• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ہر تھوڑے عرصے بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ یا سانحہ پیش آجاتا ہے کہ اس کی وجہ سے ملک میں قانون،پولیس اور انصاف کی فراہمی کے نظام کے بارے میں بحث چھڑ جاتی ہے۔ اگر چہ ایسا دہائیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے، لیکن اس کا حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ گزشتہ دنوں ساہیوال میں پیش آنے والے سانحےکے بعد بھی ایسی ہی بحث چھڑی ہوئی ہے۔اس مرتبہ اس ضمن میں نئی بات یہ ہےکہ وفاق،پنجاب اورخیبرپختون خوامیںاس سیاسی جماعت کی حکومت ہےجو برسوں سے پولیس کے محکمے میں اصلاحات کے بارے میں بہت زور وشور سے بات اور مطالبات کرتی رہی ہے۔وزیر اعظم،عمران خان اور ان کے ساتھی بہ ظاہر اب بھی اس بارے میں پُر جوش دکھائی دیتے ہیں،لیکن تاحال اس ضمن میں وہ کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکے ہیں،البتہ وعدے اور دعوے بہت ہیں ۔چناں چہ آج پھر یہ بات شدّومد سے کہی جارہی ہے کہ یہاں خواص اور عوام کے لیےقانون اور انصاف کے علیحدہ علیحدہ معیارات ہیں۔دوسری جانب عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لیے حکومت کے دعوے اور سرکاری منصوبے ہیں۔ لیکن آج بھی بہت سے افراد یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں انصاف کب اور کیسے ملے گا۔اس بارے میں آئے روزاخبارات میں کسی غریب کی بپتا خبر کی صورت میں شایع ہوکر ہمارا منہ چڑاتی رہتی ہے۔

پاکستان کا آئین تمام شہریوں کے قانونی طور پر مساوی ہونے کی یقین دہانی کراتا ہے:

آرٹیکل 25 : شہریوں سے مساوات

1 - تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حق دار ہیں۔

2- جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔

3 - اس آرٹیکل میں مذکور کوئی امر عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے لیے مملکت کی طرف سے کوئی خاص اہتمام کرنے میں مانع نہ ہو گا۔

لیکن کیا حقیقت میں ملک کا ہر شہری قانون کی نظر میں برابر ہے؟ اس سوال کا جواب صوبہ سندھ کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس،شعیب سڈل کی زبانی سن لیں، جنہیں ملک کا بہت دیانت دار،راست گو اور با اصول شخص مانا جاتا ہے۔کچھ عرصہ قبل انہوں نے کراچی کے ایک ہوٹل میں’’ پلڈاٹ‘‘ کی جانب سے منعقدہ تقریب سے خطاب کیا تھا۔اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ پولیس کاناقص نظام انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ سندھ میں پولیس کا نظام ناقص ہے۔ صوبے میں انصاف تک رسائی کا بحران اس حد تک سنگین ہوچکا ہے کہ غربت کی سطح سے نیچے رہنے والوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ پولیس میں ایف آئی آر کا نظام خراب ہے۔ ڈنڈا مار پولیس کا دور نہیں رہا ۔ قانون سب کے لیے برابر ہوتا ہے۔شعیب سڈل کا کہنا تھا کہ ملزم کا 14 روز کا ریمانڈ انگریزوں کا قانون ہے۔ تفتیشی رپورٹ میں ملزمان کے دست خط نہیں ہوتے صرف ایف آئی آر میں دست خط لیے جاتے ہیں۔ ثبوت کی عدم موجودگی میں ملزمان کو دورانِ تفتیش تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تھانے میں ایس ایچ او تین برس کا دورانیہ مکمل نہیں کرتا،بلکہ تین ماہ میںاس کا تبادلہ کردیا جا تاہے ۔

ان حالات میں لوگ سوال کرتےہیں کہ عدلیہ کی آزادی کے باوجوداب بھی پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں مقدمات کیوں زیر التواءہیں،کیاکبھی یہ مقدمات ختم بھی ہو سکیں گے،ہماری عدالتیں اتنی آسانی سے مقدمات کیسے التوا میں ڈال دیتی ہیں؟اس کے ذمے دارپولیس والے ہیں، وکیل ہیں، عدالتیں یا پھر استغاثہ؟ صرف الزام لگنے کی صورت میں لوگوں کو برس ہا برس جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں،اس کا ذمے دار کون ہے ؟ جیلوں میں وقت گزارچکے سیاست داں جب اقتدار میں آتے ہیں تو یہ مسائل حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟

