھا کہ اچانک قریب ہی لٹکتی ہوئی 11ہزار کے وی کے تاروں سے چھو گیا اور کرنٹ لگنے کے باعث موقع پر جاں بحق ہو گیا۔

چھٹی تصویر: کراچی کے گلشن اقبال میں درزی کا کام کرنے والا شہری اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے نشانات دکھا رہا ہے، جسے نجی بینک کے ملازمین نے 13ہزار روپے کی ریکوری کے لئے بینک کے اندر مرغا بنا کر تھپڑ، گھونسے اور لاتیں رسید کیں۔ معزز شہری کا موقف ہے کہ بینک ملازمین اسے اسلحہ کے زور پر اٹھا کر لے گئے جبکہ وہ 50ہزار میں سے 28ہزار روپے قرض واپس کر چکا ہے۔ پولیس نے تشدد کرنے والے بینک ملازمین کو گرفتار کر لیا۔

چند مزید خبریں۔ بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکائونٹس کے معاملے پر ایف آئی اے نے عبوری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی جس کے مطابق 35اہم سیاسی شخصیات کی دبئی میں قیمتی جائیدادیں ہیں جن میں پولیس آفیسر، ریٹائرڈ جنرل، بیورو کریسی اور وزارت خارجہ سے وابستہ ریٹائرڈ افسران کے نام شامل ہیں۔ چند روز پیشتر سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل رہی جس میں کم و بیش پندرہ بیس وکلاء کمرہ عدالت میں پنجاب پولیس کے ایک اے ایس آئی کی درگت بنا کر اسے زدوکوب کرتے ہوئے باہر لے جا رہے تھے۔ ہمارے ملک میں قانون کی کتنی عزت ہے یہ ویڈیو اس کا منہ بولتا ثبوت تھی اور اسی کے ساتھ جڑی ایک خبر کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ ملک بھر میں زیر التواء مقدمات میں سے 71فیصد مقدمات پنجاب میں ہیں جنہیں نمٹانے کے لئے ہمارے پاس وسائل نہیں ہائیکورٹ کے 52جج صاحبان کے پاس ڈیڑھ لاکھ کے قریب مقدمات زیر التواء ہیں۔ مسائل ہیں لیکن تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر عدالتی نظام میں بہتری لا سکتے ہیں۔ انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ وہ نظام میں بہتری کے لئے تجاویز دیں گے تو ان پر غور کیا جائے گا۔

نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے گا۔ زرعی اراضی پر بوٹ ہوں یا انصاف کے کالے سوٹ، چوڑی سڑکوں کو تنگ کرتے پتھا رے ہوں یا میڈیا کے اڑتے رنگین غبارے، ہر ہاتھ میں اب یہاں لاٹھی ہے اور جو چاہے بھینسیں ہانک کر لے جائے۔ میری بطور کالم نویس تجویز تو خیر کیا لیکن غور کے لئے’’امریکی جنگ آزادی کی شروعات‘‘ کے عنوان سے ولیم ایل لینگر کی ایک تحریر پیش خدمت ہے۔

’’امریکہ میں آباد کاری کو فروغ حاصل ہوا تو مختلف ریاستیں وجود میں آ گئیں۔ ان لوگوں نے تجارت، زراعت اور صنعت و حرفت میں خاصی ترقی کر لی۔ یہاں تک کہ برطانیہ کو اپنے مصارف کے لئے مزید روپے کی ضرورت پیش آئی اور ایسے قوانین تیار کئے گئے جن کی بناء پر ان ریاستوں سے نئے ٹیکس وصول کرنے کا انتظام ہوا۔ اس دوران اشٹام کا قانون جاری کیا گیا جس کے مطابق تجارتی اور قانونی دستاویز کے علاوہ پمفلٹوں، اخباروں، جنتریوں، تاش وغیرہ پر بھی اشٹام وصول کیا جانے لگا۔ پھر ایک قانون منظور ہوا کہ اگر برطانوی فوجیوں کے لئے بیرکیں کافی نہ ہوں تو انہیں سرائوں میں رہنے کا حق حاصل ہو گا۔ ان قوانین کے ذریعے بعض لوگوں نے عدالتوں کے ذریعے سے چارہ جوئی شروع کر دی۔ 1965ء کو نیو یارک میں مختلف ریاستوں کے نمائندے جمع ہوئے تاکہ اشٹام کے قانون کے خلاف بادشاہت اور پارلیمنٹ کے پاس عرضداشتیں بھیجیں۔ اس اجتماع میں نو امریکی ریاستوں کے 28نمائندے شریک تھے جنہوں نے اپنے حقوق کے متعلق بھی ایک اعلان منظور کیا۔ 1966ء میں یہ قانون منسوخ ہو گیا۔

آخری گزارش یہی ہے کہ قانونی احکامات کی عوامی تشریحات اور اس کے حتمی نتیجہ کی آخری صورت سے بچنے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ مقبوضہ پاکستان کوارٹرز کا احتجاج نومولود کی موت پر احتجاج کرتے لواحقین کی آہ بکا اور رکشہ جلا کر خود سوزی کرنے والے ڈرائیوروں اور لاہور اور کراچی کی سڑکوں پر پولیس سے لڑتے بھڑتے مشتعل عوام کے دلوں میں لگی آگ کو ٹھنڈا کریں۔ کہیں یہ آگ بجلی اور گیس کے بلوں کو بھسم کرتے کرتے اشرافیہ کے دامنوں تک نہ پہنچ جائے۔

تازہ ترین