• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:سید علی جیلانی…سوئٹزرلینڈ
اللہ تعالیٰ نے جب یہ کائنات ، آسمان اور حضرت انسان کو تخلیق کیا تو دنیا میں ہر چیز کی مخالف چیز بھی رکھی ہے جیسا کہ زمین آسمان، دن رات، محبت نفرت، حق باطل، سچائی جھوٹ،اچھائی برائی، عورت، مرد، خوشی اور غم۔ انسان کے ساتھ خوشی اور غم انتہائی اہمیت کے حامل ہیں غم کئی طرح کے ہیں کسی کا بھائی، والد، ماں بہن مرجاتی ہے تو انسان کو اپنے پیارے کو کھونے کا غم بے انتہا ہوتا ہے کسی کو بیماری یا کاروبار میں نقصان کا غم یا نوکری نہ ملنے کا غم یامحبوب سے شادی نہ ہونے کا غم اس طرح خوشی کی بھی انسان کی زندگی میںبڑی اہمیت ہے، پیدائش کی خوشی، امتحان میں  پاس ہونے کی خوشی، محبوب کو بچانے کی خوشی ، مکان خریدنے کی خوشی،نئی گاڑی خریدنے کی خوشی، روزہ رکھنے کی خوشی پھر عید منانے کی خوشی وغیرہ وغیرہ یوں تو انسانی معاشرے میں بے انتہا تہوار ہیں جن کو ہم مناتے ہیں خوشیاں مناتےہیں لیکن آج کل ایک تہوار جو کہ مسلم معاشرے میں بھی کافی مقبول ہورہا ہے اسے’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کہتےہیں اس دن تو ماشاء اللہ پھول بیچنے والوں کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ ایک ایک پھول 500سے ہزار روپے اور گلدستہ 4 ہزار سے 8 ہزار روپے میں فروخت ہوتےہیں، غبارے بیچنے والوں نے سوچا ہم کیوں پیچھے رہیں انہوں  نے بھی دل نما غبارے بنادیئے ان کی بھی عید شروع ہوگئی پاکستانی قوم بھی ماشاء اللہ اس تہوار کو منانا شروع ہوگئی اور ہمارے میڈیا نے اور پرائیویٹ چینلز اس تہوار کے موقع پر خصوصی پروگرام بھی نشر کرنا شروع کردیئے ہیں۔پچھلے سال ہم نے دیکھا کہ ویلنٹائن ڈے پر کافی مخالف ردعمل آیا اور کچھ حضرات اس دن کی حمایت میں بولے اور کچھ مخالف، شدید مخالف ردعمل خیبر پختونخوا میں نظر آیا جہاں اسمبلی نےویلنٹائن ڈے کے خلاف مذمتی قرارداد منظور کی اور ضلع کوہاٹ میں کارڈز اور دوسری اس دن سے منسوب چیزوں پر پابندی لگادی اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس دن کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور کئی ٹاک شو منعقد ہوئے جس میں کسی دن کو اسلامی ثقافت کے منافی قرار دیاگیا اور مذہبی جماعتوں نے بھی ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے کراچی میں بھی ساحل سمندر پر جانے کی پابندی لگادی گئی ۔ہماری قوم کو ماشاء اللہ دوسری قوموں کے تہواروں اور رسموں سے بہت جلدی مرعوب ہوتی ہے انہوںنے تو صدر پاکستان کے اس بیان کو ان کی نئی زندگی میں مداخلت قرار دیا، آخر یہ ویلنٹائن ڈے ہے کیا اور کیوں منایاجاتا ہے اگر دنیا میں نظر ڈالیں تو یہ کرسمس کے بعد دنیا میں منایاجانے والا دوسرا بڑا تہوار ہے اگر ہم اس دن کا تاریخی پس منظر دیکھیں تو برسوں سال پہلے رومن امپائر کے دور میں بادشاہ کلوڈیس ثانی ملک میں ایک بڑی آرمی تشکیل دینا چاہتا تھا لیکن نوجوان اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے جس کی وجہ سے حکومت بڑی پریشان تھی،نوجوانوں کے اس روئیے پر بادشاہ کلوڈیس بڑا ناراض ہوا اور اس نے نوجوانوں کی شادی پر پابندی لگادی، اسی زمانے میں روم میں ایک پادری رہا کرتاتھا جس کا نام ویلنٹائن تھا، اس نے بادشاہ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی خفیہ شادی کرانا شروع کردیں اور یہ بھی سننے میں آیا کہ پادری ’’ ویلنٹائن‘‘ نوجوانوں کو شادی کے بغیر لڑکیوں کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنے کی بھی ترغیب دینا تھا جب بادشاہ کلوڈیس کو اس پادری کے بارے میں پتہ چلا تو اس کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا لیکن کیونکہ پادری ویلنٹائن نوجوانوں میں بے انتہا مقبول ہوچکا تھا اس لئے نوجوان اس کے قید خانے کے باہر پھول اور کارڈز رکھ دیا کرتےتھے آخر بادشاہ کے حکم پر پادری ویلنٹائن کو 14فروری کوپھانسی دے دی گئی اور اس طرح اس کی یادمیں ہر سال 14فروری کو ویلنٹائن ڈے منایاجاتا ہے اور دنیا کہ نوجوان لڑکے، لڑکیاں  پھول اور تحفے ایک دوسرے کو بھیجتے ہیں ہماری پاکستانی قوم دنیاکے ساتھ بغیر سمجھے سوچے اس ڈگر پر چل پڑی ہے ہمارےنوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہ نہیں سوچتے اس تہوار کی ہمارے معاشرے اور مذہب میں کوئی گنجائش نہیں اور ہم اسلام کی اخلاقی اقدار کا مذاق اور دھجیاں اڑارہے ہیں بس مغرب کی دنیا اس تہوار کو منارہی ہے ہم بھی منانا شروع ہوگئے اصل میں ویلنٹائن ڈے کی تاریخ عیسائیت اور یہودیت سے ملتی ہے یہ ایک بڑا کمرشل رسومات کا جال ہے جس میں ہماری قوم کو نہیں پھنسنا چاہئے ہمیں ہمیشہ کوئی تہوار منانے سے پہلے اس کے تاریخی پس منظر کو جاننا ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی تہوار معاشرے کی ثقافت کے امین ہوتےہیں۔ اگر ہم کسی کو تحفہ دینا چاہتے پھول دینا چاہتے ہیں تو اس کے لئے کوئی تاریخ یا دن مقرر نہیں ہے ہمیں ایسی رسومات اور تہواروں سے پرہیز کرنا چاہئے جس کے ہمارے نوجوانوں پر سرے اثرات پڑیں اور ہمارا معاشرہ بگڑ جائے، بڑی طاقتوں اور مغرب کی یہ بھی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم قوم کو اخلاقی طورپر پست کردو، اس لئے وہ مغربی لباس پھر اخلاق سے گری ہوئی فلمیں بناتے ہیں تاکہ مسلم معاشرے کو گزند پہنچاسکیں ہم نے اسلامی اقدار، اخلاقیات، ثقافت اور معاشرے کو بلند رکھنا ہے جس طرح ہمارے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے ہمیں بتایا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں اسلام کی صحیح روح کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور اسلام کے سچے اصولوں پر چلیں تو اس دنیا میں گناہوں سے بچنے کے بعد قیامت کے دن خدا اور اس کے رسول کے سامنے شرمندہ نہیں ہوںگے۔
تازہ ترین