بعض ماہرینِ آئین اور قوانین کے مطابق اس صورت حال کے ذمے دار ہم سب ہیں ۔کسی ایک شخص یا ادارے پر اس کا کُلّی بوجھ نہیں ڈالاجاسکتا۔پاکستان کے قیام کوطویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی انگریزوں کے دیے ہوئے قانونی ضابطوں کے ساتھ شرعی عدالتیں، قبائلی جرگے اور دیہی پنچایتیں سماج کی مختلف سطحوں پر کام کر رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میںسرکاری طورپرکوئی قانونی نظام موجود نہیں۔لیکن آبادی کی وسیع اکثریت اس سرکاری نظام سے انصاف کے حصول کے لیے درکار مالی وسائل سے محروم ہے۔ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ یہاں انصاف انتہائی پےچیدہ، سست رفتار اور منہگاہے اور صحت، تعلیم اور روزگار سمیت دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی کی طرح امیروں اور طاقت ورں کی مکمل دست رس میںہے۔ ان حالات میں ایتھنز کے معروف شاعر، قانون ساز اور سیاست دان سولون کا یہ قول یاد آتا ہے کہ ’’قانون مکڑی کے جالے کی طرح ہے، جس میں چھوٹی چیزیں پھنس جاتی ہیں اور بڑی اسے پھاڑ کر نکل جاتی ہیں۔‘‘

ظلم ثابت ہونے کے باوجود پولیس والے صاف بچ نکلتے ہیں

سماجیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تمام طبقاتی سماجوں کے لیے یہ بات درست ہے، لیکن سرمایہ داری کے بحران کے اس عہد میں پاکستان جیسے ملک میں انصاف کا حصول ایک شدید نفسیاتی اور مالی مسئلہ بن چکا ہے۔ وکیلوں کی فیسوں اور عدالتو ں کے اخرجات کی وجہ سے بھی نچلی عدالتوں سے انصاف لینا غریب طبقات کے لیے تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سطح پر ملک کے پانچ فی صد سے زیادہ لوگ انصاف حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔چناں چہ ایسے میں اگرکوئی پولیس والاکسی پر کوئی جھوٹا الزام لگادےتواس کی پوری زندگی اس الزام کو غلط ثابت کرنے میں گزر جاتی ہے اور قانونی موشگافیوں کی وجہ سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ شخص خود کو سچّا ثابت نہیں کرپاتا۔اور اگر وہ شخص متعلقہ پولیس اہل کار کو جھوٹا ثابت کردے تب بھی عموما ایسے اہل کارکو کوئی سزا نہیں ملتی۔اس ضمن میں تازہ مثال راو انوارکی پیش کی جاتی ہےجن پر چارسو سے زاید افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام ہے،لیکن وہ محکمہ پولیس سے ’’باعزت‘‘ طورپر ریٹائر ہوچکے ہیں اور زیرِ سماعت قیدی ہونے کے باوجوداپنے گھر میں ’’سب جیل ‘‘کے ’’مزے‘‘لوٹ رہے ہیں۔ دوسری جانب نقیب اللہ محسود کے والد اور دیگر عزیزعدالتوں کے دھکّے کھارہے ہیں۔اسی ضمن میں ماضی کی ایک بہت واضح مثال کراچی کے مشہورزمانہ افضل حیدر کیس کی ہے۔اس کیس کے مرکزی کردار کا نام ارشد کمال کیانی ہے،جوافضل کی گرفتاری کے وقت(1987) آرٹلری میدان تھانے میں اسٹیشن ہائوس آفیسرکی حیثیت سے تعینات تھا اور بعد میں ڈی ایس پی کی حیثیت سے ریٹائر ہوا۔ارشد کمال کیانی نے افضل پر جو مقدمات قائم کیے تھے وہ عدالتوں میں غلط ثابت ہوئے،لیکن مذکورہ افسر کے خلاف ایک نوجوان کے اٹھارہ قیمتی سال ضایع اور قانون کا غلط استعمال کرنے پر کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی اور وہ بھی راو انوار کی طرح ملازمت سے ’’باعزّت‘‘ ریٹائر ہوا۔

