• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، نیپال بھوٹان اور مالدیپ پر مشتمل جنوبی ایشیاء کے آٹھ ملکوں کے ذرائع ابلاغ کی تنظیم سیفما (SAFMA) کے زیر اہتمام شائع ہونے والے2012ء کے”میڈیا مانیٹر“ نے بتایا ہے کہ گئے سال کے دوران مذکورہ بالا ملکوں کے پچیس صحافیوں کو ان کے فرائض کی ادائیگی کے دوران موت کے گھاٹ اتارا گیا جن میں سب سے زیادہ صحافیوں کا تعلق پاکستان کی بدنصیب سرزمین سے ہے جہاں اکیسویں صدی عیسوی کے بارہویں سال میں تیرہ میڈیا پرسنز کو قتل کیا گیا۔ سال2000ء سے2012ء تک کے بارہ سالوں میں عالمی دہشتگردی کا سب سے زیادہ نشانہ بننے والے پاکستان کے 80صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا جن میں سے32گولیوں کا نشانہ بنے، آٹھ کو اغواء کرکے قتل کیا گیا، تین کے سر تن سے جدا کئے گئے اور37دہشتگردی کی وارداتوں اور خودکش حملوں کی زد میں آکر مارے گئے اور یوں پاکستان میکسیکو کے بعد اخبار نویسوں کے لئے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا۔
”میڈیا مانیٹر“ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال2012ء کے دوران ہندوستان کے پانچ، بنگلہ دیش کے تین، افغانستان اور نیپال کے دو ،دو صحافیوں کو قتل کیا گیا، اگرچہ سری لنکا، بھوٹان اور مالدیپ میں گزشتہ سال کے دوران کسی صحافی کو قتل نہیں کیا گیا مگر انہیں بے پناہ مشکلات ،دھمکیوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ یہ آزمائشیں جنوبی ایشیاء کے ملکوں کے ذرائع ابلاغ کے حالات کار کا لازمی حصہ بن چکی ہیں۔ زیادہ تر پاکستانی صحافیوں کی زندگیاں دہشتگردی کی براہ راست زد میں آئے ہوئے صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بے قانون قبائلی علاقوں میں تلف کی گئی ہیں۔
طویل عرصہ تک ریاست کے آمرانہ جبر سے نبرد آزما ہونے اور آزادی اظہار کے حقوق تک رسائی کی جدوجہد میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرنے کے بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ غیر ریاستی عناصر کے جبر و استحصال کی زد میں آگئے ہیں اگرچہ ادارہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 2006ء میں منظور ہونے والی قرار داد نمبر1736میں متنازعہ علاقوں میں صحافتی فرائض ادا کرنے والے میڈیا پرسنز کی خصوصی حفاظت کی ضمانت طلب کی گئی تھی مگر اس تمام عرصہ میں انہیں اس نوعیت کا کوئی خصوصی تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکا۔ خاص طور پر صحافتی آزادیوں کے بعد صحافیوں کو حقائق تک رسائی حاصل کرنے میں بے شمار
مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کوشش میں 80 صحافیوں کا قتل انتہائی دردناک صورت حالات کا ثبوت پیش کرتا ہے۔سال 2012ء کے میڈیا مانیٹر کی اشاعت کے حوالے سے ایک تازہ ترین تقریب میں بعض صحافیوں نے خیال ظاہر کیا کہ براہ راست قتل کی تیرہ وارداتوں کے علاوہ بھی بہت سے میڈیا پرسنز کو بلواسطہ طور پر موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے اور اس سلسلے میں کچھ دخل حکومت اور حکمرانوں کی عدم توجہی، فرض ناشناسی، بے حسی اور غفلت کا بھی ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ آزادی صحافت کی بعض یقین دہانیوں کے باوصف صحت مند اور ذمہ دار صحافت کے لئے موزوں اور مثالی حالات کار وجود میں نہیں لائے جاسکے اور بعض ریاستی اداروں نے صحافت کی آزادی کو قبول کرنے کی ذمہ داری کا ثبوت پیش نہیں کیا خاص طور پر”نوکرشاہی“ اپنے اختیارات اور پرانی حاکمانہ روش میں کسی لچک کی اجازت نہیں دے رہی۔اس سلسلے میں نام نہاد پریس ٹرسٹ آف پاکستان کے اخبار ”امروز“ لاہور، ملتان کے آخری ایڈیٹر شفقت تنویر مرزا مرحوم کا حوالہ دیا جاتا ہے جو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اپنے جائز حقوق کی جنگ جیتنے کے بعد بھی سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر بے نیل مرام اس دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہوگئے اور حکومت ان کے حق میں ہونے والے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کے ا فسر شاہانہ فرض کی ادائیگی پر مجبور ہے تاکہ ان کے پس ماندگان کو ان کا حق نہ مل سکے۔ مرزا صاحب مرحوم کی روح اپنے حکمرانوں سے کہہ سکتی ہے کہ #
میرے کچھ زخماں تے تیرا ناں وی لکھیا ہویا اے
میرے کچھ درد اں دا دارو ترے کول وی ہوندا سی
اس سلسلے میں ایک حوالہ حقیقت پسندانہ پاکستانی صحافت کے بہتر مستقبل کے لئے انتہائی مفید اور ممدو معاون آرکائیوز (Archive) تیار کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والے دانشور محمد سلیم خواجہ عرف احمد سلم کا بھی ہے جن کا ہیپا ٹائٹس سی کا مرض ڈیڑھ سال پہلے ان کے جگر کے کینسر میں تبدیل ہوگیا تھا تب سے اب تک ان کے سہیل وڑائچ اور مشتاق صوفی جیسے اندرون ملک اور بیرون ملک دوست احباب ان کے جگر کے ٹرانس پلانٹ کے لئے مدد حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں مگر ابھی تک ان کو #
کوئی صورت نظر نہیں آتی
کوئی امید بر نہیں آتی
مگر وہ شفقت مرزا مرحوم کی طرح آخری دم تک مایوسی کو گناہ سمجھیں گے۔
تازہ ترین