کراچی کی مرکزی جیل سے2007 میںافضل حیدر جرمِ بے گناہی میں اپنی زندگی کے 18 قیمتی برس گزار کر رہا ہوا۔ پولیس نے اسے کراچی، لاہور اور فیصل آباد میں درج اٹھارہ مقدمات میں ملوّث ظاہر کیا تھا۔ وہ گرفتاری کے وقت تیئس برس کا تھا۔ جیل سے رہائی کے وقت اس کی عمراکتالیس برس تھی۔ وہ اپنے مقدمات کے سلسلے میں سندھ اور پنجاب کی مختلف جیلوں میں رہا۔ اس نے طویل قانونی جنگ لڑی اور متعلقہ عدالتوں نے اسے تمام مقدمات سے بری کیا۔اس کے بہ قول وہ بے گناہ تھا اور پولیس کے ایک اہل کار نے اسے ذاتی دشمنی کی بھینٹ چڑھایا۔ دوسری طرف پولیس کے اس اہل کار کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں اس پر لگائے جانے والے تمام الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں اور اس نے جو کچھ کیا وہ اس کے فرائض کا تقاضا تھا۔ افضل کی کہانی ہمارے معاشرے کی ایک کرب ناک اور حقیقی کہانی ہے، جس میں معاشرے کے کئی کرداروں کی حقیقی تصویر نظر آتی ہے۔

تبدیلی نچلی سطح سے لانا ہوگی

قانونی ماہرین کے مطابق ملک کے عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لیے ہمیں نچلی سطح سے کام کا آغاز کرنا ہوگا۔ان کے بہ قول انگریزوں کی اس خطے سے واپسی کے بعد تعزیراتِ ہند پاکستان کو ورثے میں ملاجس کا زیادہ تر حصہ سابق برطانوی بھارت کا تھا جسے مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کا نام دیا گیا۔پاکستان کے موجودہ فوج د اری نظام میں بے شمار فنی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے ہمارا قانونی نظام بے گناہ شہریوںکے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔ فوج داری نظامِ انصاف میں اصلاحات اور بہتری کے بغیر معاشرے کی اصلاح کے ساتھ ملک سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی ناممکن ہے۔ فوج داری نظامِ انصاف کے تین اہم شعبے عدلیہ، پولیس اور پراسیکیوشن ہیں۔ مقدمے کے اندراج، تفتیش، گواہان کے تحفظ سے لے کرشہادت پیش کرنے تک کی ذمے داری پولیس کی ہے۔ امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری بھی اسی ادارے کی ہے۔

تفتیشی افسر جو چاہے، وہ کرے

مقدمہ درج ہونے کے بعد تفتیش کا مرحلہ آتا ہے۔ اگرچہ ملک میں تفتیش کے شعبے کو واچ اینڈ وارڈ سے علیحدہ کر دیا گیا ہے، لیکن عملاً تفتیشی افسران سے تمام کام لیے جا رہے ہیں۔ تفتیشی افسر قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی سمیت تمام جرائم کے مرتکب ملزمان کو بےگناہ قرار دینے سے لے کر ملزم کو مستغیث اور مستغیث کو ملزم بنانے تک کا اختیار رکھتا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگرچہ مستغیث دادرسی کے لیے پولیس کے اعلیٰ حکام سے رجوع کر سکتاہے ،لیکن اس طرح کی تفتیش یا تواپنے حکّامِ بالا کے حکم سے ہوتی ہے یا کسی دوسرے دنیاوی فائدے کی خاطر ہوتی ہےاور مستغیث کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔تفتیشی افسران تفتیش کے بنیادی نکات سے ناواقف ہوتے ہیں اور جدید سائنسی تیکنیک بہ شمول فنگر پرنٹس، ای ایم آئی سی اور کال ڈیٹا ریکارڈ،فورینزک شہادت کے حصول کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے۔ زیادہ تر تفتیشی افسران یا تو ان جدید سائنسی ٹیکنیکس کے استعمال کا طریقہ کار نہیں جانتے یا کام کی زیادتی اور پیشہ ورانہ صلاحیت کے فقدان کی وجہ سے کام سے کتراتے ہیں۔

پولیس کے محکمے کی کارکردگی پر گہری نظر رکھنے والے افراد کے مطابق تفتیشی افسران کا یہ رویہ صرف معمولی جرائم کی تفتیش کے دوران نہیں ہوتا بلکہ اغواء، اغواء برائے تاوان، قتل، ڈکیتی، دہشت گردی اور ناجائز قبضے کے مقدمات میں بھی تفتیش کا انداز عمومایہ ہی ہوتا ہے۔ تفتیشی افسران اور پولیس کی یہ بے حسی مظلوم فریق میں مخالفانہ اور انتقامی جذبات پیدا کرتی ہے اور معاشرے میں انتہا پسندی کا موجب بنتی ہے۔ تفتیشی افسران اور پولیس پر اُن کے اعلیٰ حکام کے چیک اینڈبیلنس رکھنے اور احتساب کے نظام کو بہت بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف کارروائی کے دوران کچھ عرصہ قبل کراچی میںڈاکٹر عاصم کو گرفتار کیا گیاتھا۔ صوبائی حکومت کی طرف سے ڈاکٹر عاصم کی رہائی کے لیے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔تفتیشی افسر کے اختیارات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف دہشت گردی کی دفعات ختم کر کے متعلقہ تفتیشی افسر نے ملکی تاریخ میں پہلی بار دفعہ 497 ضابطہ فوج داری کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصم کو ضمانت پر رہا کرنے کا پورا منصوبہ ترتیب دے کر اس پر عمل بھی کر دیا۔ تاہم صوبائی حکومت اور پیپلزپارٹی کی قیادت کا خواب انسداد دہشت گردی کی عدالت کے متعلقہ جج نے چکناچور کر دیاتھا۔

پراسیکیوشن کا شعبہ فوج داری نظامِ انصاف میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔اس شعبے میں تجربہ کار، اہل اور محنتی افراد کی کمی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ عدالتوں کی رہنمائی اور امداد کے لیے لائق اور محنتی پراسیکیوٹرز پر مشتمل ایک نیا، آزاد اور سیاست سے پاک غیرجانب دار محکمہ قائم کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ کے حکم کی بھی متعلقہ صوبائی حکومتوں نے دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ سبین محمود قتل کیس میں ڈرائیور ،گواہ کا قتل اور ولی بابر کیس میں چھ گواہان کا قتل ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں گواہان کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ دہشت گردی اور خوف ناک جرائم کی تفتیش میں ابتدائی طور پر پولیس کرائم سین سے فورینزک سائنس کی مدد سے شواہد اکٹھا کرنے میں ناکام رہتی ہے اور گواہان کو خطرناک ملزمان ڈرادھمکا کر اپنے خلاف گواہی دینے سے باز رکھتے ہیں۔ایسے میں عام آدمی کو کیسے انصاف مل سکتا ہے؟

پولیس کو سیاست سے پاک کیے بغیر بہتری نہیں لائی جاسکتی

ماہرینِ جرمیات کے مطابق جدید دور میں جرائم پر قابو پانے کے لیے فورینزک لیباریٹری کا تحصیل اور ضلع کی سطح تک قیام کرائم سین کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ تفتیشی افسران کی فورینزک سائنس لیباریٹری،نادرا اوربینک ریکارڈ تک رسائی سے تفتیش میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔تاہم پولیس کو سیاست سے پاک کیے بغیر کسی بھی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ پولیس میں ہر سطح کی بھرتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر کی جانی چاہیے۔ اہل کاروںاور افسران کو جدید خطوط پر تربیت دینے کا آغاز کیا جانا چاہیے۔پولیس کی تنخواہیں بہتر کر کے محکمے میںاحتساب کا سخت نظام قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

پولیس کے محکمے میں اصلاحات کے لیے ہمارے اپنے لوگوں کی بہت سی تجاویزسامنے ہیں۔دنیا بھر کے ماڈلز انٹرنیٹ پر دست یاب ہیں ۔لیکن پاکستان میں اب تک ’’وہ‘‘ دست یاب نہیں ہے۔ ’’وہ‘‘، جسے سیاسی قوّتِ ارادی کہتے ہیں۔جس روز ’’وہ‘‘ مل گئی، پولیس کا قبلہ خود بہ خود درست ہونا شروع ہوجائے گا۔دیکھتے ہیں کہ اس بار اُمّید بر آتی یا نہیں۔

  …… عوام کا اعتمادبہت ضروری ہے ……

جرائم سے پاک معاشرے کے قیام میں سب سے اہم رکاوٹ یہ ہے کہ پولیس پر عوام کا اعتماد نہیں ہے، اسے بحال کیا جائے، متعلقہ سرکاری اہل کاروں کا احتساب ہو اور انہیں جائز انداز میں کام کرنے کی آزادی دی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس ایک ادارے کی صورت میں کام کرے، اسے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے اور وی آئی پی کلچر ختم ہو۔ موجودہ حکومت نے ایسا کرنے کا عندیہ تو دیاہے ، لیکن حالات و واقعات کچھ اور کہتے ہیں۔ حکومت کو اپنے وزراء کو یہ سمجھانا چاہیے کہ وی آئی پی کلچر ختم ہو گا تو اس کے مثبت اثرات نچلی سطح تک پہنچیں گے۔ پولیس والے وی آئی پی ڈیوٹی کریں گے تو عوام کی شکایات پر کون توّجہ دے گا۔

پولیس پر عوام کے اعتماد کی بحالی کے لیے جرم کی ایف آئی آر کا اندراج بھی ضروری ہے۔ اس حوالے سے پولیس کے رویّے میں تبدیلی آنی چاہیے۔کراچی میں رپورٹنگ سیل کا قیام اس ضمن میں اچھا قدم تھا، لیکن وہاں بھی پولیس اہل کار بیٹھتے ہیں تو پھر فرق کیا ہوا؟پولیس اور قانون پر نظر رکھنے والوں کی تجویز ہے کہ رپورٹنگ سینٹرز کو کمیونٹی کے ذریعے چلایا جائے اورمتعلقہ علاقے کے معزّز افراد بھی وہاں بیٹھیں۔ کمیونٹی پولیسنگ اچھاقدم ہے ۔ لیکن یہاں بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ضروری ہے ۔ کمیونٹی پولیسنگ کے لیے بنیادی ڈھانچا علاقے کے لوگ فراہم کرتے ہیں اور کچھ حد تک اخراجات بھی برداشت کرتے ہیں۔ کراچی کے بعض علاقوں مثلاً پی ای سی ایچ ایس کے بلاک نمبر 6، الحمرا سوسائٹی اور ڈیفنس میں سی پی ایل سی کمیونٹی پولیسنگ کے نظام کا کام یابی سے تجربہ کیا گیا۔وہاں اس کا انتظامی نظم و نسق علاقے کے عوام کے ہاتھوں میںدیا گیا۔ڈیفنس میں ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی اور کلفٹن میں کنٹونمنٹ بورڈ سے مل کر سی پی ایل سی نیبرہُڈ کے بینر تلے یہ کام ہوا۔

کمیونٹی پولیسنگ کے نظام کا مرکزی نکتہ تو جرائم کی روک تھام ہے، لیکن اس کے ذریعے سڑکوں، اسٹریٹ لائٹس، سیوریج، پارکس اور ٹریفک کے نظام کی بہتری کے لیے بھی کام ہونا چاہیے۔ سی پی ایل سی نیبر ہُڈ کے بینر تلے علاقے کے عوام کے ساتھ مل کر ان مسائل کے حل کی کوششں کرنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا جس کے لیے ہر شعبے کے لیے علیحدہ علیحدہ کمیٹیز بنانے کی تجویز سامنے آئی تھی۔لیکن وہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔

 ایف آئی آر کا اندراج ،جوئے شیر لانے کے مترادف

مذکورہ ماہرین کے بہ قول عوام شکایات درج کرانے کے لیے پولیس سے رجوع کرتے ہیں۔شکایت کنندہ عام آدمی ایک طرف چوری، ڈکیتی، قتل، جائیداد، مکان، دکان پر ناجائز قبضے وغیرہ سے متاثر ہوتا ہے اور دوسری طرف پولیس اس کی شکایت درج نہیں کرتی۔ ایس ایچ او ،جو ہر قابلِ دست اندازی جرم کی رپورٹ درج کرنے کا قانوناً پابند ہے، جان بوجھ کر اپنے فرائض سے پہلوتہی کرتا ہے۔اندراجِ مقدمہ میں تاخیر یا اس سے انکار کی مسلسل شکایات کے بعد مجموعہ ضابطہ فوج داری میں ترمیم کر کے ہر ضلعے کے سیشن ججز اور ایڈیشنل سیشن ججز کو دفعہ 22-A اور 22-B ف کے تحت جسٹس آف پیس کے اختیارات دیے گئے۔ اگرچہ جسٹس آف پیس، ایڈیشنل سیشن ججز کے حکم سے شکایت کنندہ کی اس ضمن میں داد رسی ہو جاتی ہے، لیکن اسے جرم سے تحفظ ملتا ہے اور نہ جائے وقوعہ سے فنگرپرنٹ سمیت کوئی شہادت اکٹھی کی جا سکتی ہے جس سے ملزم کے خلاف ثبوت اور ٹھوس سائنسی انداز میں شہادت جمع کرنے کا بہترین موقع ضایع ہو جاتا ہے۔

عام آدمی قانونی پے چیدگیوں سے لاعلم ہوتا ہے لہذا اندراج مقدمہ میں اس تاخیر کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مظلوم فریق شکایت کی دادرسی نہ ہونے پر قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بااثر ملزمان کم زور اور مظلوم فریق کو دادرسی سے محروم کرنے کے لیے دھمکیوں سمیت تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ کرائم سین سے ابتدائی اور سائنسی انداز میں شہادت جمع نہ کرنے اور اندراج مقدمہ میں تاخیر کا تمام تر فائدہ بااثر ملزمان کو ہوتا ہے۔پھر وہ عدالت سے ضمانت حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں اورمقدمے میں شک کا فائدہ حاصل کرکے بری ہو جاتے ہیں۔

تازہ ترین